واشنگٹن//امریکا کی سپریم کورٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاوس کے ریکارڈ کی ریلیز کو روکنے کی درخواست کو مسترد کردیا جس میں ڈیموکریٹک کی زیر قیادت کانگریس پینل کی جانب سے گزشتہ سال کیپیٹل پر ان کے حامیوں کے ایک ہجوم کے ذریعے ہونے والے مہلک حملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس فیصلے کا مطلب ہے کہ وفاقی ایجنسی کے پاس موجود حکومتی اور تاریخی ریکارڈز کو محفوظ کرنے والی دستاویزات کو ظاہر کیا جا سکتا ہے، اس معاملے پر نچلی عدالتوں میں بھی قانونی چارہ جوئی جاری ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی ججوں سے درخواست 9 دسمبر کو ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کے لیے امریکی عدالت کی اپیل کے اس فیصلے کے بعد سامنے آئی جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ سابق صدر کے پاس صدر جو بائیڈن کی جانب سے ریکارڈ کو ایوان کی منتخب کمیٹی کے حوالے کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔پینل کے چیئرمین و ڈیموکریٹک نمائندے بینی تھامسن اور پینل کی نائب سربراہ و ریپبلکن نمائندہ لز چینی نے ایک بیان میں سپریم کورٹ کی کارروائی کو قانون کی حکمرانی اور امریکی جمہوریت کی فتح قرار دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی نے پہلے ہی کچھ دستاویزات حاصل کرنا شروع کردی ہیں جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ روکنے کی امید کر رہے تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے ترجمان نے معاملے پر فوری تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔کمیٹی کے ساتھ جاری قانونی جنگ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے دستاویزات اور گواہوں تک رسائی کو روکنے کے لیے لڑی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک قانونی اصول کو استعمال کرنے کی کوشش کی جسے ایگزیکٹو استحقاق کے نام سے جانا جاتا ہے، جو وائٹ ہاس کے کچھ اندرونی مواصلات کو خفیہ طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے تاہم نچلی عدالتوں نے اسے مسترد کر دیا تھا۔سپریم کورٹ کے مختصر حکم نامے میں کہا گیا کہ کیس کو حل کرنے کے لیے اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں کہ کیا سابق صدر، ایگزیکٹو استحقاق کا دعوی کر سکتے ہیں یا نہیں؟ غیر دستخط شدہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے ان کے برسرِ اقتدار ہونے کے باجود ناکام ہوجاتے اس لیے ایک سابق صدر کے طور پر ان کی حیثیت سے عدالت کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔عدالت کے 9 ارکان میں سے صرف ایک رکن کنزرویٹو جسٹس کلیرنس تھامس نے اعلانیہ اس فیصلے سے اختلاف کا اظہار کیا۔