کیا این سی میدان مار لے گی؟

ریاست  کی بدلتی اور بگڑتی سیاسی صورتحال میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا نیشنل کانفرنس اپنا سیاسی احیاء کرپائے گی۔ حوصلہ مندوں کے حالیہ بیانات دیکھیں تو وہ آج ہی سے عمر عبداللہ کو نئے وزیر اعلیٰ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ڈی پی مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کی شکارہوچکی ہے اور آئے روز اس سیاسی عمارت کی کوئی نہ کوئی اینٹ اپنی جگہ سے ہل جاتی ہے۔ دوسری جانب کشمیر میںفری لانس سیاست کاروں کی قوت اورتعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر چہ فری لانس صحافت سے متعلق ایک اصطلاح ہے جس کامطلب یہ ہے ایک ایسا صحافی جو کسی خاص ادارہ سے وابستہ نہ ہو کر صحافت کیلئے عمومی طور اپنی خدمات پیش کرتا ہے لیکن کشمیر میں اب فری لانس خدمات کا دور سیاست میں بھی شروع ہوچکا ہے جو کہ اگر ایک عرصہ سے موجود ہے تاہم ہم عصرسیاسی صورتحال میں ان کی قوت اور اہمیت الگ ہی معنی کی حامل ہوکر رہ گئی ہے۔ غلام حسن میر، حکیم محمد یاسین ، سید الطاف بخاری وغیر ہ کے حوالہ سے یہ فری لانس سیاست بھی کیا رخ اختیار کرے گی،یہ تواگرچہ پوری طرح سے نہیں بتایا جاسکتا ہے پھر بھی ان کی خدمات کسی کیلئے بھی دستیاب رہ سکتی ہیں جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی  علاقائی جماعت کیلئے وہ امکانی تلوارکی طرح سیاسی افق پر لٹکتے رہیں گے۔ بالخصوص اس صورتحال میں جب نیشنل کانفرنس کو لگتا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ دھائی سے اسکی علاقائی کشمیر ی حریف سیاسی جماعت اب تقریباً منظر سے ہٹ رہی ہے، اس لئے اس کیلئے فاتحانہ پیش قدمی کا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔ اس لئے خود سیاسی میدان سے باہر بھی کئی طالع آزما اس جماعت میں داخل ہورہے ہیں تاکہ نہ صرف وہ اپنے موجودہ مفادات کا تحفظ کرسکیں بلکہ آئندہ کے امکانی مفادات سمیٹنے کا بھر پور موقع بھی حاصل ہو۔ مفاد پرست سیاسی ایام میں زیادہ ہی چارج ہوجاتے ہیں۔ انکے حواس خمسہ کے علاوہ چھٹی حس بھی بڑی تیزی سے کام کرنے لگتی ہے۔یوں اس میدان میں انہیں اب پھر سے نیشنل کانفرنس اپنے مفادات کیلئے مناسب پلیٹ فارم نظر آتا ہے۔ 
فاروق عبداللہ کے حوصلے دیکھیں تووہ ملکی سطح پر بی جے پی کے خلاف اتحاد میں شامل ہورہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ریاست میںانکی اصل ٹکر بی جے پی کے ساتھ ہے ۔چونکہ بی جے پی کسی بھی صورت میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ سیاسی اتحاد کی قائل نہیں کیونکہ یہ بی جے پی کے نظریاتی اعتقاد کے خلاف ہے ۔ اس لئے کہ نیشنل کانفرنس آٹانومی کا راگ الاپ کر مبینہ طور پرنہ صرف نرم علیحدگی پسندی کی وکالت کرتی  ہے بلکہ گرم علیحدگی پسند ی کیلئے بھی راہ ہموار کررہی ہے۔ اس طرح سے ریاست میں بی جے پی کی نظروں میں نیشنل کانفرنس کی اہمیت کانگریس کے برابر ہے جسکے ساتھ وہ کبھی بھی اور کوئی بھی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہے تاہم ان ساری باتوں سے قطع نظر اہم ترین بات یہ ہے کہ آیا واقعی نیشنل کانفرنس اپنا سیاسی احیاء ممکن کر پائے گی جس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نظریاتی بساط پھر سے ترتیب دے سکے۔ ورنہ اگر یہ محض موقعہ پرستانہ سیاست ہے کہ پی ڈی پی ڈوب رہی ہے،اس لئے نیشنل کانفرنس کو پھر سے ابھرنے کا موقعہ مل رہا ہے تو اس میں زیادہ حوصلہ افزاء بات نہیں ہوگی۔
 یہ ہم پہلے بھی ان کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے اقتدار کھونے کے بعدجس طرح سے ٹھوس اور جارحانہ سیاست شروع کی ہے ،کاش وہ اقتدار میں رہ کر ایسا کرتی تو سیاست کا نقشہ یہ نہیں ہوتا۔ گزشتہ کالموں میں ہم ان اقدامات کا تذکرہ کرچکے ہیں اور تازہ یہ ہے کہ محبوبہ مفتی نے جموں کے گوجر مسلمانوںکا مسئلہ اٹھایا ہے جو بروقت بھی ہے اور جرأت مندانہ بھی۔ اسکے بر عکس نیشنل کانفرنس نے ابھی کوئی خاص بڑا سیاسی قدم نہیں اٹھایا سوائے اس کے کہ21نومبر کو انہوں نے پی ڈی پی کی حمایت کرکے ریاست میں بی جے پی کے اقتدار راستہ روک لیا جو کہ واقعی ایک تاریخی قدم ہے۔ تاہم نیشنل کانفرنس کو اگرپھر سے کشمیر کی سیاست میں کوئی تاریخی کردار نبھاناہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ کشمیرکے جملہ سیاسی حقائق اور منظر نامہ کا خیال رکھے جس میں مزاحمتی سیاست ایک نہایت ہی اہم عنصر کا درجہ  رکھتی ہے۔
غور سے دیکھیں تو اب تک نیشنل کانفرنس نے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے دو اہم بیانات دئے جن میں سے ایک پر کسی قدر عوامی مباحثہ ہوا اور وہ بھی نہایت کم ہواجبکہ دوسرا بیان عمومی طور پس منظر میں چلا گیا ۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ اگر1996میں نیشنل کانفرنس برسر اقتدار نہیں آتی تو پھر کوکہ پرے نے اقتدار سنبھالا ہوتا اور اخوان برسر اقتدار آچکی ہوتی۔ اگر اس بیان میں کوئی تاریخی سچائی ہے تو پھر یہ بہت بڑی بات ہے کیونکہ جن لوگوں نے اخوان کا خونین دور دیکھا ہے تو اس کیلئے نیشنل کانفرنس کو ضرور مناسب سیاسی کریڈیٹ دیں گے۔حالانکہ اخوان 1995 کے وسط میںنمودار ہوئی اور اس کا دبدبہ کم و بیش 1998تک جاری رہا، یعنی نیشنل کانفرنس کے بر سر اقتدار آنے کے دوبرس تک۔ یہاں سوال ابھرتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس کے برسر اقتدار آنے کے باوجود بھی اخوان کا دم خم باقی رہا تو پھر این سی کا کیا کام ہے۔ یا پھر اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر نیشنل کانفرنس کے برسر اقتدار آنے کے باوجود بھی اس خونین جماعت کا زور جاری رہا۔ کیا ہواہوتا اگر یہی جماعت بر اہ براست بر سر اقتدارآچکی ہوتی تو کوکہ پرے ضرور ایم ایل اے بن گئے ہوتے ۔ چند ایک نیشنل کانفرنس میں بھی شامل ہوگئے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر نیشنل کانفرنس اقتدار میں نہ آتی تو پھر اخوان نے سرکار بنائی ہوتی۔