کون ہے’’غداری‘‘ کامجرم ؟

حال   ہی میں نئی دلّی کی جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے 10؍ طالب علموں کے خلاف دیش دروہ یعنی ملک کے ساتھ غداری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس نے تین سال بعد 1200؍صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں متعلقہ طلباء پر الزامات عائد کر کے اسے عدالت میں داخل کیا ہے ۔ چارج شیٹ کی بنیاد اخباری رپورٹ اور آر ایس ایس کے طلبہ سنگھٹن اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے تہمتیں ہیں۔ اے بی وی پی نے ہی ان دس طلبہ کے خلاف پولیس میں ایف آئی درج کرائی تھی کہ ان لوگوں نے یونیورسٹی کے احاطے میں ملک کے خلاف نعرے لگائے تھے۔ پولیس تھانے میں ملک دشمنی کی رپٹ میں معروف سٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمار، بھٹاچاریا کے علاوہ سات کشمیری طالب علم بھی ماخوذ کئے گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق ماخوذین کے خلاف جن6 طلبہ نے گواہی دی، اُن میں 5 ؍گواہ جے این یو سٹوڈنٹ  یونین کی حریف بھگوا تنظیم اَکھل بھارتیہ وِدیارتھی پریشد کے کارکن ہیں۔ قاعدے کے مطابق پولیس چارج شیٹ پیش عدالت میں پیش کر نے سے قبل دلی حکومت کی اجازت لینا لازمی تھی لیکن پولیس نے اسے بائی پاس کیا تو اس پر تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ تادم تحریر مجاز عدالت نے مقدمے کی سنوائی سے انکار کر دیا ہے ۔اب اس بارے پولیس اور مرکزی داخلہ وزارت کوئی راستہ نکالنے میں لگے ہیں ۔ فی الحال اس ہائی پروفائل کیس نے وطن سے غداری اور حب الوطنی کے مدعے کو قومی سطح پر دانش ورانہ حلقوں میں بحث و مباحثہ کو جنم دیا ہے۔
 ہندوستان میں دیش دروہ کا مروجہ قانون1870ء میں انگریزوں کے بنائے گئے قانون کا ہی روپ ہے ۔اس قانون کو بنیادی طور پر بادشاہ سے غداری کاجرم مانا جاتا ہے۔ صدیوں قبل ایسے کھٹورقانون وقت کی خاندانی اور شخصی حکومتوں کو بچانے کے لئے تحریری صورت میں یا روایتاًساری دنیا میں نافذ العمل تھے ، ان کا مطلوب ومقصود بادشاہ یا راجہ مہاراجہ کے تئیں کسی غلام کی طرف سے بے وفائی یا محض بغاوت کی بو آنے پر موت کی سزا ہوا کرتی تھی۔ اب اکیسویں صدی میں اسی پتھردل قانون کے تحت جے این یو کے دس طلبہ پر غداری کیس دائر کیا گیا ہے ۔ اگر مجاز عدالت میں پولیس کا چارج شیٹ دُرست ثابت ہوا تو طلبہ کی سزا عمر قید ہوسکتی ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ عدالت کا آخری فتویٰ کیا ہو ۔
آج کل کی دنیامیں ایسے کھٹور قانون قریب قریب ساری مہذب دنیا میں ختم یا کالعدم ہو چکے ہیں۔ صدیوں  پہلے کے زمانے میں خاندانی بادشاہتیں اور بڑی بڑی سلطنتیں ہو اکر تی تھیں جن کی باگ ڈور خلق خدا کے ہاتھ میں نہیں بلکہ عوام پر مسلط شہنشاہوں اور راجوں مہاراجاؤں کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ جوبات بادشاہ منہ سے نکالتے تھے وہ بے چون وچراقانون بنتا تھا ۔ وہ زمانہ تو گزر گیا اور اب انسانی دنیا میں نئے نئے ملک اور دیش بن گئے ہیں ۔ بالفاظ دیگر ملکوں اور دیسوں کی تخلیق سے انسان نے خود ہی اپنے ارد گردد یواریں کھڑی کیں ، لکیریں کھینچ لیں، فولادی جنگلے بنائے جن میں بالآخر وہ خود ہی قیدی بن کررہ گیا۔بندہ اپنی بنائی ہوئی ان دیواروںیا صحیح تر لفظوں میںاپنے قیدخانوں کی حفاظت کرنے پر مجبور ہوا۔ یوں ان زندان خا نوں کے آر پار دوطرفہ محافظ کھڑے ہو گئے جن کو نفرتوں اور عداوتوں کی غذا ئیں دے دے کر زندہ رکھا گیا ۔ سنگینوں کے سائے میںاس حفاظتی بندوبست کے اخراجات پورا کر نے کے لئے بھوکھے لوگوں کے پیٹ پر لات مار کر ، انہیں اسکول اور شفاخانے کی سہولیات سے محروم رکھ کر مہنگے ہتھیار خریدے گئے تاکہ آر پار کے محافظین ایک دوسرے کو مار کر ’’قابل فخر شہادتیں‘‘ حاصل کرتے رہیں یا ’’فتح ‘‘ پاکر غازی کہلاتے رہیں۔ ا س انوکھے کام کو دیش بھگتی جتلانے کے لئے سرحدوں کی تعریف میں لوگوں کو جوشیلے گیتوں کی حشیش پلائی جاتی رہی اور مر نے مارنے کے جذبوں کا بھجن گوائے گئے ۔اب دنیا میں کئی ایک جگہ تو یہ آتشیں سرحدیں لکیریں دیواریں خوف ناک اور خونخوار بنا ئی جا رہی ہیں لیکن کئی ایک جگہ یہ کچی ہوتی جا رہی ہیں بلکہ نام نہاد بن کر رگھی گئی ہیں تاکہ پنچھیوں کی طرح انسانوں کی اڑان بے قید رہے، آر پار آنا جانا اتنا آسان اور معمول کی بات بن ہو کہ لوگوں کو اندازہ ہی نہ لگے کہ یہاں سرحد کہاں سے شروع اور کہاں تک ختم ہوتی ہے۔ اسی لئے آج یورپ کے 22؍ ملکوں میں سرحدوں کی حفاظت کے جوشیلے گیت نہیں ہیں،جاںباز سپاہیوں کی قربانیوںکے گیت نہیں ہیں ،سنیما گھروں اور سکولوں میں قومی ترانوں کا رواج نہیں ،ان ترانوں کو لوگ صرف کھیل کے میدانوں میں ہی سنتے ہیں۔ان ملکوں کے شہریوں میں غداری کا خوف ہے نہ حب الوطنی کا مصنوعی گلیمر ہے، یہ لوگ ان لفظوں تک کوبھی بھولتے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس ایک ہی چیز ہے وہ ہے محبت ، اخوت اور خوش حالی، اس لئے ان کے یہاں اب قوم پرستی کوگناہ کے ساتھ مشابہت دی جاتی ہے۔
  دنیا کی متمدن قوموں میں یہ مبارک رجحان بڑی تیزی سے ترقی کے زینے طے کر رہاہے اور ایک دن ساری دنیا کو اپنی آغوش میں لے کر ہی ر ہے گا اور جب یہ منزل پائی جائے تو پھر کیا رہے گا حب الوطنی اور دیش بھگتی کی اصطلاحوں میں؟ کیا بچے گا ملک سے غداری اور دیش دروہ کے الزامات میں؟ اسی ٹھوس حقیقت کے پیش نظر  جے این یو معاملے میں کانگریس کے ممتاز لیڈر اور جانے مانے وکیل کپل سبل نے کہا کہ دیش دروہ کا فرسودہ قانون بدلتے ہوئے دور میں غیر مقبول ہورہاہے ،لہٰذا اس کو ردّ کیا جانا چاہیے ۔ دوسری طرف فاشزم کے سدھائے ہوئے سیاسی گھوڑے قوم پرستی کو ہی اپنی سیاسی دوڑ کا لکش بناتے ہیں۔اس کی تازہ مثال پارلیمینٹ میں شہریت کا بل پاس ہونے کے بعد ممبئی میں وزیراعظم نریندر مودی کی تقریر ہے۔ اپنے روایتی تیکھے انداز میں انہوں نے بولا: ’’آج ایک بل پاس کیا ہے کہ ہمارے ہندو بھائی جو بنگلہ دیش، افغانستان یا پاکستان سے یہاں شرن لینے آتے ہیں، ایسے لوگ جو اس دیش کی مٹی کو پریم کرتے ہیں، اس کی پوجا کرتے ہیں، بھارت ماتا کی جے بولنے والے، وندے ے ماترم گنگنانے والے باقاعدہ طور دیش کے ناگرک( سٹیزن ) بن سکتے ہیں‘‘۔ ان لفظوں میں قوم پرستی، دیش بھگتی اور ہندوتو کامعجونِ مرکب پیش کیا گیا ہے۔
