روزانہ ایک گھنٹہ ورزش
بچوں کی ذہنی نشونما کیلئے اہم
فکرِ اطفال
لیاقت علی
جہاں ایک طرف جدید سائنس نے انسان کے لیے کئی آسائشیں پیدا کردی ہیں تو وہیں دورِ جدید کی تیز رفتار زندگی نے انسان کو فطرت سے بھی دور کردیا ہے۔ آج کے زمانے میں انسان ’’اِن ڈور‘‘ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم اپنے اِرد گِرد بھی اگر ایک نظر دوڑا کر دیکھ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ گھر میں اور کام کی جگہ پر بھی ایک چھت تلے اپنا زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔
دورانِ سفر بھی زیادہ تر لوگ ایک طرح سے ’’اِن ڈور‘‘ ہی رہتے ہیں۔ ہمارا یہ ’’لائف اسٹائل‘‘ دیکھنے میں تو ہمیں بہت ہی سہل اور پْرآسائش معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ہم سست ہورہے ہیں اور ہماری صحت بھی متاثر ہوتی جارہی ہے کیونکہ سہل پسندی کے باعث ہمارا مدافعتی نظام ’’کمزور‘‘ اور ’’نازک‘‘ ہوتا جارہا ہے۔
ماہرین کے مطابق، آج کے تیز رفتار دور میں فطرت سے جْڑے رہنے اور اچھی صحت کو قائم رکھنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے روز مرہ کے معمولات میں روزانہ کی بنیاد پر ورزش کے لیے وقت مختص کرے۔ ورزش کا اوسط یومیہ دورانیہ 30منٹ سے کم نہیں ہونا چاہیے، تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر شخص کو روزانہ ایک گھنٹے تک ورزش کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے دنیا بھر کے نوجوانوں کو اس اہم روزمرہ کی سرگرمی کے لیینہ تو فرصت ملتی ہے اور نہ ہی انھیں ضروری وسائل دستیاب ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کیا کہتا ہے؟
صحت کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 11 سے 17 سال کی عمر کے ہر 5میں سے 4بچے صحت مند طرزِ زندگی کے لیے درکار ورزش نہیں کر رہے۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کیا جانے والا یہ اپنی نوعیت کا ایسا پہلا جائزہ تھا جس میں بتایا گیا ہے کہ درکار ورزش نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کی ذہنی نشوونما اور معاشرتی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ ایک گھنٹے کی ورزش نہ کرنے کا مسئلہ غریب اور امیر دونوں ممالک میں موجود ہے۔
ورزش اور صنفی فرق
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ جائزہ 146ممالک میں لیا گیا۔ ان میں سے چار ممالک ایسے ہیں، جہاں لڑکیاں، لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ورزش کرتی ہیں، ان میں ٹونگا، ساموئا، افغانستان اور زیمبیا شامل ہیں۔ باقی 142ملکوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کے ورزش کرنے کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ورزش میں سب سے آگے بنگلہ دیشی بچے ہیں مگر وہاں بھی 66 فیصد بچے ایک گھنٹے کی ورزش نہیں کر رہے۔ فلپائن میں لڑکے (93 فیصد) اور جنوبی کوریا میں لڑکیاں (97 فیصد) سب سے کم ورزش کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں 75 فیصد لڑکے اور 85 فیصد لڑکیاں مجوزہ ہدف تک ورزش نہیں کر رہے۔ تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر 85فیصد لڑکیاں مجوزہ ورزش نہیں کر پا رہیں جبکہ 78فیصد لڑکے ایسا نہیں کر رہے۔
ورزش کیا ہے؟
بنیادی طور پر ورزش ہر اس جسمانی سرگرمی کو کہا جاسکتا ہے، جس سے انسانی دل کے دھڑکنے کی رفتار تیز ہواور پھیپھڑوں کو زور سے سانس لینا پڑے۔ ان سرگرمیوں میں بھاگنا، سائیکلنگ، تیراکی، فٹ بال کھیلنا اور دیگر شامل ہیں۔ ایک دن کے لیے درمیانی سے شدید ورزش کا ہدف 60 منٹ کا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ایک گھنٹے کی ورزش کوئی ’’بہت مشکل ہدف نہیں ہے‘‘۔ اگر آپ کو اچھی صحت چاہیے اور نوجوانوں کو اچھی صحت کے ساتھ اچھا ذہن اور نشوونما چاہیے تو انھیں روزانہ ایک گھنٹے کی ورزش کرنی چاہیے۔
