وانٹ پورہ راجوری کدل کے خواجہ عبدلاحد کنٹھ 1932 ء کے آ س پاس پیدا ہوئے۔ سرکاری ریکارڈ میں ان کی پیدایش 15 ؍دسمبر 1933 ء ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ اسکول سے حاصل کی اور میٹرک پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ جب جوان ہوئے تو کشمیر میں تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی۔ انہوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ تنظیمی حصار میں رہ کر تحریک کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لئے وہ کبھی کسی تنظیمی بندھن میں نہیں بندھے لیکن ہر تنظیم کا کام اپنا فرض سمجھ کر کرتے۔انہوں نے کبھی بھی فضولیات میں دلچسپی نہ دکھائی اور نہ ہی کبھی اپنے ہم عمر جوانوں کی طرح حرافات میں اُلجھے ۔ وہ ایک سنجیدہ شخص تھے اور لوگ خاص کر حریت پسند ان کا بڑا لحاظ کرتے اور ان کی عزت کرتے۔ بڑے بڑے لیڈر اس جوان سال حریت پسند سے مشورے لیتے۔ وہ ہر تنظیم کے پروگراموں میں حصہ لیتے اور تمام حریت پسندوں کو ایک ہی گلدستے کے پھول سمجھتے تھے۔ تحریکی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باوجود کنٹھ صاحب کبھی گرفتار نہ ہوئے۔ وہ اپنی مرضی سے اُس وقت مظفرآباد چلے گئے جب وہاں کشمیری لوگ سخت تکلیف میں تھے۔ انہوں وہیں مستقل سکونت اختیار کی اور حکومت آزاد کشمیر میں سیکرٹری مال اور باز آباد کاری تعینات ہوئے۔ حریت پسندوں کا ماننا تھا کہ کنٹھ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے مظفر آباد صرف ان لوگوں کی مدد کے لئے بھیجا جو 1947 ء اورما بعد یا تو جلاء وطن ہوئے یا جنہوں نے ہجرت کی۔ کنٹھ صاحب کے دولت خانے کے دروازے ہر کشمیری کے لئے کھلے رہتے۔ ہر روز کئی افراد وہاں کھاناتناول فرماتے۔ اس کے علاوہ مہاجرین کی ہر ممکن مدد کرنا ان کی فطرت ثانیہ بنی تھی۔انہوںنے مہاجرین کی باز آباد کاری کے لئے انتھک کوششیں کیں۔ کنٹھ صاحب ان دنوں کم عمر تھے لیکن اس کے باوجود بھی جو کارنامے انہوں نے انجام دئے اس کے لئے انہیں ہمیشہ یاد کیا جاے گا۔ہر دن وادی سے مہاجرین آزاد کشمیرپہنچتے رہتے اور ہر دن کنٹھ صاحب ان کی مدد کے لئے کبھی حکام تو کبھی مقامی لوگوں کے پاس آتے جاتے۔ ان ہی دنوں نہوں نے ایک کشمیری لڑکی جو اپنے پورے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے آئی تھی، سے شادی کرلی۔ کنٹھ صاحب کے فرزند آفتاب کنٹھ کے مطابق یہ شادی1967ء میں ہوئی۔
1986 ء میں اُن پر فالج گرا۔ انہوں نے پہلے ملازمت سے چھ ماہ کی رخصت لی اور پھر ریٹائر ہوگئے۔ کنٹھ صاحب مظفر آباد میں کشمیر کی مکمل آزادی کے زبردست حامی بنے رہے اور یہ بات آزاد کشمیر کے حکام کو با لکل پسند نہ تھی۔ انہوں نے اپنے موقف کے لئے کافی مصیبتیں جھیلیں لیکن کبھی اپنا سر خم نہ کیا۔ وطن کی محبت ان کو بہت پریشان کرتی۔ حکومت پاکستان نے ان کو پاسپورٹ بھی دیا لیکن اس کے باوجود بھی آزاد کشمیر کی حکومت نے انہیں وطن آنے کی اجازت نہ دی۔ وہ کھلے عام کہتے کہ آزاد کشمیر کی ہر حکومت نے کشمیریوں پر ظلم کیا ۔
اگرچہ آخری وقت میں ان کو وطن کی یاد نے بہت پریشان کئے رکھا تاہم انہوں نے حکام سے رجوع نہ کیا۔ وہ کہتے کہ جو شخص معمولی مراعات کے لئے اپنا موقف بدل دے وہ کبھی قابل بھروسہ نہیں ہو سکتا ۔ وہ آخری دم تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور کشمیریوں کو خود مختار کشمیر کی اہمیت سے روشناس کراتے رہے ۔ ان کی موت سے قبل آزاد کشمیر کی حکومت نے ان کے وطن دیکھنے کی آرزو پوری نہ ہونے دیاور اسی حسرت میں وہ28 ؍مارچ 1991 ء کو اللہ کوپیارے ہوئے ۔ ان کی موت سے آزاد کشمیر میں رہ رہے کشمیریوں کے سر سے ان کے مخلص محسن کا سایہ ُاٹھ گیا ۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648