فتح اللہ گولن ڈھکی چھپی شخصیت کے حامل ہیں۔ ایسے لوگ آسانی سے لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتے۔ وہ اپنی سوچ اور ارادوں کو ایک خاص حلقے تک محدود رکھتے ہیں۔ گولن اپنے خول میں بند رہنے کے فن میں ماہر ہیں۔ وہ کبھی کبھی میڈیا کے سامنے آتے ہیں مگر اس انداز سے کہ لوگ ان سے ہمدردی محسوس کریں۔ کہیں وہ بلڈ پریشر چیک کرا رہے ہوتے ہیں اور کہیں دوا لے رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ یہ دکھانے کے لیے ہے کہ وہ امریکا میں مقیم ہیں تو صرف علاج کی غرض سے، اور کوئی مقصد نہیں۔گمنامی یا ’’لو پروفائل‘‘ میں رہنے والی شخصیات عام طور پر اپنی بات ایک خاص حلقے کی حدود میں رہتے ہوئے کرتی ہیں۔ اور اگر کبھی عوام سے براہِ راست بات کرنا پڑے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگ ان کی بات آسانی سے سمجھ نہ پائیں اور بس غور ہی کرتے رہ جائیں۔ اپنے حلقے سے باہر یہ لوگ عموماً خاموش رہتے ہیں یا بہت ہی کم بولتے ہیں۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ فریق ثانی کی بات سن رہے ہیں جب کہ اُن کا ذہن تیزی سے کام کر رہا ہوتا ہے، نئے منصوبے تیار کر رہا ہوتا ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ وہ سب کے ساتھ ہیں مگر در حقیقت یہ لوگ صرف اپنے قریبی یا اندرونی حلقے کے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔یہاں عرب دنیا اور ترکی کے مزاج اور حالات کا فرق سمجھنا لازم ہے۔ عرب دنیا میں مطلق العنان حکمرانوں نے مخالفین کو کچلنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ معمولی اختلاف کرنے والوں کو بھی ٹھکانے لگایا جاتا رہا ہے۔ عرب حکمرانوں نے عبادات پر کبھی کوئی قدغن نہیں لگائی مگر جب بھی کوئی شخص معاشرتی اور سیاسی تبدیلی کی بات کرتا ہے، وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں اور نظام کو بدلنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے والے یا ایسا سوچنے والوں کو نہیں چھوڑتے۔ترکی میں معاملات اس سے بہت مختلف رہے ہیں۔ کمال اتا ترک کے دور سے ’’عربوں کا مذہب‘‘ زندگی کے ہر معاملے سے خارج کرنے کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ کئی نسلیں الحاد اور مادّہ پرستی کے سائے میں جوان ہوئی ہیں۔ یہ لوگ جب عملی زندگی میں کچھ کرنے کے قابل ہوئے تو مذہب کے خلاف صف آرا رہے۔ انہی میں سے حکمران بھی آئے، جو الحاد اور سیکولر ازم کو ہر معاملے کی بنیاد بنانے پر کمر بستہ رہے۔ انہوں نے زندگی کے ہر شعبے سے اسلام کو دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ تعلیمی ڈھانچا پورا کا پورا سیکولرائز کردیا گیا، جس کے نتیجے میں آنے والی نسلیں الحاد اور لادین بنتی رہیں۔ایسے ماحول میں اسلام کا احیا پرامن طریقوں سے ہی ممکن تھا۔ جو لوگ اسلام کی بات کرنا چاہتے تھے، وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ ایسا کچھ نہ کریں جس سے لوگ متنفر ہوجائیں اور اپنی طرز زندگی کے لیے کوئی بڑا خطرہ محسوس کریں۔ اسلام کی بات کرنے والے غیر محسوس طریقے سے یہ پیغام دیتے تھے کہ اسلام جدید مغربی طرز زندگی کا مخالف نہیں اور اس سے ہم آہنگ ہو نے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ترکی میں صوفی گروپ پہلے سے موجود تھے، جن سے حکومتی نظام کو بظاہر کوئی خطرہ نہ تھا مگر اسلام کی بات کرنے والے اپنی الگ شناخت چاہتے تھے۔ صوفی گروپوں سے بھی ان کے روابط تھے اور کسی حد تک ہم آہنگی بھی تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ اپنی الگ شناخت قائم کریں۔ انہوں نے یہ محسوس کرانے کی بھی کوشش کی کہ وہ لہو و لعب میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کے لیے تیار ہیں اور بدعنوان لوگوں کو بھی۔
