محمد حسن عسکری نے کرشن چندر کے بارے میں لکھا تھا کہ 'کرشن چندر سب سے پہلے بھی کرشن چندر ہے اور سب سے آخر میں بھی کرشن چندر ہے۔ چند روز پہلے جموں و کشمیر کی لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے جموں و کشمیر کے کچھ تعلیمی اداروں، سڑکوں اور عمارتوں وغیرہ کے نام جموں و کشمیر کی نامور شخصیات کے ناموں پر رکھنے کا ایک نوٹیفکیشن نکالا ۔ان کی تعداد چھیتر یعنی (سیونٹی سیکس) ہے ۔صوبہ جموں میں ایسے مقامات، اداروں اور عمارتوں کی تعداد اکیاون ہے جبکہ صوبہ کشمیر میں پچیس ایسے ادارے، سڑکیں اور عمارتیں ہیں جنکے نام تبدیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے ۔
نوٹیفکیشن کے بعد سوشل میڈیا پر بحث کا نیا آغاز شروع ہو گیا، بعض ناموں پر لوگوں نے اعتراضات بھی اٹھائے، مثلاً کسی پولیس کانسٹیبل یا سیکورٹی اہلکار کے نام پر سڑک یا کسی چوراہے کا نام تو ہو سکتا ہے لیکن تعلیمی ادارے کا نام رکھنا احسن فیصلہ نہیں ہے۔ پیر پنجال علاقے میں اس ایشو کو لے کر سب سے زیادہ بحث گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ کو لے کر چل رہی ہے۔ مذکورہ نوٹیفکیشن میں سرحدی ضلع پونچھ کے چار تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں جنکے نام تبدیل کئے گئے ہیں۔ ہائر سیکنڈری اسکول (بوائز) کا نام تبدیل کر کے ڈی ایس پی منجیت سنگھ، گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری اسکول پونچھ کا نام تبدیل کر کے دینا ناتھ رفیق، گورنمنٹ ڈگری کالج مہنڈر کو چھوٹے شاہ ڈگری کالج اور گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ کو کرشن چندر ڈگری کالج کے ناموں سے تبدیل کیا گیا ہے ۔
سوشل میڈیا پر ان میں سب سے زیادہ چرچا گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ کو لے کر ہے۔ اس پر اہلیان پیر پنجال کی رائے دو گروپوں میں منقسم ہے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ چونکہ کرشن چندر پونچھ میں پیدا بھی نہیں ہوئے اور جوانی چڑھتے ہی یہاں سے چلے گئے تھے ،اس لئے کالج کا نام ضلع پونچھ ہی کے کسی نامی گرامی شخصیت پر رکھنا بہتر ہے ،جس نے پونچھ کے لئے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہوں اور یہیں کا ہو کے رہا ہو۔ دوسرا گروہ جسکی تعداد نسبتاً زیادہ ہے نے ڈگری کالج پونچھ کو نامور لکھاری کرشن چندر کیساتھ منسوب کرنے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اس موضوع کو حقیقت کے آئینے میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
کرشن چندر 23 نومبر سن 1914 میں راجستھان کے ضلع بھرت پور میں پیدا ہوئے۔ چندر پنجابی النسل تھے جو پنجاب کے گوجرانوالہ علاقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہ شہر آجکل پاکستانی پنجاب کا حصہ ہے ۔ کرشن کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر تھے جو نوکری کے سلسلے میں دور دور جاتے رہے یہی وجہ کہ کرشن چندر بھی ایک جگہ پر نہیں ٹک پائے ۔ پونچھ کے مہاراجہ نے کرشن چندر کے والد کو اپنا معالج تعینات کیا تو پوری فیملی پونچھ منتقل ہوگئی ۔ اس طرح کرشن چندر کا بچپن پونچھ کی حسین پہاڑیوں میں گزرا ۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے وہ پنجاب چلے گئے اور تقسیم ہند کے بعد ممبئی ہی میں مقیم رہے ۔
