کھویا ہوا چاند

صبح ہی سے میں عید کی تیاریوں میں مصروف رہا۔ گاہے اہلیہ ایک چیز تو گاہے دوسری چیز کی مانگ کرتی رہی۔ان گھریلو مصروفیات میں کچھ اس طرح گِھرا رہا کہ بچوں کی طرف دھیان ہی نہ دے سکا ۔بچوں کی عید تو نئے کپڑے اور نئے نئے کھلونے خریدنا ہوتی ہے ۔بچوں کی دنیا تو ایک انوکھی دنیا ہوتی ہے۔ خیر بچوں نے بڑا اصرار کیا کہ اُنھیں کھلونے لا کے دوں ۔ایک دکان تو پاس ہی تھی اُس کے پاس نوع بہ نوع کے کھلونے تھے ۔کافی بھیڑ تھی ۔شام قریب ہی تھی مگر بجلی کے قمقموں کی روشنی سے ایسالگ رہا تھا کہ جیسے دن کا اُجالا ہے۔ لوگوں کی چہل پہل تھی ۔ہر چہرہ چاند کی مانند دِکھ رہا تھا۔بچوں کو زور سے پکڑ کر دکان پر چڑھا اور وہ کھلونے پسند کرتے رہے ۔اسی اثنا میں میری نظر پاس والے ایک مکان کی سیڑھی پر بیٹھے ایک جوان پر پڑی جو کچھ عجیب حرکتیں کر رہا تھا مگر بار بار آسمان کی طرف بے چین نظروں سے گھور رہا تھا اور آپ ہی آپ سے باتیں کرتا یا بڑبڑاتا تھا ۔میں اُسے دیکھ کر اسی کی طرف متوجہ ہوا۔ بچے کھلونے پسند کرنے لگے ۔دکان پر سے بھیڑ ذرا کم ہوئی تو میں بچوں کے پسندیدہ کھلونے دیکھ کر اس دکان دار کو پیسے دیتے ہوئے پوچھنے لگا کہ بھائی صاحب یہ جو اس مکان کی سیڑھی پر رات گئے جوان بیٹھاہے اُسے کیا ہوگیا ہے۔ یہ صرف آسمان کی اور نظریں جمائے چمکتے چاند کو دیکھ کر کچھ بڑبڑاتا ہے ۔دکان دار نے میری طرف دیکھ کر کہا بھائی مت الجھو ان معاملات میں ،دنیا میں ہزاروں لوگ ایسی حالت میں گرفتار ہیں ۔میں نے اصرارکیا تو اُس نے اس جوان کی کہانی مجھے سنانا شروع کی۔’’یہ جوان مجنوں نہیں ہے بلکہ اسے حالات نے مجنوں بنا دیا ہے ۔ہوا کچھ اس طرح یہ کسی لڑکی کے عشق میں غرق تھااور دن رات اسی میں گزارتا تھا مگر تقدیر نے اپنا کھیل کھیلا ۔اس کی معشوقہ نے عین وقت پر اُس سے فریب دے کر اسے فرار حاصل کیا۔اس صدمے کو یہ جوان برداشت نہ کر سکا اور حواسات کھو بیٹھا ۔والدین اور دیگر رشتہ داروں نے علاج و معالجہ کیا مگر کوئی چیز کارگر ثابت نہ ہوئی۔آخر کار یہ گلی گلی اور کوچہ کوچہ بس یہی رٹ لگاتا پھر رہا ہے کہ میرا چاند کہاں گیا ؟چاندنی رات کو یہ اپنے صحن میں بیٹھ کر صرف آسمان کی طرف حیرت زدہ نظروں سے دیکھتا اور گھورتا رہتا ہے اور بڑبڑاتا ہے کہ میرا چاند کہاں گیا؟،میرا چاند کہاں گیا؟۔بچوں کے کھلونے لے کر میں گھر کی طرف چلا مگر میرا پورا دھیان اسی جوان کی طرف مبذول رہا ۔مجھے اس کی جوانی پر ترس آیا ور دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ میں اس لڑکے کی کیسے  مدد کرسکوں ۔دوسرے روز شام کو میں جوں توں کر کے گھر والوں سے ایک ضروری کام کا بہانہ بنا کر اس مکان کی طرف چل پڑا۔ اندر صحن میں موجود اس لڑکے کے قریب گیا ۔وہ اپنے حال میں مست تھا ۔میں ڈرتے ڈرتے اس کے کندھے کو اپنی گرفت میں لے کر اسے باتیں کرنے لگا ۔مجھے بڑی تشنگی تھی کہ میں اس کاحال اسی کی زبانی سنوں ۔میں نے اس سے پوچھا ارے یار تم آسمان کی طرف اپنی نظریں جمائے کیا بڑبڑارہے ہو ۔آج تو لوگ عید کا بڑا تہوار منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔تم تو بس اسی چمکتے چاند کی اور دیکھ رہے ہو۔ یہ جوان مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگا اور کچھ کہے بغیر اس کی آنکھوں میں آنسوںاُمڈ آئے ۔میرے اصرار پر اس نے زبان کھولی اور مجھ سے سوالیہ انداز میں پو چھنے لگا کہ کیا آج چاند نکل آیا؟میں نے کہا ہاں ہاں!وہ پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا لیکن میرا چاند تو نظر ہی نہیں آرہا ہے ۔وہ کیوں نہیں سامنے آتا ہے ؟وہ کہاں چھپ گیا ہے ؟میں اُس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تیرا چاند کہاں گیا ہے ؟کس چاند کو آسمانوں میں تلاش کر رہے ہو ؟۔چاند تو آسمان پر بالکل عیاں ہے ۔تیرا کون سا دوسرا چاند نظر نہیں آتا ہے ۔جوان نے بات ٹالتے ہوئے مجھے بھاری لہجے میں کہا ’’تمہیں سمجھ نہیں آئے گا یہ چاند کون ہے جسے میں کھو چکا ہوں ۔جایئے اپنا کام کر لیجئے مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیجیے خدا کے لیے‘‘۔ میں نے بھی مناسب سمجھا کہ اسے اکیلے ہی چھوڑنا ٹھیک ہوگا ۔کیوں کہ وہ بری طرح سے ذہنی طور مفلوج ہو چکا تھا اور اپنے حواس کھو چکا تھا ۔حساس لوگ اکثر ان ہی جیسے صدموں اور آزمائشوں سے نبر د آزما ہونے کی قوت کھو بیٹھتے ہیں ۔اس جوان کے ساتھ تفصیلی بات چیت کرنا ہی بے محل اور فضول تھا۔گھر کی راہ لی تو راستے بھر سوچتا رہا کہ آخر اس جوان کا کھویا ہوا چاند کب نکل آئے گا ۔زیادہ حساس لوگ دنیا کے نشیب و فراز دیکھنے کے متحمل کیوں نہیں ہوتے۔ وقت کے بہاؤ کے ساتھ بہنا تو نادانی ہے اور بزدلی و کمزوری بھی ’’اور بھی غم ہے زمانے میں محبت کے سوا‘‘مذکورہ جوان کی اس حالت زار پر مجھے ترس آرہا تھا کہ کس طرح اس کا شباب اُس یخ بستہ سل کی طرح کچھ اس طرح گھل جائے گا کہ دنیاوالوں کو اس کے ختم ہونے تک پتہ ہی نہیں چلے گا۔لوگ کہتے ہیں کہ وقت ہر مرض کا علاج ہے۔وہ جوان کب تک اپنے کھوے ہوئے چاند کا انتظار کرے گا۔وقت کب کسی کا ساتھ دیتا ہے ۔اُن لوگوں کی معمولی بوندا باندی بھی کسی سیلاب سے کم نہیں ہوتی جو تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں ۔شائد ان ہی وجوہ کی بنا پر اس جوان کی جوانی بھی داؤ پر لگ گئی ۔کیا زندگی بھر وہ اُس چاند کی تلاش میں آسمانوں کو بے تابی کے ساتھ متحیر نظروں سے دیکھتا رہے گا۔آخر کب اُس کا وہ چاند اُسے نظر آئے گا؟یہ میر ے ذہن میں جرس کی صداؤں کی طرح گونجتا رہا ۔
 
���
محلہ قاضی حمام بارہمولہ ،فون نمبر9469447331