کون نہیں جانتا کہ اپنے ملک کشمیر میں جب تانگہ بان کا گھوڑا امیرا کدل کی مشکل چڑھائی نہ چڑھ پایا ، چڑھائی جو انجینیرنگ اور سیاست کا مشترکہ حیرت انگیز کارنامہ تھا ۔ تانگہ بان جھلا کر بِلا تامل بول پڑا کہ امریکہ کی سازش ہے نہیں تو کیوں نہ چڑھ پاتا۔ کہتا بھی کیوں نہیں اور اس درپردہ سازش کے اندرون تک جانے کی کوشش کیوں نہ کرتا ۔آخر بے چارہ جب پیدل اس پر چلتا تو بیچ میں رُک کر اسے اندازہ ہوتا کہ اگر میں گاڑی ہوتا تو یہاں مجھے اپنا گئیر ضرور بدلنا پڑتا۔چلو وہ تو معمولی مسلٔہ تھا کہ گھوڑا نہ کھینچ پایا لیکن اب کی بار مفتی سرکار اس مسئلے سے دوچار ہے کہ دوچار ہی نہیں چوٹیاں کاٹنے کی بھر مار ہے اور اس چوٹی کٹائو گرد آب میں جنوبی کشمیر ہی نہیں بلکہ گاندربل، بٹہ مالو، ملہ باغ ، باغات ، بانڈی پورہ ، بارہمولہ سورسیار، کر الہ یار ، بالہ یار، شالہ یار بھی ہے۔مانا کہ ہماری پولیس تیار ہے کہ کب قینچی بردار کا وار ہو اور وہ دکھائیں اپنا چمتکار اور اسے پہنچا دیں کیفر کردار مگر چار سو ہا ہا کار ہے کہ پولیس والے اب کی بار بے کار ہیں ، کچھ دل چلے کہیں یہ وت انہی رنگروٹوں کا اتیاچار ہے۔اسی لئے مفتی سرکار ہر لمحہ اس بات کی دعویدار ہے کہ جلد ہی ہم قینچی بردار کو بے کار کر دیں گے شاید اسی لئے ہم نے انعام کی رقم میں اضافہ بار بار کردیا ہے ۔ اس کی وجہ ہے دمدار کہ کب انعام کی رقم ہمارے من موافق ہوجائے یعنی بانٹنے کے وقت ہاتھوں میں بس بٹیر کا خون ہی نہ لگ جائے۔ ہم اس بات کا پرچار کردیں گے کہ قینچی بردار ہمارے چنگل میں پھنس گیا ، اس کی سازش کی دیوار میں ہم نے درار ڈال دی ہے اور اب ہم انعام کی رقم بانٹ سکتے ہیں بلکہ اصلی مجرم کے ساتھ اور بھی دوچار دھر لیں گے تو ان سے بھی بونس کے طور کچھ ہزار بر آمد کر ہی دیں گے۔ابھی سودا پکا نہیں ہوا اسی لئے پولیس اور حریت کے درمیان بحث و تکرار کہ ایسا چمتکار کس کا ہے۔پولیس کہتی ہے کہ چوٹی کٹائو معاملے پر حریت کی سیاست زوردار ہے اور کیا پتہ وہ عام شیریوں کو بر سر پیکار کرادیں جب کہ حریت کا جوابی الزام ہے کہ پولیس و فوج اس معاملے میں ملوثین کی طرف دار ہے اور انہیں ہر جگہ موقعہ ملتے ہی فرار کراتی ہے تاکہ اس کی رچی سازش کا بھانڈہ نہ پھوڑ جائے اور وہ بر قرار رہ پائے۔ہل والے نیشنلی اور ہاتھ والے کانگریسی بھی میدان کارزار میںہیں اور سرکار پر الزامات کی بوچھار ہے کہ یہ تو نکمی سرکار ہے ۔ہم ہوتے تو ہل اور ہاتھ کا ساتھ بنا کر اس ملزم کے درو دیوار ہلا دیتے یعنی کرسی بردار سیاست اور کرسی کے غم میں ڈوبی سیاست کے درمیان بحث ہے تکرار ہے ۔اللہ جانے کون صداقت شعار ہے اور کون مکار ہے اور پھر اپنے اہل کشمیر تو افواہ باز ہیں،افواہ ساز بھی ہیں،جبھی تو والٹر لارنس نے خوب کہا تھا کہ اہل کشمیر افواہوں کو پسند کرتے ہیں بلکہ افواہوں پر زندہ رہتے ہیںیعنی ملک کشمیر میں افواہ بازی مرغن غذا ہے۔بھلے روٹی کپڑا مکان نہ ملے سات دن آرام سے کاٹ لیں لیکن افواہ بازی چوبیس گھنٹے بند رہی تو جسم ناتواں مزید پتلا ہوتا ہے ،جسمانی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے اور دماغ اتھل پتھل جنم لیتی ہے۔پھر ہونا کیا تھا چوٹی کٹائو کی بات پھیلی تو یوپی کا مزدور شکار بنا، ایک نیم پاگل عورت چنگل میں پھنسی، ایک سومو ڈرائیور ہتھے چڑھا اور سب سے بڑھ کر ایسے میں ایک محبت بھری کہانی نمودار ہوئی کہ چوٹی کاٹنے کے الزام میں ایک پرندہ محبت گرفتار ہوا ،اس الزام میں کہ یہ چوٹی کٹائو مہم کا حصہ دار تھا ؎
کہ گیسوؤں کی خوشبو سونگھنے آئے تھے وہ
افسوس کترنے کا الزام دے گیا کوئی
شومئی قسمت محبت کی نائو پار نہ ہو سکی بلکہ محلے کے لوگ باخبر ہو گئے۔ پھر کیا تھا سب لوگ تیز قدموں پہنچ گئے ، لاٹھی بردار کیا ، تبر دار کیا، سب جائے وقوع پر پہنچے کہ قضیہ گیسو بر سر گیسو حل کردیں گے لیکن نہ جانے کہاں سے چھنکتی کھنکتی آواز گونجی ؎
کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو
کوئی لاٹھی سے نہ پیٹے میری مستانے کو
لگتا ہے محبت کرنے والے آج کل کشمکش میں ہیں کہ محبت کی نشانی تاج محل پر بھی زعفرانی یلغار جاری ہے جبھی تو پہلی بار یو پی محکمہ سیاحت کے بروشر میں تاج کا کوئی ذکر نہیںاور وہ جو ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوںکو محبت کرنا سکھایا تھا ،اس پر بھاجپا ، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کا ترشول چلا ۔مطلب وہ جو عاشقوں کا خون ہے رنگ ِحنا نہیں ،اس پر یو پی کے رنگساز کاریگر نئی پرت چڑھا رہے ہیں جو دور و نزدیک سے بس زعفرانی دکھتاہے ۔چونکہ یو پی یوگستان کا روپ دھارن کر رہا ہے اس لئے سفید سنگ مرمر کا عالمی نمونہ یوگی ہتھوڑے کا شکار ہے ؎
آستان عشق پر حاضری ہم کیا دیتے
کہ بتان محبت کو اٹھا کر لے گا کوئی
دروغ بر گردن راوی جس نے یہ سنایا ہے کہ شاہ جہاں تاج بناتے بناتے غریب ہوگیا اور اس نے بقیہ پیسے ساورکر مہاراج کے آباو اجداد سے اُدھار لئے تھے۔کیا پتہ انہی روپوں کا تقاضہ ساورکر کی موجودہ پیڑی ،جس کی چھاتی چھپن انچ پر محیط ہے ، کا اعلان ہے کہ قرضہ چکائو تو تاج لے جائو۔نہیں تو اس کا پورے کا پورا انتقال کاغذات کنول والوں کے نام ہوگا۔ خیر جو بھی ہو اہل کشمیر اس کے تار مرکز اور امریکہ سے ہی ملانے پر تیار ہیں کیونکہ بقول ان کے جب بھی یہاں کچھ ہوتا ہے وہ مرکز کی چال یا امریکہ کی سازش ہی ہوتی ہے۔
ہم تو ماضی میں قلم کار تھے کہ قلم دوات کا استعمال کرکے لکھتے تھے، پھر چھاپتے تھے لیکن جب سے قلم دوات والوں نے ملک کشمیر کے خواب دیکھے ہمیں ڈر لگا کہ کہیں ہمیں بھی قلم دوت والوں میں شامل نہ کیا جائے، پھر کسی شادی کی تقریب میں سے بھگائیں گے ۔بھلا ایسے میں وازہ وان کی قربانی کون دے گا۔اسی لئے ہم نے قلم دوات سے رشتہ تیاگ کر کمپیوٹر سے لکھنا شروع کیا ۔ ظاہر ہے ہم قلم کار سے مائوس کار بن گئے کہ کمپیوٹر کا ماوس ہمارے لئے چلتا ہے۔ہم امریکہ کی سازش اور مرکز کی چال کے اندر چوٹی کٹائومہم ڈھونڈھ رہے تھے کہ خود امریکہ سازش کا شکار ہوگیا ۔کہاں ہر حملے کے بعدپانچ دس منٹ کے اندر انہیں’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ کے نقش نظر آتے ہیں،کہاں اب کی بار حملہ آور کوئی اپنا ہی مسیحی سٹیفن پیڈاک نکلا اور وہ بھی چوسٹھ سال کی عمر میں اس نے شہر ِگناہ Sin City یعنی لاس ویگاس میں گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔اندازہ کیجئے اپنے ملک کشمیر میں ساٹھ سالہ لوگ ایک پیر قبر کے دہانے اور دوسرا پیر کیلے کے چھلکے پر رکھے ہوتے ہیں کہ لڑھکے تو بس لڑھکے اور کہاں امریکی بزرگ دہشت گردی کے ذریعے کوئی ساٹھ لوگوں کو قتل کرڈالے اور پانچ سو کے قریب افراد کو زخمی۔ دروغ بر گردن راوی جس نے یہ اطلاع دی کہ سٹیفن کے پاس کوئی دس خود کار ہتھیار تھے اور یہ کہ امریکہ صرف باقی ملکوں کو ہتھیار ہی نہیں بیچتا بلکہ اپنے ملک میں بھی بندوقیں بنانے والے بڑے طاقتور ہیں۔مانا کہ بر صغیر میں ملاوٹ کرکے لوگوں کو راہ عدم پہنچانے والے سیاسی پارٹیوں کو فنڈ دیتے ہیں لیکن امریکہ میں یہ کام ہتھیار ساز ادارے کرتے ہیں جبھی تو ان پر بندشیں نا ممکن ہیں۔بھلا جو ادارے سرکار فراہم کرے وہ من مانی تو کر ہی سکتے ہیں مگر امریکی سازش پر غور کرنا بنتا ہے کہ اپنے سٹیفن کو دماغی مریض گردان کر کسی الزام سے مبرا کر دی مگر امریکہ بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلا ہے۔ چشم زدن میں اسلامی اسٹیٹ سے ذمہ داری قبول کروائی،پھر مرکز کی چال بھی دیکھو بھکت جن ایف بی آئی، سی آئی اے پر پہلی بار بھروسہ کرنے کو تیار نہیں کہ حملہ سٹیفن نے کیا تھا مگر بھکت جن اسلامی اسٹیٹ کی بات کو پہلی بار سچ تسلیم کرنے کو تیار ہیں کہ حملہ انہوں نے ہی کروایا۔
چھپن انچ چھاتی والے دیس میں بھکت جن جو مرضی کردیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔بھکت جنوں کو شکایت ہے کہ کیرل میں ان کے کارکنوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے اور بقول ان کے اس پر کوئی آواز نہیں اٹھا رہا ۔اس لئے اپنے کارکنوں کی خبر گیری کے لئے امت شاکیرل پہنچے۔دیکھا دیکھی میں اور بھی کنول والے بشمول یوگی جی پدھارے۔امت شااور یوگی جی کو گجرات اور یوپی میں بشری حقوق قایم رکھنے کا تجربہ ہے وہ کیرل والوں کو اس پر سبق پڑھانا چاہتے ہیں ۔امت شا گجرات فسادات میں بشری حقوق کی پامالی روکنے کے لئے جیل بھی پدھارے کہ الزام تھا وہاں دو ہزار اقلیتوں کے قتل میں وزیر داخلہ کا براہ راست ہاتھ تھا۔چلو پھر چٹ بھی میری پٹ بھی میری کا فائدہ اٹھا کر بھاجپا کی بڑی کرسی پر بیٹھا ہے اور کیرل والوں کو تعلیم دے رہا ہے۔یا ہو نہ ہو پد یاترا کا اہتمام وزن کم کرنے کے لئے کیا ہو ۔ پہلو خان،جنید، اخلاق، گوری لنکیش وغیرہ کس کھیت کی مولی ہیں کہ مارے گئے اور لبرل لوگوں نے شور مچایا۔ابھی تو معروف ایکٹر پرکاش راج بھی میدان میں کودا کہ مودی مہاراج اس سے بھی بڑا ایکٹر ہے۔گوری جیسے لوگوں کو قتل کرنے والوں کے بارے میں بات نہیں لیکن جب چاہے آنسو بہالے مگر شاید پرکاش کو خبر نہیں کہ جو چھپن انچ والے مودی پر فقرہ کسے گا وہ جیل جائے گا کیونکہ بھکت جنوں کو تو آزادی ہے کہ وہ کس کو کس کے نام پرمار ڈالیں ،کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہو سکتی ۔اسی لئے پہلو خان قتل کے تمام ملوثین باری باری چھوٹ گئے، یعنی ابھی پہلو کے قبر کی مٹی نہ سوکھی بھکت جن چھپن انچ کی چھاتی ٹھوکتے باہر آگئے، کہ ہمت ہے تو سامنے آ۔اور جب موہن جی بھاگوت گئو ماتا کے نام پر کسی ادھیکاری یا سپریم کورٹ کی پرواہ نہ کرنے کی آزادی دے تو پھر ڈر کاہے کا۔ڈر ہے تو دبے کچلے دلت کو ۔ایک ایکٹر نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ مونچھ ہو ۔۔۔۔جیسی۔لگتا ہے چھپن انچ زمانے میں مونچھ تو بھاگوت جیسی ہو، جنرل بخشی جیسی ہو ورنہ ہو ہی نہیں ۔پھر بھلا دلت لڑکا کیوں اپنی مونچھ دکھاتا گھومے۔ایسے میں بھکت جنوں کو اچھا نہ لگا اور چاقو مار دیا کہ مونچھ اگانے کے لئے بھی اب ناگپوری اجازت کی ضرورت ہے۔چھپن انچ چھاتی والے دیش میں کہیں ناچ گانا دکھتا ہے تو دکھے مگر گجراتی گربا دیکھنے کیسے دلت آدمی پہنچے۔جو چیز ممنوع ہے اس پر ایکشن بھی ہوگا ۔بس پھٹا پھٹ بھکت جن غصے سے زعفرانی ہوگئے ۔دلت کو لتاڑا، پچھاڑا، مروڑا، توڑا ،یعنی آنکھ پھوڑ ناک توڑ ایکشن میں دلت کو عمر بھر کے لئے یاد رکھنے کیا مشق کروادی کہ گربا دیکھنے کی آزادی استعمال نہ کرے۔کسے نہیں معلوم اس دیش میں دلت اور مسلم نشانے پر ہے بھلے وہ مسلم فوجی ہی کیوں نہ ہو۔اجمل حق، تیس سال فوج میں کام کرنے کے بعد آسام میں شہریت سے محروم ہے کہ بھائی ابھی ثابت کرو تم بھارتیہ ہو ۔مانا کچھ گرو جیل سدھارے البتہ بھارت ورش میں سادھوؤں اور سادھویوں کا راج برابر قایم ہے۔ایک سادھوی منسٹر ہے، ایک ایم پی ہے، ایک چیف منسٹر ہے اور باقی کتنے زعفرانی کپڑے میں ملبوس تماشے دکھا رہے ہیں ان کی تعداد گننا مشکل ہے ۔زعفرانی خرقہ پہنے رادھے ماں انسپکٹر کی کرسی پر براجمان ہوگئی، پولیس والے تو سبھوں کو نچاتے ہیں لیکن رادھے نے پولیس اسٹیشن میں خود پولیس والوں کو نچایا ۔گبر سنگھ نے کیا خوب بات کہی تھی کہ لگا دو دو چار ٹھمکے ،کچھ ناچ گانا ہم کو بھی دکھائواور پولیس والے تھرک تھرک ناچ لئے!!
رابط[email protected]/9419009169