جنوبی افریقہ کے سائنسدانوں کی جانب سے جاری تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم بیماری کے خلاف جسم میں پیدا ہونے والی مدافعت کے خلاف کسی حد تک حملہ آور ہوسکتی ہے۔درحقیقت محققین نے جنوبی افریقہ میں ایسے افراد کی تعداد میں اضافے کو دیکھا ہے جو دوسری یا اس سے زیادہ بار کووڈ 19 سے متاثر ہوئے ہیں۔یہ ایک ابتدائی تجزیہ ہے اور حتمی نہیں، مگر اومیکرون کے اسپائیک پروٹین میں ہونے والی میوٹیشنز کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات سے مطابقت رکھتا ہے۔
ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ ویکسینز سے کووڈ 19 سے ملنے والے تحفظ کے حوالے سے یہ ڈیٹا کس حد تک کارآمد ہے۔
جنوبی افریقہ نے ہی کورونا کی اس نئی قسم کو سب سے پہلے رپورٹ کیا تھا اور دنیا بھر کے ماہرین اس کے حقیقی خطرے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔اب اومیکرون کے حوالے سے پہلی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے مطابق جو افراد ماضی میں کووڈ کا سامنا کرچکے ہیں، ان میں پیدا ہونے والی مدافعت ممکنہ طور پر اومیکرون سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں۔واضح رہے کہ اومیکرون کے کیسز اب تک 30 سے زیادہ ممالک میں سامنے آچکے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین نے جنوبی افریقہ میں کووڈ ری انفیکشن کے لگ بھگ 36 ہزار مشتبہ کیسز کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی تاکہ دیکھا جاسکے کہ وبا کے دوران دوبارہ بیمار ہونے کی شرح میں کس حد تک تبدیلیاں آئی ہیں۔نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ سے دوبارہ متاثر ہونے کی شرح میں بیٹا یا ڈیلٹا کی لہروں کے دوران کوئی تبدیلی نہیں آئی مگر اس بار جنوبی افریقہ میں ری انفیکشن کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔محققین نے تمام مریضوں کو ٹیسٹ کرکے اومیکرون سے متاثر ہونے کی تصدیق تو نہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ بیماری کے وقت سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ نئی قسم ہی اس کی وجہ ہے۔محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اومیکرون میں کم از کم قدرتی بیماری کا سامنا رکنے والے افراد کو بیمار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔مگر یہ معمے کا ایک حصہ ہے اور ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعت کے خلاف اس نئی قسم کس حد تک خطرناک ہے اور مدافعت میں کس حد تک کمی دوبارہ بیماری کا باعث بنتی ہے۔وائرس پر حملہ آور ہونے والی اینٹی باڈیز کے بارے میں لیبارٹری تحقیقی رپورٹس کے نتائج آئندہ ہفتے سے سامنے آنے کا امکان ہے۔
جنوبی افریقہ میں ابھی صرف 24 فیصد افراد کی ویکسینیشن مکمل ہوئی ہے اور محققین کا کہنا ہے کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا ان ممالک کو بھی ہوسکتا ہے جہاں ویکسینیشن کی شرح کم اور قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت کی شرح زیادہ ہے۔محققین نے زور دیا کہ ابھی ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ اومیکرون ویکسین سے بننے والی مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے کیونکہ ابھی اس حوالے سے ڈیٹا موجود نہیں۔اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔اس سے قبل 2 دسمبر کو نیشنل انسٹیٹوٹ فار کمیونیکیبل ڈیزیز (این آئی سی ڈی) کی ماہر این وون گوتھبرگ نے بتایا کہ ہمارا ماننا ہے کہ سابقہ بیماری سے اومیکرون سے تحفظ نہیں ملتا۔