روزانہ باقاعدگی سے ورزش کرنے کے قلیل مدتی سے لے کر طویل مدتی فائدے ہیں۔ انسان ورزش کرکے فوری طور پر جو فوائد حاصل کرسکتا ہے، ان میں بہتر ذہنی صحت، متعدل وزن، مضبوط پٹھے اور ہڈیاں، صحت مند دل اور پھیپھڑے شامل ہیں۔ طویل مدتی فوائد میں ورزش کرنے والا شخص زیادہ دیر تک توانا، صحت مند اور جوان رہتا اور بڑھاپے کی بیماریوں جیسے الزائمر، ہڈیوں کا بھربھراپن وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے۔
مزید برآں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ’صحت مند بچوں کے صحت مند نوجوان بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ نیز ان کے دل کے امراض اور ذیابطیس میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔ اس بات کے بھی زیادہ سے زیادہ شواہد مل رہے ہیں کہ ورزش ذہنی نشوونما کے لیے بھی اہم ہے۔ بچوں کو چیزیں سیکھنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے، ان کا معاشرتی برتائو بہتر ہوتا ہے اور ان کا ذہن زیادہ تیز ہوتا ہے‘‘۔
بــہادر شــہزادہ
کہانی
رئیس صدیقی
آدم خوربھول بھلّیاں! جی ہاں بھول بھلّیاں!!… میں لکھنؤ کی بھول بھلّیاں کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ اُس بھول بھلّیاں کے بارے میں بتانے جارہا ہوں جو آج سے لگ بھگ تین ہزار سال قبل، جزیرہ کوپٹ کے نزدیک بنی ہوئی تھی۔اس بھول بھلیاں میں ایک آدم خور جانور ’مینو ٹور‘‘ رہتا تھاجس کا سر جنگلی بھینس کی طرح تھا۔ ’مینو ٹور‘‘ سے ایک قدیم یونانی لوک کہانی جڑی ہوئی ہے ، جسکی ابتدا یوں ہوتی ہے ۔ ایک بار کا ذکرہے کہ جزیرہ کوپٹ کے ظالم حاکم ’’منپوس‘‘ کے بیٹے کا یونان جانا ہوا اور وہ کسی وجہ سے وہیں قتل کردیا گیا۔اُس وقت یونان کا بادشاہ بہت کمزور تھا۔ اس لئے منپوس نے اس کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اس شرط پر معاف کیا کہ وہ ہر سال، بارہ نوجوان لڑکے لڑکیاں مینو ٹور آدم خور جانور پر بھینٹ چڑھانے کے لیے بھیجا کریگا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ اُس نے یہ شرط منظور کرلی اور شرط کے مطابق، وہ ہر سال بارہ معصوم لڑکے لڑکیوں کو موت کے حوالے کرتا رہا۔
شاہ یونان کا ایک شہزادہ بھی تھا۔جب وہ جوان ہوا تو اس کو اس بے جا اور ظالمانہ شرط کا علم ہوا اور اسے اس بات سے بہت دکھ ہوا۔ بہادر شہزادہ نے اسی وقت آدم خور مینو ٹور کو قتل کرنے کا عزم کیااور اپنے والد بادشاہ سے آیندہ کھیپ میں جانے کا اصرار کیا۔ پہلے تو بادشاہ اپنے شہزادہ کی اس ضد پر راضی نہ ہوا لیکن آخرکاراسے اپنے اکلوتے بیٹے کی ضد ماننی پڑی ۔مقررہ وقت پر، شہزادہ اپنے گیارہ ساتھیوں کے ساتھ، جزیرہ کوپٹ کے حاکم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس وقت دربار میںحاکم کی بیٹی بھی ایک عالی شان کرسی پر رونق افروز تھی۔ شہزادی بھی یہ ظلم دیکھ کر اُکتا چکی تھی اور اس نے اس با ہمت اور نڈر شہزادہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ۔چونکہ شہزادہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ لوگ آدم خور کے پاس ایک ایک کرکے بھیجے جائیںگے، اس لئے اس نے حاکم سے التجا کی کہ سب سے پہلے اسے آدم خور کے حوالے کیا جائے۔
اس کی درخواست منظور کرلی گئی اور وہ قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔جب شہزادے کاآدم خور پر بھینٹ چرھنے کا وقت قریب آیا تو شہزادی نے اسے رسّی کا ایک گولا دیا اور ہدایت کی کہ جب وہ بھول بھلّیاں میں ڈھکیلا جائے تو وہ اس کا ایک سِرا دروازہ سے باندھ دے اور پھر دھیرے دھیرے رسی کو چھوڑتا ہوا اندر جائے اور جب وہ آدم خور جانور کو قتل کردے، تو اسی رسی کے سہارے باہر نکل آئے۔ اندر بہت بدبو ہوگی۔اس بدبو سے لوگ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ تمہیں اپنی ناک پر کپڑا باندھنا ہوگا۔ آدم خور کے نتھنوں سے بہت ڈرائونی آواز نکلتی ہے جسے سن کر دل کی دھڑکن بند ہوجاتی ہے اور اسکا شکا ر خود بہ خود مر جاتا ہے۔ اس طرح آدم خور کو آسانی سے شکار ملجاتا ہے ۔تمہیں ان سب باتوں کا خیال رکھنا ہوگا اور موقع ملتے ہی بڑی ہمت اور بہادری سے اسکی گردن پر پہ در پہ وار کرنا ہوگا۔ شہزادی کہتے کہتے رکی اور پھر ہاتھ بڑھا کر بولی کہ یہ چمکیلی نگ جڑی انگوٹھی پہن لو ۔اسکی چمک سے تم اسے اچھی طرح دیکھ سکو گے۔ جب شہزادہ رات کے وقت آدم خور بھول بھلّیاں کے اندر ڈھکیل دیا گیا تو اس نے شہزادی کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا شروع کیا۔ابھی وہ اندھیری بھول بھلّیاں میں آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھا ہی رہا تھا کہ اسے آدم خور کے سانس لینے کی کرخت آواز سنائی دی۔اس نے اپنی تلوار میان سے نکالی اور پے در پے اسکی گردن پر وار کرکے اسے قتل کردیا۔ پھراسی رسی کے سہارے باہر آگیا۔اس طرح وہ بھول بھلّیاں میں گم ہونے یا بے ہوش ہونے یا آدم خور کا نوالہ بننے سے بچ گیا۔اس کے بعد شہزادہ اپنے گیارہ ساتھیوں اور ساتھ ہی منپوس کی بیٹی سے شادی کر کے اپنے ملک یونان واپس آیا اور اپنے والد بادشاہ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا۔ اس نے شہزادی کی مدد کا بھی ذکر کیا۔
بادشاہ بہت خوش تھا ۔اسنے شہزادی سے پوچھا: بیٹی، یہ تم نے سب کیسے کر لیا ؟ تمہاری دانشمندی سے نہ صرف وہ آدم خور جانور مارا گیا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کئی معصوموں کی جان بھی بچ گئی۔
شہزادی نے بہت ادب لیکن اعتماد سے کہا: ہمیشہ مشکل حالات میں ، تدبیر ، سوجھ بوجھ، سمجھداری ، ہمت اور حوصلہ کام آتا ہے ،نہ کہ غصہ اور طاقت !!!
(کہانی نگار ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ و دلی اردو اکادمی ایوارڈ یافتہ ادیب، ڈی ڈی اردو و آل انڈیا ریڈیو دلی؍ بھوپال کے سابق آئی بی ایس افسر ، پندرہ کتابوں کے مصنف، مولف،مترجم، افسانہ نگاروشاعر ہیں )
ای میل۔rais.siddiqui.ibs @gmail.com
موٹر کار کی ایجاد…!!!
محمود جاوید
پیارے بچو! انسان نے سفر کرنے کے لئے مختلف سواریاں ایجاد کیں ان میں زمینی سفر کی سب سے آرام دہ سواری موٹر کار ہے۔ آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے کس نے اور کب موٹر کارایجاد کی۔دنیا کی پہلی موٹر کار نکولس جوزف کگنوٹ نے 1799ء میں بنائی، اس کا تعلق فرانس سے تھا یہ گاڑی بھاپ سے چلتی تھی۔ اس کے تین پہئے تھے یہ سست رفتار اور بھاری تھی۔پٹرول سے چلنے والی کار کارل بینز نے 1885ء میں ایجاد کی۔کارل بینز کا تعلق جرمنی سے تھا ،جس میں تین آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی جو تین پہیوں سے چلتی تھی۔ اس میں ایک ہارس پاور کا انجن استعمال کیا گیا تھا۔
BENZ PATENTموٹر کار پہلی آٹو موبائل کار تھی ابتدائی کاروں میں لکڑی کے پہئے استعمال ہوتے تھے۔ ٹیوب لیس ٹائر دنیا میں پہلی مرتبہ BF Good Richکمپنی نے متعارف کرائی چار پہیوں والی پہلی کار کارل بینز نے 1889ء میں بنائی۔ مشہور لگڑری کار مرسڈیز بھی بینز کارل بینز نے بنائی۔ دنیا بھر میں موٹر کاریں بنانے والی سب سے پرانی کمپنی ڈیملر بینز کی ہے جو 1895ء میں قائم ہوئی تھی۔ 1906ء میں ایک مشہور برطانوی کھلاڑی آربیل چارلیس رولز نے ایک انجینئر ہنری رولز رائس کے ساتھ مل کر کاریں بنانا شروع کیں۔ ان کی کار رولز رائس کار دنیا کی سب سے مہنگی کاروں میں شمار ہوتی ہے۔ رولز رائس کار کو یو۔ اے۔ ای کی پہلی ریاستی کار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
اب نت نئی تیز رفتار کاریں بن رہی ہیں۔ مشہور لگڑری کاربورش اور بی ایم ڈبلیو جرمنی میں بنتی ہیں۔جس کا مطلب ہےBawarian Motor Works۔مشہور اسپورٹس کار فریری اٹلی میں بنتی ہے۔ بجلی سے چلنے والی دنیا کی پہلی کار ٹیلا روڈ سٹر ہے ناروے کا دارالحکومت اوسلو دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرک کار رکھنے والا شہر ہے۔ الیکٹرک کا ر رابرٹ اینڈرسن نے ایجاد کی۔
معلومات کی دنیا…!!!
ارسلان بشیر
1۔نیلا اور پیلا رنگ ملادیں تو کون سا رنگ بنے گا؟
2۔کوئل کس موسم میں زیادہ کوکتی ہے؟
3۔کون سا جانور سب سے بڑا انڈہ دیتا ہے؟
4۔دیناکا سب سے چھوٹا ملک کون سا ہے؟
5۔دنیا کے سب سے بڑے صحرا کا نام کیا ہے؟
6۔گلاب کس ملک کا قومی پھول ہے؟
جوابات
1۔ہرا 2۔گرمیوں میں 3۔شارک 4۔روانڈا 5۔صحارہ 6۔امریکہ، عراق
بوجھو تو جانیں…!!!
1۔چٹے پتھر تڑ تڑ برسے
ہر ایک بھاگا ان کے ڈر سے
2۔ بن کھانے کی چیز کو کھایا
اور بن بوجھ کے اس اٹھایا
3۔ دیکھ کر اس کا کمال اور اس کا ہنر
جھک جاتا ہے بادشاہوںکا بھی سر
4۔پھولوں میں دو پھول نرالے پاتے ہیں قسمت والے
کوئی تو ایک یا دونوں پائے خالی ہاتھ کوئی رہ جائے
5۔اس نے سب کے کام سنوارے
ورنہ رہ جاتے احمق سارے
6۔ دن کا ساتھی ساتھ ہی آیا
رات میں اکثر غائب ہی پایا
جوابات
1۔ ا ولے 2۔قسم 3۔ نائی4۔ بیٹا، بیٹی 5۔عقل 6۔ سایہ
کیا آپ جانتے ہیں!!!
عائشہ
ساتھیو! کیا آپ کو معلوم ہے کہ گھڑی کی ایجاد سے پہلے لوگ کس طرح وقت معلوم کرتے تھے؟ وقت سے آگاہی قدیم زمانے کے لوگوں کے لئے اتنی ہی اہم تھی جتنی آج ہمارے لئے ہے۔ مکینیکل یا الیکٹرک گھڑیوں کی ایجاد سے قبل لوگ سورج سے چلنے والی گھڑی ،پانی سے چلنے والی گھڑی حتیٰ کہ جلتی ہوئی رسی سے وقت کا اندازہ کیا جاتا تھا۔
سورج سے چلنے والی گھڑی
Sundial سورج سے چلنے والی گھڑی کئی صدیوں تک استعمال ہوتی رہی۔ لوگ وقت معلوم کرنے کیلئے اسی پر انحصار کرتے تھے۔ انیسویں صدی سے ٹیکنیکل اور الیکٹریکل گھڑیوں نے سورج سے چلنے والی گھڑیوں کی جگہ لے لی۔سورج سے چلنے والی گھڑیوں میں حرکت کرتے ہوئے سائے کے ذریعے وقت بتایا جاتا تھا۔سورج کی بدلتی ہوئی پوزیشن سے شعاعوں کا رْخ بھی تبدیل ہوتا رہتا ،جس کی بنا پر جیسے جیسے دن گزرتا سورج کاسایہ بھی اپنی سمت تبدیل کرتا رہتا اگر کسی Sundial کے ذریعے بالکل صحیح وقت معلوم ہوتا تھا۔
پانی سے چلنے والی گھڑی
پانی سے چلنے والی گھڑی میں برابر وقتوں سے قیف کے ذریعے گھڑی کے نیچے لگے ہوئے برتن میں پانی ڈالتے تھے، جس کی بنا پر برتن میں پانی کی سطح بلند ہو جاتی اور اس کے ساتھ ہی دندانے دار سلاخ بھی اوپر کی طرف حرکت کرتی رہتی تھی اوپر اٹھتی ہوئی سلاخ گھڑی کے درمیان میں لگے ہوئے پہیے کو گھماتی ،جس کے نتیجے میں گھڑی کے کانٹے بھی حرکت کرتے تھے۔