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ پر الزام ہے کہ انہوں نے ’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے، افضل گورو کی پھانسی کی مخالفت کی اور اُن کو شہید تک کہا گیا۔ ایک یہ خبر بھی آئی کہ بھاجپا کے ہی ایک کارکن نے یہ نعرے لگائے تھے، لیکن پھر بھی ایک سوال ہے کہ کیا اس ملک میں پاکستان یا کسی اور ملک کی زندہ باد کے نعرے لگانے کی ممانعت کا کوئی قانون ہے؟ ہاں اگر کسی نے ایسے نعرے اشتعال پیدا کر نے اور کسی کے جذبات مجروح کر نے کی نیت سے  لگائے تو اُس کی نکتہ چینی یا سرزنش ہو سکتی ہے، اس سے بحث ومباحثہ کرکے قائل کیا جا سکتا ہے کہ اس نعرہ بازی کا موقع محل نہیں لیکن محض ا س بنیاد پر کسی فوجداری مقدمہ کا تو کوئی تُک نہیں بنتا۔ ایسے نعرے غلط ہو سکتے ہیں مگر یہ جرم نہیں کہلاسکتے۔ دنیا گواہ ہے کہ افضل گورو کی پھانسی کی مخالفت اور مذمت میں اس ملک میں کئی شخصیتوں نے بیان جاری کئے اور کئی تنظیموں نے بھی اس کی پُشٹی نہ کی ۔ راقم الحروف خود بھی پنجاب جمہوری مورچہ کے پرچم تلے لدھیانہ کی سڑکوں پر اس پھا نسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں شامل تھا اور اس بارے میںمضامین بھی پنجابی اور اردو میں تحریر کئے۔ا فضل گورو کی پھانسی کی مخالفت اس بات پر کی گئی کہ جب دنیا کے دو تہائی ملکوں نے موت کی سزا ختم کی ہوئی ہے تو ہندوستان ایساکیوں نہیں کرتا جب کہ ملک خود کو اَہنسا کا علمبردار گردانتا ہے۔ UNO نے بھی سب ملکوں سے اپیل کی ہے کہ سزائے موت انسانی تہذیب کے موجودہ معیاروں کے بر عکس ہے۔اس پھانسی کی مخالفت اس پہلو پر بھی ہوئی کہ اُس وقت کانگریس حکومت نے یہ کام محض بھاجپا سے اس کا سیاسی ایجنڈا چھین لینے کی نیت سے تمام اصولوں کو روند کرکے جلدبازی میں کیا۔جہا ںتک گورو کو شہید کہنے کا سوال ہے، یہ معاملہ بھی فوجداری جرم نہیں بلکہ اظہار خیال کا حق ہے۔ کچھ لوگ بھگت سنگھ کو شہیدمانتے ہیں اور کچھ کا کہنا ہے کہ وہ شہید ہی نہیں تھا ، اپنا اپنا خیال ۔ ان دو متضاد خیالوںکے حامیوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ ملک میں کچھ لوگ 31 ؍اکتوبر کو اندراگاندھی کا ’’یومِ شہادت‘‘ مناتے ہیں اور کچھ لوگ اسی روز اندراجی کے قاتل کو ہیرومانتے ہیں ۔ ا س میں آپ کر کیا کر سکتے ہیں۔ فوج کے سابق سربراہ جنرل ویدیا کے قاتلوں کی پھانسی والے دن اُن کی برسی پر بھوگ ہوتے ہیں جن میں اکثر اکالی پارٹی کے لیڈر بھی شامل ہوتے ہیں جن سے بھاجپا کا سیاسی تعاون واشتراک ہے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھ 16؍ لوگوں کو قتل کرنے والے کو عدالت نے افضل گورو سے بہت پہلے پھانسی کی سزا سنائی ۔اکالی دَل کے سرابرہ نے اس کو جیل میں جا کر عزت کا سروپا دیا اور’ ’زندہ شہید‘ ‘کے خطاب سے نوازا۔ اس بارے میںبھاجپا نے کبھی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی دیش دروہ کی بات کی ۔راقم نہیں چاہتا کہ اس بندے کو پھانسی ملے یا کسی اورکو صلیب دی جائے ۔ بھاجپا کے سامنے یہ سوال ضرور ہے کہ ان کے لئے دیش دروہ کے معانی کیا ہیں اور آتنک واد جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟ الغرض یونیورسٹی کے مذکورہ طلبہ کے خلاف مقدمہ ٔ غداری کا کیا بنتا ہے،ا بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ کیس فوجداری ہے نہ قانون شکنی کا  بلکہ یہ سیاست کا کرشمہ ہے ۔ آج کے دور میں حب الوطنی کیا ہے، وطن کے ساتھ غداری کیا ہے اورملک یا وطن کا تصور کیا ہے،اس کیس کے پس منظر میں یہ اہم موضوعات خود بخود دانش وروں اور تجزیہ کاروں کے سامنے آئے ہیں۔ ان نکات پر بحث کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔
رابطہ 98783 75903