فتح اللہ گولن اسی ماحول کی پیداوار ہیں۔ جہیمن العتیبی کی طرح وہ بھی انتہائی باصلاحیت ہیں مگر ان میں موقع شناسی اور چالاکی جہیمن سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ صبر و تحمل سے کام لینے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے جہیمن کی طرح خود کش حملہ آور کے سے انداز سے سامنے آنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ سیکولر عناصر کے ساتھ چلتے رہے ہیں۔ ان میں گھل مل کر انہوں نے ہر وہ کوشش کی ہے، جو بھرپور کامیابی کے لیے کی جانی چاہیے۔ فتح اللہ گولن نے سابق صدر کنعان ایورن جیسے انتہائی سیکولر ذہن کے حامل شخص کے ساتھ بھی کام کیا اور سابق وزیر اعظم سلیمان دیمرل کے دور میں بھی نمایاں کام کیا۔ یہ دونوں ترکی میں اسلام کے احیا کی ہر کوشش کا قلع قمع کرنا اپنا فرض گردانتے تھے۔ کنعان ایورن اور سلیمان دیمرل نے فتح اللہ گولن کو استاذ نجم الدین اربکان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ نجم الدین اربکان ترکی میں اسلام کا اس کی روح کے ساتھ احیاء چاہتے تھے۔ فتح اللہ گولن نے کنعان ایورن اور سلیمان دیمرل کو بھی ایک طرف ہٹاکر اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کی۔سیکولر عناصر اپنی راہ میں کوئی بھی رُکاوٹ برداشت نہیں کرتے۔ وہ ہر حال میں اپنے اقتدار کی طوالت چاہتے ہیں۔جیسے ہی وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اقتدار کی راہ میں کوئی دیوار کھڑی ہو رہی ہے، وہ اس کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اقتدار کو محفوظ رکھنے اور طول دینے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے ذاتی تحفظ سے بھی غرض ہوتی ہے۔ اس معاملے میں کوئی بھی ان کی نفسیات سے خوب کھیل سکتا ہے۔
ایردوان کو چالاکی سے مات دینے میں شکست:
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ رجب طیب ایردوان نے اختلافات کے باوجود فتح اللہ گولن کی راہ میں کوئی بڑی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ملک کی انتظامی مشینری میں قابل اور اسلام کی طرف واضح رجحان رکھنے والوں کی کمی تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے میں ایردوان نے دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ گولن تحریک سے بھی استفادہ کیا۔ گولن کے بہت سے معتقدین کو اہم سرکاری عہدوں پر فائز کیا گیا۔ایردوان کو سمجھنے میں گولن سے غلطی ہوئی۔ ایردوان میں غیر معمولی دور اندیشی ہے۔ وہ ملک کے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے ملک کے طویل المیعاد استحکام کو ہمیشہ اولیت دی ہے۔ انہوں نے ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے والوں سے گلوخلاصی کی جامع حکمت عملی تیار کی ہے۔ ایردوان واضح کرچکے ہیں کہ وہ ریاست کے اندر ریاست کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اس معاملے میں انہیں موت کی بھی پروا نہیں کہ کفن ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انہوں نے اہم سرکاری عہدوں پر فتح اللہ گولن کے خیالات سے اتفاق کرنے والوں کو فائز کرنے میں بخل یا سختی سے کام نہیں لیا مگر یہ بھی سچ ہے کہ فتح اللہ گولن نے ایردوان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، انہیں دھوکا دیا۔ ایردوان کو سرکاری مشینری میں اسلامی رجحان رکھنے والوں کو کھپانا تھا۔ اس معاملے میں افرادی قوت انہوں نے گولن تحریک سے بھی لی۔فتح اللہ گولن سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے شدید خود اعتمادی کی لہر میں یہ سمجھ لیا کہ اب وہ ایردوان کو بلیک میل کرکے اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکیں گے۔ ۲۰۱۱ء کے عام انتخابات کے موقع پر گولن نے ایردوان کو ۱۰۰؍افراد کے نام پیش کیے اور ان کے لیے انتخابی ٹکٹ کی فرمائش کی۔ یہیں سے بگاڑ پیدا ہوا۔ ان میں سے کوئی ایک نام بھی ایسا نہ تھا جسے مقبولیت حاصل ہوئی ہو اور عوام میں ان کی جڑیں بھی نہ تھیں۔ انہوں نے گولن کی دی ہوئی فہرست مسترد کردی۔ یہ بات گولن کو سیخ پا کرنے کے لیے کافی تھی۔