اس وقت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ صرف ایک ہی ریاست میں انتخابی مہم چل رہی ہے۔ وہ ریاست ہے مغربی بنگال۔ ایک طرف پوری مرکزی حکومت وہاں ڈیرا ڈالے ہوئے ہے تو دوسری طرف پورے ملک کا میڈیا بھی وہیں موجود ہے۔ دوسرے نمبر پر اگر کسی ریاست کا ذکر ہو رہا ہے تو آسام کا۔ تیسرے پر کیرالا کا، چوتھے پر تمل ناڈو کا اور پڈوچری کا تو کوئی نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ مغربی بنگال بی جے پی کے لیے وقار کی ریاست بن گئی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اگر وہ وہاں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اس کے لیے ایک تاریخی حصولیابی ہوگی اور پھر اس کے بعد باقی بچی ہوئی ریاستوں کے قلعوں پر اپنا پرچم لہرانا مشکل نہیں ہوگا۔ حالانکہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ اس کے پاس کیڈر نہیں ہے۔ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ البتہ اس نے دوسرے کا گھر توڑ کر اپنا کنبہ جوڑا ہے۔ یعنی ترنمول کانگریس کے لوگوں کو پارٹی سے بغاوت کروائی اور انھیں اپنے خیمے میں شامل کر لیا۔ اسی لیے ممتا بار بار کہتی ہیں کہ یہاں بی جے پی کا کچھ نہیں ہے۔ اس کے پاس لیڈر نہیں ہیں۔ وہ باہری پارٹی ہے۔ وہ اسے باہری اس لیے کہہ رہی ہیں کہ دہلی سے دسیوں وزرا وہاں خیمہ زن ہیں۔ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور بی جے پی صدر کے مسلسل دورے اور روڈ شو ہو رہے ہیں۔
2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو وہاں زبردست کامیابی ملی تھی۔ اس نے 42 میں سے 18 نشستیں جیت لی تھیں۔ یعنی اسے مجموعی طور پر 41 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس صورت حال سے اس کے حوصلے بلند نظر آرہے ہیں۔ جبکہ ٹی ایم سی کو 43 فیصد ووٹ ملے تھے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پارلیمانی اور اسمبلی الیکشن میں فرق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا مقابلہ خاتون آہن ممتا بنرجی سے ہے۔ ممتا کو ایک اسٹریٹ فائٹر کہا جاتا ہے۔ ان کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ ممتا کو ہرانا آسان نہیں ہے۔ آزاد تجزیہ کاروں اور گراونڈ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ ممتا کو شکست دے پانا ممکن نہیں ہے۔ ریاست میں پہلے بائیں بازو کی حکومت رہی اور اس کے بعد اب ٹی ایم سی کی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ممتا نے جو سب سے بڑی سیاسی غلطی کی تھی وہ یہ تھی کہ انھوں نے ریاست میں بائیں بازو کا صفایا کرکے اپوزیشن کو ختم کر دیا تھا۔ کانگریس ویسے بھی دم توڑ رہی ہے۔ لہٰذا جب اپوزیشن کی جگہ خالی نظر آئی تو بی جے پی نے اس پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن اندر اندر بی جے پی خوف زدہ بھی ہے۔ اس نے وہاں ہندو مسلم کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ نندی گرام کو چھوڑ کر دوسری جگہوں پر ناکام ہو چکی ہے۔ اس نے ہندو بنام ہندو کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ وہ اس طرح کہ اس نے جے شری رام کے نعرے کو ایک جنگی نعرہ بنانا چاہا اور ہندووں کے ذہنوں میں یہ بٹھانا چاہا کہ ٹی ایم سی لیڈر اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو جے شری رام کے نعرے سے چڑ ہے۔ اس نے مغربی بنگال میں پوجی جانے والی دیوی درگا یا چنڈی کو رام جی کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یعنی ہندو بنام ہندو کا کھیل شروع کرنا چاہا تھا۔ مگر وہ اس میں ناکام ہو گئی۔ جس پر ممتا نے کہا تھا کہ مغربی بنگال میں ’’کھیلا ہوبے‘‘۔
لیکن کیا وہاں مقابلہ دو خی ہے اور کیا انتخابی میدان میں صرف ٹی ایم سی اور بی جے پی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کم از کم 24 پرگنہ کے علاقوں میں مقابلہ سہ رخی ہو گیا ہے۔ اسے سہ رخی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے فرفرا شریف کے پیرازادہ عباس صدیقی نے۔ فرفرا شریف ہگلی ضلع کے جنگی پاڑہ میں ایک پیر حضرت ابو بکر صدیق (1846-1939) کی درگاہ ہے۔ جہاں ہر سال عرس لگتا ہے اور وہاں اس درگاہ کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے مریدوں کا کہنا ہے کہ اجمیر کی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے بعد یہ ہندوستان کی دوسری بڑی درگاہ ہے۔ ابوبکر صدیق کے پانچ بیٹے ہیں جن کو ’’پانچ حضور قبلہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انھی پانچ میں سے ایک کے بیٹے عباس صدیقی ہیں جو اب سیاست کے میدان میں کود پڑے ہیں۔ حالانکہ درگاہ کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ان کو سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہیں۔ وہ لوگ سیاست میں نہیں بلکہ عبادت میں یقین رکھتے ہیں۔ لیکن عباس صدیقی نے سیاست کی راہ پکڑ لی ہے۔ خاندان میں ان کے اس قدم کی مخالفت کی گئی۔ پھر بھی وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ انھوں نے ’’انڈین سیکولر فرنٹ‘‘ نامی ایک سیاسی پارٹی تشکیل دی ہے اور کانگریس اور بائیں بازو کے اتحاد کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا ہے۔ ابھی انھوں نے 26 نشستوں پر اپنے امیدوار اتارے ہیں۔ مزید امیدواروں کا اعلان شاید بعد میں کیا جائے گا۔ ان کے چچا طہٰ صدیقی جو خود بھی پیرزادے ہیں عباس صدیقی کے اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عباس نے اپنے غلط کاموں پر پردہ ڈالنے کے لیے سیاست میں قدم رکھا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ عباس صدیقی نے ایک نالج سٹی بنانے کے لیے عوام سے کافی بڑا چندہ کیا لیکن وہ سٹی آج تک نہیں بن سکا۔ ویسے یہ بتادیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے تعلیم کے میدان میں کام کیا تھا۔ انھوں نے کئی عوامی و فلاحی ادارے بھی قائم کیے تھے۔
مغربی بنگال میں الیکشن کے آغاز سے قبل مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے فرفرا شریف کا دورہ کیا تھا اور عباس صدیقی سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت یہ خبر خوب گرم ہوئی تھی کہ دونوں مل کر الیکشن لڑیں گے۔ لیکن عباس صدیقی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اسد الدین اویسی نے ان سے کوئی رابط قائم نہیں کیا۔ حالانکہ یہ ان کی یعنی اویسی کی غلطی تھی۔ انھوں نے عباس صدیقی کے اندر سیاست کی آگ لگا دی اور اس کے بعد لاپتہ ہو گئے۔ بہر حال جب انھوں نے دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا اور کیوں نہیں کیا یہ نہیں معلوم ہو سکا، تو عباس صدیقی نے اپنی ایک پارٹی بنا لی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں خاص طور پر نوجوانوں میں ان کو ماننے والے موجود ہیں۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ بھائی جان کو ووٹ دیں گے۔ کیوں دیںگے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ بھائی جان بہت اچھا بولتے ہیں۔ لیکن کیا وہ یعنی بھائی جان الیکشن پر اثرانداز بھی ہو سکیں گے یہ کہا نہیں جا سکتا۔ بی جے پی کا خیال ہے کہ عباس صدیقی سے اسے فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ وہ جو بھی ووٹ کاٹیں گے وہ ٹی ایم سی کا کاٹیں گے۔ ظاہر ہے اگر مسلم ووٹ بٹ گیا تو اس کا فطری فائدہ بی جے پی کو پہنچے گا۔ ادھر ایسی خبریں ہیں کہ بی جے پی کامیابی حاصل کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق وہ اپنے ہر امیدوار کو کروڑوں روپے دے رہی ہے۔ بی جے پی کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن سیاسی مشاہدین سے بات کیجیے تو ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو کسی بھی قیمت پر اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ بلکہ ایسا ممکن ہے کہ ٹی ایم سی، کانگریس، لیفٹ اور آئی این ایف کی مخلوط حکومت بن جائے۔
بہرحال مغربی بنگال کا الیکشن کافی دلچسپ اور ہنگامہ خیز ہے۔ پہلے مرحلے کی پولنگ ہو چکی ہے۔ دوسرے مرحلے کی جمعرات کے روز ہے۔ اس کے بعد چھ مرحلوں کی پولنگ باقی رہے گی۔ گویا ابھی وہاں خوب تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔ نندی گرام میں جہاں سے ممتا اور ان کے سابق معاون یا سپہ سالار اور اب حریف شوبھیندو ادھیکاری میدان میں ہیں، بی جے پی نے مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ادھیکاری نے بار بار ممتا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بیگم جیت گئیں تو مغربی بنگال منی پاکستان بن جائے گا۔ کیا عجیب منطق ہے۔ دس سال سے بیگم یعنی ممتا کی حکومت ہے اور وہ انھی کے ساتھ تھے، اتنے برسوں میں تو وہ منی پاکستان نہیں بنا لیکن ادھیکاری کے ٹی ایم سی چھوڑنے کے بعد ممتا جیت گئیں تو بنگال پاکستان بن جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممتا پہلے عید مبارک اس کے بعد ہولی مبارک کہتی ہیں۔ یعنی وہ ہندووں کے دلوں میں مذہب کے نام پر ممتا کے خلاف زہر بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مغربی بنگال کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر بٹنے والے نہیں ہیں۔ بہر حال ممکن ہے کہ عباس صدیقی ہی بی جے پی کا بیڑا پار لگا دیں اور جو رول اویسی نے بہار میں ادا کیا وہی رول صدیقی بنگال میں ادا کریں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عباس صدیقی کا کھیل ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے۔
موبائل۔ 9818195929