گورنر کی گفتنی!

پاکستان جنگجوئوں کا اعانت کارہے۔
جنگجو ہتھیار ڈال دیں۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مسلح ہونا باعث تشویش، ٹکرائو کسی مسئلے کا حل نہیں۔
یہ ہیں کچھ دن قبل مقامی اخباروں کی وہ شہ سرخیاں جو جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کے بولے گئے جملوں پر مشتمل ہیں۔ ان جملوں میں صرف ایک فیصد حقیقت پنہاں ہے۔ آج کی تاریخ میں کشمیر کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ اور تواور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ مسلح جدوجہد کا اپنی جان کی قیمت پر حصہ بن رہاہے ۔ بایں ہمہ حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی مسئلے کا حل ٹکرائو اور تصادم سے نہیں ہوتا لیکن اتنا ماننے سے ہی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ،خاص کر کشمیر حل کے لئے عقل وفہم اور حق شناسی کی کسوٹی ہاتھ میں لئے یہ طے کرنا ہوگا ’’آخر کشمیر خاک اور خون میں کیوں لتھڑا ہو ا ہے؟ اصل مسئلے کے اسباب ومحرکات کیا ہیں؟ مسلح تعلیم یافتہ طبقہ کی مانگ کیاہے؟‘‘ اگر ان سوالوں کا مبنی بر حقیقت تجزیہ کیا گیا تو کشمیر کے ناراض نوجوان طبقہ کے تئیں انسانیت کے تقاضوں پر بھی لازماً اُترنا ہو گا۔ ورنہ حسب روایت بیانات داغ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ سچ یہ ہے کہ اب ان بیانات کا لوگ نوٹس بھی نہیںلیتے کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ یہ سب خانہ پُری کے طور بولا جا تا ہے۔اس لئے اگر یہ کہیں کہ گورنر ملک کی اس گفتنی کی حقیقت ِکشمیر سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں، تو با ت خلافِ عقل نہ ہوگی ۔
   ٹھیک ہے جنگجوئوں کوایک خوب صورت پیرائے میں ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیا گیا اوراُن کے ’’مسلح‘‘ ہونے کو باعث ِتشویش بھی قرار دیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ مسلح جدوجہد ترک کر دیں تو کیا انہیں اپنا پیدایشی حق ملے گا؟ قوم کو اپنی بیش قیمت قربانی کا ثمرہ حاصل ہو گا؟ ستر سال سے عموماً اور حالیہ ۲۹؍برس سے خصوصاً اس بے نوا قوم کا جو جانی ومالی نقصان کشمیر کاز کے ’’جرم ‘‘ میں ہوا، کیا اُس کی تلافی کی جائے گی؟ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اہل ِکشمیر نے سال ہا سال سے اس قدر جانی و مالی قربانیاں دی ہیں کہ کشمیر لہو لہاں ہے، قبرستانوں ، تباہ شدہ بستیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکی بھرمار ہے ۔ اس لئے اگر کشمیریوںکے سلب شدہ حقوق کے بارے میں دلی اپنی روایتی جمود قائم ودائم رہے تو کیا جنگجو ؤں کو گورنر کی زبانی کرائی گئی فہمائش بے مطلب نہیں قرار پائے گی ؟بہر حال یہ بات طے ہے کہ مسائل کا حل ہتھیار نہیں لیکن جب تک مسائل کاحل التواء میں رکھا جائے تو تاریخ عالم کایہی فتویٰ ہوگا کہ محکوم قوم کا ایک پُرجوش طبقہ چار وناچار سر پر کفن باندھے مسائل کا حل منوانے کے لئے نکلتا ر ہے گا چاہے نتائج جو بھی ہوں۔ بہر کیف مسائل کی موجودگی کو نظرانداز کر دینا ایسا ہی ہے جیسے گھر کی بنیاد کو اُکھاڑا جا رہا ہو اور کوئی من موجی عمارت کی خوب صورتی کا نظارہ کر تارہے۔ یہ ایسا طرز عمل ہے جو عمارت کی بنیادکو ڈَھ جانے سے روکے نہ رکھے گا بلکہ دیر سویر سجی سنوری عمارت منہدم ہونے پر منتج ہوگی۔ اس لحاظ سے اہل ِکشمیر کے جملہ حقوق چھیننے والوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ناسور زدہ مسئلے کا منصفانہ اور پُرامن حل جلد از جلد نکالیں ورنہ بیان برائے بیان لفظوں کا ایک بے مطلب گو رکھ دھندا سمجھا جائے گا۔
