26اگست2020 کی شام ٹھیک چھ بجے ، نہایت خوبصورت انداز میں تیارکی ہوئی، ایک ڈاکیومینٹری یو ٹیوب پر پیش کی گئی۔ جماعت اسلامی ہند کی طرف سے تیار کردہ اس ڈاکیومنٹری میں اس تنظیم نے اپنے قیام کے اسباب ، پروگراموں اور پچھلے 72برسوں کے کاموں کی تفصیل پیش کی تھی۔چند ماہ قبل مئی 2020میں ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک اور بڑی جماعت جمعیت علماء ہند نے بھی اپنے قیام کے اغراض و مقاصد اور گزشتہ ایک سوبرس کے دوران اپنی سرگرمیوں اور خدمات کے سلسلے میں ایک ڈاکیومینٹری یوٹیوب پر پیش کی تھی۔
سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایک بڑے حلقے تک پہنچنے کی ان دونوں جماعتوں کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔ فیس بک، یو ٹیوب، وہاٹس ایپ وغیر ہ ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہیں جن کا بہتر استعمال کرکے اقلیتیں مختلف ٹی وی چینلوں اور علاقائی زبانوں کے اخبارات کے ذریعے پھیلائے گئے من گھڑت الزامات کا جواب دے سکتی ہیں ، فرضی قومی بیانیے کو مسترد کرسکتی ہیں، اپنے مسائل کو اٹھاسکتی ہیں اور سیاسی اور سماجی ترقی کے متعلق مختلف معاملات پر اپنے ردعمل کااظہار کرسکتی ہیں۔
لیکن فکرمندی کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں ان چیزوں کے تئیں دلچسپی کا فقدان ہے۔گوکہ جماعت اسلامی کی ڈوکیومینٹری کا اشتہار اور 26اگست کو اسے جاری کرنے کے متعلق اطلاعاتی پیغامات مختلف سوشل میڈیا ذرائع کے ذریعہ پچھلے دو ہفتے سے دیے جارہے تھے لیکن یہ جان کر شاید آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہے کہ اس کی نمائش میں پورے ملک بلکہ دنیا بھر سے صرف 151 لوگوں نے شرکت کی! تقریباً پندرہ کروڑ مسلم آبادی والے ہندوستان میں سے صرف 151لوگ اس ڈاکیومینٹری کو دیکھنے کا وقت نکال سکے۔اسی طرح چار ماہ قبل جمیعت علمائے ہند کی طرف سے جاری کردہ ڈاکیومنٹری کواب تک صرف ساڑھے تیرہ ہزار لوگوں نے دیکھا ہے۔
دونوں بڑی مسلم تنظیمو ںکے یوٹیوب پر چینل ہیں لیکن ان کے سبسکرائبرس کی تعداد سن کر شایدآپ شرمندہ ہوجائیں گے۔ جمعیت علمائے ہند کے چینل کے سبسکرائبرس کی تعداد 64.4ہزار ہے جب کہ 35.4 ہزار افراد جماعت اسلامی ہند کے چینل کے سبسکرائبرس ہیں۔ اگر ہندوستان میں دو سب سے بڑی مسلم تنظیموں کی طرف سے سوشل میڈیا پر پہل کا یہ انجام ہے، جو لاکھوں ممبران کا دعوی کرتی ہیں ، تو اس سے یہ بخوبی انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر میڈیا کے تعلق سے کوئی نئی پہل کی گئی تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟
مسلم میڈیا ہاوس
لاک ڈاو ن کے دوران ، جب ٹی وی چینل اور علاقائی زبانوں کے اخبارات ہندوستانی مسلمانوں پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی بوچھار کررہے تھے ، تو ایک مسلم میڈیا ہاوس شروع کرنے کے سلسلے میں متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر سینکڑوں اپیلیں نظر آرہی تھیں ۔ مسلمان سیاست دان اور تجارت پیشہ افراد دونوں ہی ایک مسلم میڈیا ہاوس شروع کرنے کے لیے انتہائی بے تاب دکھائی دے رہے تھے۔ سیاست داں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے اور تاجر حضرات اپنی تجارت میں اضافہ کے لیے ایک منفعت بخش کاروبار کے طورپر اسے شرو ع کرنا چاہتے تھے لیکن دونوں کی دلی خواہش تھی کہ مسلمان انہیں اپنا مسیحا کے طور پر بھی دیکھیں۔
ان منصوبوں میں سے ایک نے عملی شکل اختیار کرلی ، جب 15اگست کو ایک یو ٹیوب پر ایک نئے چینل کا افتتاح عمل میں آیا۔جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ جلد ہی ایک نئی نیوز ویب سائٹ بھی شروع کی جائے گی اور اس کام کے لیے سارا پیسہ مسلمانوں کے تعاون سے حاصل کیا جائے گا۔اس چینل کو شروع ہوئے کوئی دو ہفتے ہونے جارہے ہیں ، اس دوران اس پر دو سیاست دانوں کے چار انٹرویو نشر کیے گئے اور اس کے سبسکرائبرس کی تعداد فی الوقت ڈھائی ہزار بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔
سبسکرائبرس کی ان معمولی تعداد کو دیکھ کر شاید مسلمانو ں کی طرف سے میڈیا کے سلسلے میں مختلف پہل کے مستقبل اور ان کے انجام کا اندازہ لگانا آپ کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوگاکیوں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو خود بھی اس طرح کے کسی کام سے دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ بعض حقائق اور امور کا تجزیہ کرلیا جائے ۔
پہلی بات تو یہ کہ ہمیں مکمل ادراک کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم صرف مسلمانوں کے لیے میڈیا ہاوس چاہتے ہیں یا اس ملک کے تمام اقلیتوں کے لیے؟ دوسری بات ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم یہ کام تجارتی نقطہ نظر سے کرنا چاہتے ہیں یا محض خد مت خلق کے جذبے سے؟ تیسری بات یہ کہ ہمیں یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اس کے لیے کون سا راستہ اپنائیں ، یعنی یہ کہ ہم سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ کام کریں یا ویب پورٹل کے ذریعہ؟ اس وقت کسی مسلمان کے لیے نیا ٹی وی چینل شروع کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کے نتائج کو دیکھ کر میڈیا ہاوس کے بارے میں سوچنے والے نئے لوگوں کا بھی حوصلہ پست ہوجائے۔
مزید ہمیںیہ بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ جو کوئی بھی یہ کاروبار کرنا چاہتا ہو اسے فوری منافع کی توقع توقطعی نہیں رکھنی چاہئے۔ اس سلسلے میں ہمارے لیے وہ بزرگ مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں جنہوں نے ملک کی جدوجہد آزادی کے دوران بہت سارے اخبارات شروع کیے اور تمام طرح کی مخالفتوں، پریشانوں اور رکاوٹو ںکے باوجود نہ صرف میدان میں ڈٹے رہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اسے منافع بخش بھی بنادیا ۔ اس کی بنیادی وجہ ان لوگوں کا تحمل، اخبارات میں شائع ہونے والے اعلی میعار کے مواد اور مسلمانوں کی طرف سے تعاون تھی۔
مزیدبرآںجیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ، یہ کہ اگر کوئی مانیٹرنگ اور ریسرچ یونٹ شروع کیا جائے تو یہ چیز قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوگی ، کیوں کہ اس کے ذریعہ ہم ملک بھر کے میڈیا پر نگاہ رکھ سکیں گے اور غلط خبروں اور بیانیے کا تحقیق و حقائق کی بنیاد پرمسکت جواب دے سکیںگے۔ مسلمانوں میں سے ایسے افراد جنہیں’ میڈیا سے نمٹنے‘ کا فن آتا ہو اور جنہیں انگلش، ہندی یا علاقائی زبانوں پر مہارت حاصل ہو وہ میڈیا میں ایک مشترکہ موقف پیش کرسکتے ہیں۔
مسلما نو ں کا کوئی اپنا میڈیا ہاوس شروع کرنے سے قبل مسلمانوں کو اپنی صلاحیت کا اندازہ بھی ضرور لگالینا چاہئے۔ ہم سب کواردو زبان کے فروغ کا عہد کرنا چاہئے اور اس کا عملی ثبوت بھی دینا چاہئے۔ اگر ہم اردو اخبارات کوخریدنے اور قارئین کی تعداد میں اضافہ کرنے کا عہد کرلیں تو بہت جلد ان اخبارات کو زیادہ اشتہارات بھی ملنے لگیںگے ، جس سے انہیں اپنے معیار کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی اور مسلمانوں کی آواز زیادہ موثر انداز میں دور تک پہنچ سکے گی۔ جب یہ آوا ز اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے گی تو اسے نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔ اس طرح اگر ہم اردو اخبارات کی طاقت اور اثرپذیری کو بڑھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بالآخر ٹی وی چینل بھی شروع کیا جا سکتا ہے ، جو زیادہ پائیدا ر ثابت ہوگا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک کمیونٹی کے طور پر ہمیں کمیونٹی کے اجتماعی ضمیر یا نفسیات کی تعمیر شروع کرنی ہوگی ، جو ہندوستان کی دیگر اقلیتوں میں نمایاں طورپر دکھائی دیتی ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس وقت مختلف خانوں میں تقسیم ہیں اور کسی بھی معاملے پر کوئی متفقہ فیصلہ نہیںکرسکتے ۔ ہمیں متحد ہونے کے لیے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔
(مصنف سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔آپ بی بی سی اردو اور خلیج ٹائمز ، دوبئی سے وابستہ رہے ہیں)
ای میل۔[email protected]