کورونا کی نئی قسم کے حوالے سے ابتدائی تحقیق کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اومیکرون کے باعث لوگوں میں دوسری بار کووڈ کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھ رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے افریقہ میں حکام کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران این وون نے بتایا کہ ہمارا ماننا ہے کہ کیسز کی تعداد میں ملک کے تمام صوبوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہوگا مگر ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ ویکسینز سے بیماری کی سنگین شدت سے اب بھی تحفظ ملے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ویکسینز سے ہمیشہ بیماری کی زیادہ شدت، ہسپتال میں داخلے اور موت کے خطرے سے تحفط ملتا ہے۔کورونا کی نئی قسم اومیکرون کے کیسز روزانہ نئے ممالک میں سامنے آرہے ہیں اور اسے زیادہ متعدی سمجھ کر سفری پابندیوں کو بھی سخت کیا جارہا ہے۔ابھی یہ تو واضح نہیں کہ کورونا کی یہ نئی قسم کتنی زیادہ متعدی ہے مگر جنوبی افریقہ کے نیشنل انسٹیٹوٹ فار کمیونیکیبل ڈیزیز نے اس کے پھیلاؤ کی شرح کا ایک ابتدائی جائزہ پیش کیا ہے۔جنوبی افریقہ وہ ملک ہے جس نے اومیکرون کو سب سے پہلے رپورٹ کیا تھا اور جنوبی افریقی ادارے کے مطابق یہ نئی قسم ملک کے 9 میں سے 5 صوبوں میں دریافت ہوچکی ہے۔
ادارے کے مطابق نومبر میں وائرس جینومز سیکونس کے 74 فیصد نمونوں میں اومیکرون کو دریافت کیا گیا۔ادارے نے مزید بتایا کہ یکم دسمبر 2021 کو جنوبی افریقہ میں روزانہ رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 8561 تھی جو گزشتہ روز سے دگنا زیادہ ہے۔مجموعی ٹیسٹوں پر مثبت ٹیسٹوں کی شرح ایک دن پہلے 10.2 فیصد تھی تو یکم دسمبر کو وہ 16.5 فیصد تک پہنچ گئی۔مگر ڈیٹا میں یہ بھی بتایا گیا کہ اموات اور ہسپتال میں شرح میں کوئی نمایاں تبدیلی دریافت نہیں ہوئی۔
دنیا بھر کے طبی اداروں کے ماہرین نے کہا ہے کہ توقع ہے کہ اومیکرون اور اس کے پھیلاؤ اور شدت کے بارے میں چند دنوں میں زیادہ بہتر معلومات سامنے آجائے گی۔
یکم دسمبر کو گھانا، نائیجریا، سعودی عرب اور جنوبی کوریا میں اومیکرون کے اولین کیسز ریکارڈ ہوئے اور اب تک یہ قسم 24 ممالک میں دریافت ہوچکی ہے۔
میڈیا بریفننگ کے دوران ڈبلیو ایچ او کی ماہر ماریہ واک کرکوف نے بتایا کہ ایک ممکنہ منظرنامہ تو یہ ہے کہ اومیکرون ڈیلٹا سے زیادہ متعدی ہوسکتی ہے مگر ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ نئی قسم لوگوں کو زیادہ بیمار کرسکتی ہے یا نہیں۔
عالمی ادارے نے ایک بار پھر انتباہ کیا کہ ویکسینیشن اور ٹیسٹنگ کی کم شرح کورونا وائرس کی نئی اقسام بننے کے لیے زرخیر زمین کا کام کررہی ہے۔
درجنوں ممالک نے اس نئی قسم کے بعد سفری پابندیوں کو سخت کیا ہے جبکہ یکم دسمبر کو امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے کہا کہ اب امریکی سرزمین پر آنے والے تمام مسافروں کو نیگیٹو کووڈ ٹیسٹ پیش کرنا ہوگا جو سفر سے ایک دن پہلے ہونا ضروری ہے۔
اب تک 56 ممالک نے اومیکرون کی روک تھام کے لیے سفری پابندیوں کا نفاذ کیا ہے حالانکہ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کی پابندیاں بدترین ناانصافی ہیں۔ماریہ وان نے بتایا کہ افریقہ کے جنوبی حصے کے ممالک پر پابندیوں کے نفاذ سے طبی ماہرین تک اومیکرون کے نمونوں کی ترسیل میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
مگر یکم دسمبر کو ایک نئی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ نائیجریا میں ایک تجزیے میں اومیکرون کو اکتوبر 2021 میں دریافت کیا گیا، جس سے یہ خدشات بڑھ جاتے ہیں کہ یہ نئی قسم منظرعام پر آنے سے ہفتوں قبل گردش کررہی تھی۔نائیجرین طبی حکام نے بتایا کہ درحقیقت اکتوبر کے نمونوں میں اس نئی قسم کی شناخت ڈیلٹا کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے جینیاتی سیکونس کے دوران ہوئی۔