کرشن چندر اُردو کے ایک نامور لکھاری تھے جنہیں رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا ۔ وہ خود کہتے ہیں کہ بچپن میں وہ اردو مضمون میں اوسط درجے کے طالبعلم بھی نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ چھٹی جماعت میں انہوں نے اردو کے بجائے سنسکرت رکھ لیا ۔ کیا معلوم تھا کہ اردو کا ادنیٰ سا طالب علم آگے جاکر پونچھ کے کلچر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرے گا ۔ کرشن چندر کے ناول اور افسانوں میں پونچھ کا منظر جا بجا جھلکتا ہوا نظر آئے گا ۔
یوں تو انہوں نے بہت سارے ناول، 50 سے زائد مختصر کہانیوں کے مجموعے لکھے ۔ اُسوقت ریڈیو کا دور عام تھا، ان گنت ریڈیو پلیز بھی لکھے ۔ لیکن مٹی کے صنم ناول خالص پونچھ پر لکھا گیا ہے جسمیں ضلع پونچھ کا کلچر، یہاں کی مختلف و منفرد جھاڑیاں، مختلف جگہیں، ندیاں، مقامی لوگ اور خوبصورت پہاڑ نظر آتے ہیں ۔ یہ ناول 1966 میں شائع ہوا ، اسی ناول کے ایک باب میں پونچھ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کرشن لکھتے ہیں 'کتنے ہی راستے ہیں میرے دل میں جو پونچھ کی وادی کو جاتے ہیں، کبھی شمال، کبھی مشرق، کبھی جنوب، کبھی مغرب، جدھر سے بھی چلتا ہوں پونچھ پہنچ جاتا ہوں۔ طلسم خیال انکی مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہے جن میں جموں و کشمیر بالخصوص پونچھ کی منظر کشی کی ہے ۔
کرشن چندر جموں و کشمیر سے بے پناہ عقیدت کرتے تھے ۔اگست 1947 میں تقسیم ہوئی، اسکے بعد اکتوبر کے مہینے میں جموں و کشمیر بھی تقسیم ہوا۔ تقسیم جموں و کشمیر پر انہوں نے’’شکست‘‘ لکھا۔ اس ناول میں تقسیم جموں و کشمیر کے اندوناک واقعات کو بیان کیا گیا ہے ۔ کرشن چندر پوری زندگی نسلی تعصب پرستی، فرقہ واریت، غربت، ذات پات کیخلاف لڑتے رہے ۔ وہ ایک پایہ دار شخصیت تھے جو ہمیشہ انسانیت پر یقین رکھتے تھے ۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ادارے کے نام کے لئے اسی علاقے میں پیدا ہونا یا مرنا لازمی جز ہے تو وہ سرا سر غلط ہیں ۔ اگر ان کی اس دلیل کو مستعار لیا جائے تو پھر مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد کا نام کچھ اور ہونا چاہیے کیونکہ مولانا ابوالکلام پیدا مکہ میں ہوئے اور وفات دہلی میں ہوئی، ملک بھر میں کتنی یونیورسٹیاں اور کالج بھییم راؤ امبیڈکر کے نام سے ہیں ۔اسی طرح سینکڑوں کالج، اسکول اور بعض یونیورسٹیاں ایسی شخصیات کے نام سے ہیں جو وہاں پیدا نہیں ہوئے تھے ۔
جموں و کشمیر سے بے پناہ محبت کرنے والا اور پوری زندگی پونچھ پونچھ کی تسبیح بیان کرنے والے کرشن چندر کے نام پر گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ کو منسوب کرنے کے فیصلے کا سبکو خیر مقدم کرنا چاہیے ۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد جلا کر سجی (راکھ) کو پونچھ میں دفن کیا جائے جو کہ ویسا ہی ہوا ۔جلانے کے بعد انکی باقیات کو پونچھ لاکے دفن کیا گیا۔اس مقام کو کرشن چندر پارک کہا جاتا ہے جو کالج کے عقب میں واقع ہے ۔ اب پونچھ شہر کا یہ تاریخی کالج گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ سے کرشن چندر ڈگری کالج کہلائے گا جو اہلیان پونچھ کیساتھ پورے جموں و کشمیر کے لئے فخر کی بات ہے ۔
(کالم نگار کا تعلق پونچھ سے اور وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں)