انسانی تاریخ کے صفحات آ ج بھی ان عظیم انسانوں کے کارناموں سے جگمگا رہے ہیںجنھوں نے انسانی زندگی کی بقا اورترقّی کی خاطر اپنی گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ ایسی ہی تاریخ ساز شخصیات میں موہن داس کرم چند گاندھی کا شمار کیاجا تا ہے ۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت اور گراں قدر کارناموں نے انھیں با بائے قوم اور مہاتما گاندھی کے نام سے مقبولیت کا تاج پہنایا۔ عام آ دمی کے ذہن میںمہاتما گاندھی کی شخصیت کا پہلا تاثر ایک بے سر و ساماں درویش کا ہے جس نے اپنے نظریۂ عدم تشدد کی بنیاد پر جنگ ِ آزادیٔ ہند کا صور پھونکا اور اس ملک میں قدم جماچکی برٹش سر کار کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
گاندھی جی کی شخصیت کے اس انقلابی پہلو سے قطع نظر ہم ان کیے خیالات و افکار کا جائزہ لیں تو ان کے ہاں ہمیں ایک جامع اور مر بوط نظامِ زندگی کے شواہد ملتے ہیں ۔ مہاتما گاندھی ایک قابل رہنما ،بہترین انسان اور مفکّر بھی تھے وہ فلسفی نہ تھے لیکن انھوں نے دنیا کے سامنے ایک ایسا طرزِ زندگی اور مسائل حیات سے نبر دآ زما ہو نے کے لئے ایسا موثّر طریقۂ کار تجویز کیا جس کی افادیت دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔ گاندھی جی کے نظریات میں سب سے اہم اہنسا یعنی عدم تشدّد ہے جسے انھوں نے باضابطہ ایک طریقۂ حیات قرار دیا ہے ۔تشددآج نہ صرف قومی پیمانے پر بلکہ عالمی سطح پر ایک بھیانک مسئلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مختلف طبقات ، ممالک ،ذاتوں اور مذاہب کے درمیاں غیر ہم آ ہنگی نے پوری دنیا میں تشدد کی لہر دوڑادی ہے اور ساری دنیا اس مسلہ کا حل تلاش کر رہی ہے ۔ گاندھی جی کی تقریروں کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے ذات،مذہب علاقائیت ،رنگ و نسل اور لسانی سطح پر مختلف طبقات کے درمیان ہم آ ہنگی پیدا کر نے کی ایک دیانت دارانہ کو شش کی تھی ۔قومی یکجہتی کا یہی نظر یہ ان کی فکر کا بنیا دی پتھر ہے جس پر وہ ایک خوشحال قوم کی تعمیر کر نا چاہتے تھے ۔
گاندھی جی کی قومی یکجہتی کا نظریہ اس اسلامی روایت پر مبنی معلوم ہو تا ہے کہ جس کے مطابق یہ پو ری کا ئنات خدا کا کنبہ ہے ( الخلق عیال اللہ )یہی روایت مذہبی کتابوں میں بھی مختلف الفاظ کے ساتھ آ ئی ہے ۔ گاندھی جی کی آ فاقی فکرنے انھیں رنگ و نسل ، ذات وبرادری اور علاقائیت کے امتیازات سے اوپر اٹھ کر سوچنے پر مائل کیاتھا ۔ اسی انسانی دوستی کا پر تو ان کے خیالات پر پڑا ۔شاید اسی لئے اردو کے مشہور شاعر مجازؔ لکھنوی نے گاندھی جی کے انتقال پر ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا ؎
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا
انساں کی جستجو میں اک انساں چلا گیا
گاندھی جی ہندو ستان میں پا ئی جانے والی چھوت اور اچھوت کی قبیح رسم کے سخت خلاف تھے ۔ان کی مختلف تحریکات میں اس سماجی برائی کے انسداد کی کوشش کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ اس سلسلہ میں ان کے خیالات قابل غور ہیں :
ــــ’’ اس بڑھتی ہو ئی چھوا چھوت سے مجھے انتہائی تکلیف پہنچی ہے کیونکہ میں اپنے آپ کو ایک ایسا ہندو سمجھتاہوں جس میں ہندو دھرم کی روح پیوست ہو گئی ہے ۔ آج جس صورت میںہمارے ہاں چھوت چھات پائی جاتی ہے اس کے لئے مجھے کو ئی جواز ان سب کتابوں میں نہیں مل سکا جنھیں ہم شاستر کہتے ہیں لیکن جیسا کہ میںپہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ ہندو دھرم واقعی چھوت چھات کو جا ئز قرار دیتا ہے تو مجھے ہندو دھرم چھوڑنے میں کو ئی پس و پیش نہیں ہو گا ۔ کیونکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ سبھی سچّے مذاہب کو بنیادی سچّائیوں کے خلاف نہیں ہو نا چاہئے ۔ (بحوالہ :مہاتما گاندھی اپنے افکار کے آ ئینے میں ۔مطبوعہ ، ماہنامہ آ جکل اکتوبر ۲۰۰۴)
گاندھی جی ہندو مسلم اتحاد کے بھی زبردست حامی تھے ۔ان کا خیال تھا کہ:ـ’ اگر ہندواور مسلم امن و بھائی چارہ کے ساتھ مل جل کر رہنا نہیںسیکھ لیتے تواس ملک کا جسے ہم بھارت کے نام سے جانتے ہیں، وجود ختم ہو جائے گا ۔ ( بحوالہ: ایضاً ) گاندھی جی نے مختلف مذاہب کی کتابوں اور دنیا کے اہم دانشوروں کے افکار کا مطالعہ کیا تھا ۔ ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ گیتا کے علاوہ قران مجید اور انجیل کا بھی مطالعہ کر چکے تھے ۔ ان کی کتاب MY EXPERIMENTS WITH TRUTH میں اس حقیقت کا اعتراف مو جود ہے کہ جنوبی افریقہ کے قیام کے دوران کئی مسلمانوں سے ان کے گہرے مراسم رہے جو اسلامی تعلیمات کو سمجھنے میں ان کے لئے مدد گار ثابت ہو ئے ۔ ان سے جب کسی نے دریافت کیا کہ رام راجیہ کے جس تصور کی وہ بات کر تے ہیں وہ کس قسم کی حکومت ہو گی تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ وہ خلیفۂ دوّم حضرت عمر ؓ کی حکومت کے طرز پر ہو گی ۔ انگلینڈ میں رہ کر گاندھی جی نے عیسائیت کا مطالعہ کیا اور وکالت کے دوران پارسی لو گوں کے ذریعے ان مذاہب کی روح تک پہنچنے کی کوشش کی ۔وہ تمام مذاہب کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ بنیادی طور پر اپنے آ بائی مذہب اور ہندو فلاسفی سے ان کا گہرا تعلق تھا ۔ انھوں نے ہندوستانی سماج کوقریب سے دیکھا اور سمجھا تھا ۔ وہ اس ملک کی سماجی زندگی کے نبض آ شنا تھے ۔ انھوں نے دیگر مذاہب کے افکار و خیالات کے لئے بھی اپنے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھی تھیں۔ تحریکِ آ زادی کے دوران ہر طبقے اور ہر علاقہ کے لوگوں سے ان کو سابقہ پڑا ۔یہی عوامل تھے جو ان کی قومی یکجہتی کے نظر یہ کی تشکیل میں معاون ثابت ہو ئے ۔
گاندھی جی کے قومی یکجہتی نظریات کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے جس حقیقت پر ہماری نظر ٹھہر تی ہے وہ یہ کہ ان کے فطری میلان کا نتیجہ نہ تھا بلکہ ان کے عہد میں جاری تحریکات اور رجحانات کا تقاضا بھی تھا۔ در اصل تحریکِ آ زادی کے عروج کے زمانے میں اسے ناکام کر نے کی سازشیں بھی وجود میں آئیں۔ انگریزوں کی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پا لیسی کے تحت ہندوئوں اور مسلمانوں میں جو نفرت کے بیج ڈالے گئے تھے ،ان میں انکھوے نکلنے لگے تھے ۔ مختلف قوموں اور ذاتوں کے بیچ دوریاں بڑھنے لگیں تھی ۔ ۱۹۰۹ ء میں مارل منٹو کی اصلاحات سے بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے لئے الگ الگ حلقۂ انتخاب کا اعلان ،شدھی تحریک اور دو قومی نظریہ کا سامنے آ نا یہ وہ عوامل تھے جو تحریک آ زادیٔ ہند کے لئے سمِ قاتل ثابت ہو سکتے تھے ۔ گاندھی جی نے ان خطرات کو بھانپ لیا اور اتفاق اور اتحاد کی فضا قائم کر نے میں جٹ گئے ۔ ڈاکڑ امبیڈ کر اور طبقہ ٔ اشرافیہ کے درمیان سمجھوتہ کروا کر گو یا انھوں نے ایک بڑی مصیبت کو ٹال دیا تھا ۔ ملک میں صدیوں سے چلی آ رہی چھوت چھات کی رسم کے خلاف انھوں نے تحریک چلائی ۔گاندھی جی نے لسانی تفریق کا خاتمہ کر نے کی غرض سے ہندوستانی کا تصور پیش کیا ۔ وہ اردو کو ایک ایسی زبان کی شکل دینا چاہتے تھے جس میں فارسی اور عربی کی بہ نسبت مقامی اور علاقائی آسان الفاظ کا استعمال کیا گیا ہو تاکہ ہندوستان کا ہر شخص اس زبان کو سمجھ سکے اور یہ زبان پورے ملک کو لسانی سطح پر جوڑ کا ذریعہ بن جا ئے ۔
گاندھی جی کے قومی اتحاد کے نظر یہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے تمام طبقات کو اتحاد کی ڈور سے باندھنے کے لئے گائوں اور شہر کو بھی قریب لا نے کی کوشش کی ۔انھوں نے دیہی زندگی کی اصلاح اور ترقی پر خاص طور پر زور دیا ۔صنعتی ترقی نے جہاں شہروں کو ترقی سے ہمکنار کیا تھا ،وہیں دیہاتوں کا پچھڑا پن دیکھ کر گاندھی جی نے اس طرف توجّہ دی ۔ ان کے قول کے مطابق ہندوستان دیہا توں میں بستاہے اور اسی ہندوستاں کو ترقی کے مواقع فراہم کر نے کے لئے انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں جگہ جگہ اشارے کئے ہیں ۔ گاندھی جی کا قومی ایکتا کا نظریہ ذات پات اور علاقائی حدود سے اونچا تھا ۔ اس کے شواہد ان واقعات سے ملتے ہیں جو ان کے جنوبی افریقہ کے قیام کے دوران پیش آ ئے ۔ گاندھی جی نے افریقہ میں کا لے اور گوروں کے درمیان فرق مٹانے کی کوشش کی۔ وہاں سیاہ فام باشندوں پر ہو نے والے مظالم کے خلاف گاندھی جی نے آ واز اٹھائی ۔ ان کے تمام نظریات خواہ وہ اہنسا ، ستیہ گرہ اور بھائی چارہ جیسے نکات کا احاطہ کر تے ہوں یا وہ آدرش اور اصول جو انسان کی روزمرّہ کی زندگی میں ایک رہنما کا کام دیتے ہوں، نہ صرف ہمارے ملک میں مقبول ہوئے بلکہ عالمی پیمانے پر بھی مختلف مفکروں اور فنکاروں اور قلم کاروں نے انھیں سراہا اور حرزِجاں بنایا ۔ اسی حقیقت کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ گاندھی جی کے قومی یکجہتی کے نظریات کو منافرت پھیلانے اور پھوٹ ڈالنے والے عناصر نے کبھی پسند نہیں کیا ۔اسی پھوٹ کا نتیجہ تھا کہ قومی یکجہتی کے لئے کی گئیںکو ششوں کی گاندھی جی کو بڑی قیمت چکانی پڑی ۔ یہی قیمت ان کی جان ہی لے کر رہی ۔ گاندھی جی نے اپنے عہد کے معیارِ زندگی کو بلند کر نے کے لئے حیات کا سودا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے لہو بھرے قدموں سے ایک راہِ حیات کی تشکیل کر گئے یہی ڈگر آ ج بھی دیش واسیوں کے لئے راہِ حیات بھی ہے اور قابل تقلیدمثال بھی ۔
رابطہ :۳۰ ۔گلستان کالونی ، ناگپور ۴۴۰۰۱۳
رابطہ 9579591149