جس کا مطلب صاف ہے کہ خون خرابہ بڑے پیمانہ پر جاری رہتا ۔  یہ کام اگرچہ نیشنل کانفرنس نے کسی نیک نیتی سے نہیں کیا ،پھر بھی یہ ایک  تاریخی کارنامہ ضرور ہے۔ گوکہ اس دور میں ٹاسک فورس کی ظلم و زیادتیوں سے ایک الگ ریکارڈ بنایا ۔ نیشنل کانفرنس کے برسر اقتدار آنے سے اخوان کا زور ضرور ٹوٹ گیا ۔ انکے خلاف نیم دلی ہی سے کئی اقدامات اٹھائے گئے۔ اسوقت کے نیشنل کانفرنس کے وزیر افتخار حسین انصاری نے پانپور میں پاپا کشتواڑی کے پچاس دکانات گرا کر مسمار کردئے۔ اخوان کا زورضرور باقی رہا لیکن اخوان کا راج ختم ہوا۔ گوکہ  خود نیشنل کانفرنس کے کئی حلقے اخوان سے ملے ہوئے تھے تاہم 1996میں نیشنل کانفرنس سرکار سے اخوان کا راج ٹوٹ گیا ۔
دوسری اہم بات عمر عبداللہ نے کہی ہے کہ جب جب نیشنل کانفرنس اقتدار سے باہر رہی، تب تب ریاست کے آئین میںتبدیلیاں کی گئیںاور اسکی خود مختاری کو مجروح کیا گیا ۔1947سے برابر آج تک یہ ہوتا رہا ۔ یعنی1953میں شیخ محمد عبداللہ کی معزولی اور گرفتاری سے لیکر پی ڈی پی کے دور اقتدار تک ایسا ہی ہوتا رہا ۔ چاہئے وہ غلام محمد صادق کا زمانہ تھا یاپھر پی ڈی پی کے دور اقتدار میں سیٹیٹ سبجیکٹ قانون میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے تبدیلی لانے تک کی بات ہو۔عمر عبداللہ کے اس بڑے دعوے میںبھی آدھی سچائی ہے۔ بہت سارے تاریخی حقائق اس دعوے کے حق میں ضرور ہیں تاہم خود نیشنل کانفرنس نے بھی خود مختاری پرجو ضرب ِکاری لگائی ،وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ عمل منفی ہے کہ نیشنل کانفرنس نے کبھی بھی سچے دل سے خود مختاری کیلئے کام نہیں کیابلکہ اس کے مطمح نظرہمیشہ اقتدار ہی رہاہے۔پھر بھی اگر عمر عبداللہ اپنے اس بیان کوتفصیل کے ساتھ عوام کے سامنے مباحثہ کیلئے پیش کرتے ہیں تو یقینی طور پر اس جماعت کو نقصان نہیں ہوگا۔
البتہ ابھی تک اس جماعت نے مزاحمتی سیاست اور اس کے ماحول کو مد نظر رکھ کر اپنی سیاسی کشتی آگے بڑھانے کا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔ وہ کس طرح وہ جذبات اور احساسات مد نظر رکھیں گے جو یہاں مزاحمت کاخاصہ ہے۔ اگر چہ لگتا یہ ہے کہ مزاحمتی سیاست اقتدار والی سیاست سے اپنے آپ کو بچاکر رکھنا چاہتی ہے،وہ اس کے ساتھ بار بار الجھنا نہیں چاہتی ہے کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں سے اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوا ہے تاہم ابھی تک نیشنل کانفرنس ،جود واضح طور پر کشمیر کے سیاسی منظر نامہ پرابھر رہی ہے، اس کیلئے لازمی ہے کہ وہ ٹھوس سیاسی حکمت عملی سے اصل مسائل،جو عوام دوست بھی ہوں اور مزاحمتی نواز بھی ،کو آگے بڑھاکر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے۔ اس طرح سے سیاسی احیاء ممکن ہو پائے گا۔ 
 ماخوذ: ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘ سری نگر
