سرینگر //شہر میں منی بسوں میں خواتین کیلئے مخصوص 8سیٹوں پر مرد مسافروں کے قبضہ کو ہٹانے میں محکمہ ٹریفک مکمل طور پر ناکام ہوا ہے اور ا?ج بھی خواتین بسوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔جہاں ایک طرف محکمہ ٹریفک کا کہنا ہے کہ لوگوں کو خود اس کیلئے سنجیدہ ہونا چاہئے وہیں خواتین کا الزام ہے کہ محکمہ ٹریفک اس سنگین معاملہ سے نپٹنے میں بری طرح سے ناکام ہو کر خاموش تماشاہی بنا ہوا ہے۔شہر سرینگر کے مختلف روٹوں پر چلنے والی گاڑیوںمیںلکھے الفاظ ’پہلی 8سیٹیں خواتین کے لئے مخصوص ہیں‘ پر سب کی نظر پڑتی ہے لیکن ان پر کوئی بھی عمل نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی محکمہ ٹریفک اس سلسلے میں کوئی اقدمات اٹھا رہا ہے۔ گاڑیوں میں اورلوڈنگ بھی ایک سنگین معاملہ بنا ہوا ہے اورمسافروںکو گاڑیوں میں دھکے کھاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔کئی خواتین مسافروں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کبھی کوئی ترس کھا کر اگرسیٹ بھی چھوڑ دیتا ہے لیکن کئی بار اکثر و بیشتر گاڑیوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ ٹریفک نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ خواتین کیلئے پہلی 8سیٹوں کو مخصوص رکھا جائے گا اور اس حوالے سے ہر ایک میٹا ڈارمیں پوسٹربھی چسپان کیا گیا لیکن اْس پر نہ ہی محکمہ ٹریفک کوئی عمل کر رہا ہے اور نہ ہی مرد مسافر اْس پوسٹر کو دیکھ کرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔نعیمہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ وہ جب کام کے سلسلے میں کبھی بمنہ سے میٹا ڈارمیں لالچوک کا سفر کرتی ہے توگاڑی میں سواریوںکو ایسے بھرا جاتاہے جیسے انسان نہیں بلکہ بھیڑ بکریاں ہوں۔نسیمہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ ریاستی وزیر اعلیٰ خود ایک خاتون ہیں اور وہ اس طرح کے مشکلات کے بارے میں خود ہی اندازہ کر سکتی ہیں۔نسیمہ نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ا?خر اس قانون پر عمل درا?مد کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔محکمہ ٹریفک کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا محکمہ کیلئے یہ عمل کافی مشکل ہے کہ وہ ہر ایک گاڑی روک کر یہ جانچ کریں کہ گاڑیوں میں سوار خاتون مسافر سیٹ پر بیٹھی ہیں یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹریفک نظام کودرست کرنے میں ہر ممکن کوشش ہورہی ہے اور لوگوں کو اس معاملے میں خود ہی سنجیدہ رہنا چاہئے۔