گول//ماہ صیام تو چلا گیا اب عید آنے والی ہے اور بازار میں لوگوں کا رش بھی بڑھتا ہی جا رہا ہے اورلوگ خریداری کرنے میں مصروف ہیں لیکن اس دوران ذخیرہ اندوز زیادہ سے زیادہ منافع کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور پورے بازار میں کسی بھی چیز کی قیمت ایک جیسی نہیں ہے۔جہاں ایک دکاندار کیلے ساٹھ روپے درجن فروخت کرتا ہے وہیں اس کے ساتھ والا دکاندار ستر روپے اسی طرح سے کریانہ میں بھی دالوں میں من مانی قیمتیں رکھی گئی ہیں جس وجہ سے لوگوں کوکافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان قیمتوں کو اعتدال پر لانے کے لئے انتظامیہ ناکام ہی ثابت ہو رہی ہے ۔ماہ صیام سے قبل بھی اگر چہ بازار میں انتظامیہ نے چیکنگ کی لیکن بعد میں وہی ہوا جو دکانداروں نے چاہا ۔ وہیں یہاں پرمختلف ایجنسیوں سے مرغ فروش بھی گنگا میں ڈبکی لگا کر ہی جاتے ہیں وہ بھی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے گول سے کچھ نہ کچھ گول کر کے ہی جاتے ہیں ۔ایک مہینے سے گول بازار میں مرغوں پر لڑائیاں دکھنے کو ملیں اور انتظامیہ نظر تو دیتی تھی لیکن قیمتوں کو اعتدال پر لانے میں ناکام ہی ثابت ہوہی ۔ جموں یا دیگر جگہوں سے آنے والے مرغ فروشوں کے پاس پکی بلیں نہ ہونے کے با وجود انتظامیہ کچھ نہیں کر سکتی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ گٹھ جوڑ ہے جس وجہ سے انتظامیہ بھی کارروائی کرنے سے قاصر ہے ۔سرکاریں تو اشتہارات پر بڑے ہی نرالے انداز میں دکانداروں سے بلیں مانگنے کے کی باتیں بولتی ہیں لیکن یہ صرف ٹیلی ویژنوں اور اخبارات تک ہی محدود ہیں زمینی سطح پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔گول میں اس وقت بھی جو بھی مرغ فروش آتے ہیں پکی بل نہیں ہوتی ہے اور مختلف قیمتوں پر یہاں پردکانداروں کو مرغ فروخت کرتے ہیں ۔پچھلے جمعہ کو جہاں دکاندار 45سے60روپے کلومرغ فروخت کرتے تھے وہیں دوسری جانت بازار میں مہندرا گاڑیوں میں 110فی کلو مرغ بکنے لگے اور پورے گول بازار میں افرا تفری مچ گئی لڑائیاں شرو ع ہوئیں اور بالآخر کچھ دیر کے لئے دکانداروں نے بھی110روپے فی کلو کے حساب سے مرغ فروخت کئے اور بعد میں انتظامیہ کے ساتھ مل کر130روپے مرغ فروخت کرنے لگے اور آج سات دن کے بعد پھر سے 145روپے مرغ فروخت کرنے لگے ۔ آج گول بازار میں انتظامیہ نے چیکنگ کی اور مختلف دکانداروں جن میں سبزی فروش ، نانوائی ، گوشت ، مرغ فروش ، کریانہ وغیرہ شامل تھے کو ہدایت دی کہ وہ قیمتوں کو اعتدال پر رکھیں لیکن انتظامیہ کے سامنے ہی مختلف نرخوں میں ایک ہی چیز ملنے لگی۔ اور جب بیو پار منڈی کی دکان پر انتظامیہ پہنچی جہاں پر بیو پار منڈل کے صدر نے بہتر نرخ نامہ پیش کیا اور بتایا کہ یہ اچھا نرخ نامہ ہے اسی کے حساب سے تمام کریانہ دکانداروں کو سامان فروخت کرنا چاہئے اس موقعہ پربیوپارمنڈل نے صاف انکار کر دیاکہ یہ لوگ کچھ مانتے ہیں اور انتظامیہ بھی چپ چاپ دیکھتی ہے اور پورے بازارکا چکر کرٹنے کے بعد اپنی روایت پوری کر دی ۔وہی اس دوران لوگوں نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انتظامیہ ان لوگوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور انہیں اپنا حصہ ملتا ہے جس وجہ سے یہ نرخوں پرقابو پانے میں ناکام رہی ہے ۔ آج کے چیکنگ اسکارڈ میں نائب تحصیلدار گول گلزار احمد بٹ،ٹی ایس او گول گلزار احمد ،ایس ایچ او گول محمد امین بٹ ،بی ایم او گول بشیر احمد تراگوال موجود تھے جنہوں نے گول بازار میں چیکنگ کی اور کچھ دکانداروں سے جرمانہ بھی وصول کیا ۔