کورونا وائرس کی دوسری لہر نے پورے ملک میں ہا ہا کار مچارکھی ہے۔لوگ عملی طور ایڑیاں رگڑھ رگڑھ کر جان دے رہے ہیں اور طبی ماہرین و معالج ہاتھ ملتے نظر آرہے ہیں۔ارباب اقتدار کو جب الیکشن سیاست سے ذرا فراغت مل کرکورونا پھیلائو کی سنگینی کا احساس ہوا تو تب تک بہت دیر ہوگئی تھی۔
ملک کے ایک معروف بلکہ صف اول کے پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر جلیل پارکر کے مطابق’’ہمارا ہیلتھ کئیر سسٹم کولیپس ہوگیا ہے، ہم نے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔ جب ہمارا بنیادی ڈھانچہ ہی مریضوں کیلئے کافی نہیں،جب بیڈ نہیں ہیں یا آکسیجن نہیں ہے ، توآخر ڈاکٹر کیا کرسکتے ہیں؟‘‘۔ڈاکٹر پارکر گذشتہ برس خود بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور انہوں نے آئی سی یو میں کافی وقت گذارا۔لیکن اس سال وہ کورونا کی دوسری لہر کے متاثر ہ افراد کی جانیں بچانے میں لگے ہیں۔
دلی کے معروف گنگا رام اسپتال سمیت سبھی طبی اداروں میں آکسیجن کی کمی کیلئے ایس او ایس جاری ہورہے ہیں یہاں تک کہ آکسیجن کی کمی کے پیش نظر دلی کے معتبر طبی ادارہ ایمز کواپنا ایمرجنسی شعبہ ہی بند کرنا پڑا۔بھارت میں کورونا قہر کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں روزانہ تین لاکھ سے زیادہ کیس ظاہر ہورہے ہیں۔یعنی دنیا کے کسی بھی ملک میں روزانہ بنیادوں پراس قدر کورونا کیس سامنے نہیں آئے ہیں۔یہ تو سرکاری اعداد و شمار ہیں جن کے بارے میں آزاد ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ حقائق سے کوسوں دور ہیں۔
حیرانگی ہوتی ہے کہ چین ،جہاں سے یہ مہلک وائرس بظاہر شروع ہوکر پوری دنیا کے اندر پھیل گیا، میں فی الوقت محض تین سو کورونا وائرس کے متحرک کیس ہیں۔لیکن بھارت، جس کو وائرس کی دوسری لہر کا سامنا کرنے کی تیاری کیلئے کافی وقت میسر آیا، میں اس وائرس نے اس قدر تباہی مچادی کہ مریض کئی کئی دنوںسے اسپتالوں میں بیڈملنے کے منتظر ہیں اور لاشوں کو ’’ٹھکانے لگانے‘‘ کیلئے بھی باری کا انتظارکرنا پڑ رہا ہے اور عام لوگوں کو کو شمشان گھاٹوں میں کچھ وقت کیلئے تھوڑی سی جگہ اور ضرورت کا تھوڑا سامان حاصل کرنے کیلئے نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک طرف پورے ملک میں مہلک وبا نے ہا ہا کار مچارکھی تھی اور دوسری طرف گنگا میں مقدس اشنان کیلئے لاکھوں عقیدتمندوں کو سرکاری چھتر چھایا میں جمع ہونے کی ترغیب دی جارہی تھی۔کمبھ میلے کے نام سے مشہور یہ ہندو تہوار اُتراکھنڈ کے ہریدوار میں کئی ہفتوں تک منایا جاتا ہے۔اس سال یہ میلہ11مارچ کو اُس وقت شروع ہوا جب ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہوگئی تھی۔ اس کے آغاز میں ہی سرکاری سطح پر ایسے اشتہارات جاری کئے گئے جن میں عقیدتمندوں کو اس میلے میں ’’بھاری شرکت‘‘ کیلئے اکسایا گیا اور انہیں یقین دلایا گیا کہ ’’وہ محفوظ ہیں‘‘۔
اُتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ نے20مارچ کو اعلان کرتے ہوئے کہا’’ کسی کو بھی کورونا وائرس کی آڑ میں روکا نہیں جائے گا،ہمیں یقین ہے کہ بھگوان پر بھروسہ وائرس پر بھاری پڑے گا‘‘۔بعد ازاں جب ملک کووائرس نے پوری طرح اپلنی لپیٹ میں لے لیااور اطلاعات کے مطابق کمبھ میلے میں شامل ہونے والے ہزروں افراد کے ٹیسٹ بھی مثبت ظاہر ہوئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپریل کے وسط میں ٹویٹ کے ذریعے کمبھ میلے کو ’’علامتی‘‘ رکھنے کی اپیل کی۔
معروف صحافی برکھا دت نے ایک ٹیلی ویژن چینل پر کورونا سے پیدا صورتحال کو دیکھتے ہوئے بتایا کہ ملک ادارتی سطح پر کولیپس ہوا ہے اور حکومت یا انتظامیہ نام کی کوئی بھی چیز زمینی سطح پر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔برکھا نے ان خیالات کا اظہار ایک اسپتال کے باہر کیا جہاں وہ ایک قریبی رشتہ دار کیلئے بیڈ حاصل کرنے کیلئے سرگرداں تھی۔ برکھا نے صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے کہا’’میرے پاس پیسہ بھی ہے اور مجھے جاننے والے بھی بہت ہیں، مگر اس کے باوجود میں پریشان ہوں، اندازہ کیجئے عام لوگ کس صورتحال کا سامنا کررہے ہونگے‘‘۔
عینی شاہدین ملک کے اسپتالوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ مریضوں کی بھر مار اور اُن کی قابل رحم حالت کو دیکھتے ہوئے اسپتالوں کے صفائی کرمچاری اس قدر خوف کا شکار ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ طبی مراکز کے باتھ روموں کی معقول صفائی نہیں ہوپارہی ہے۔طبی ونیم طبی عملہ کئی کئی دنوں تک ڈیوٹی دے رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ جسمانی ونفسیاتی طور شل ہوگئے ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ ان میں سے بعض کے عزیز و اقارب بھی کورونا میں مبتلاء ہیں،ستم بالائے ستم یہ کہ وہ اُن کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے ہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ڈاکٹر اور نرسوں کی قابل ذکر تعداد بھی کورونا مریضوں میں رہتے رہتے وائرس میں مبتلاء ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اسپتالوں کے اندر اب مریضوں اور معالجوں کا فرق بھی مٹ گیا ہے۔
کورونا کی دوسری لہر کو اسپتالوں کے اندر طبی آکسیجن کی کمی نے مزید مہلک بنایا ہے۔ایک میڈیاسروے کے مطابق حکومت ہندوستان نے گذشتہ سال کے اوائل میں کورونا وائرس ظاہر ہونے کے بعد ماہ اکتوبر میں150 ضلع اسپتالوں کے اندر آکسیجن جنریشن سسٹم نصب کرنے کیلئے ٹینڈر طلب کئے۔یعنی حکومت نے کورونا ظاہر ہونے کے بعد پورے آٹھ ماہ ضائع کئے۔تب سے بھی چھ ماہ کا عرصہ گذر گیا اور ان میں سے زیادہ جنریشن سسٹم کام نہیں کررہے ہیں اور اس وقت حال یہ ہے کہ کم و بیش سبھی ضلعی اسپتالوں کے اندر آکسیجن کی کمی کے ایس او ایس جاری ہورہے ہیں۔
جموں کشمیر کیلئے عملی اقدامات کا موقع
مرکزی زیر انتظام جموں کشمیر کیلئے اس لئے خوش قسمتی ہے کہ ابھی یہاں اُس طرح کی خراب صورتحال پیدا نہیں ہوئی جو باقی ماندہ خطوں میں پائی جارہی ہے ۔چونکہ کورونا کیسوں میں لگاتار اضافہ درج ہورہا ہے، اس لئے یہی وقت ہے کہ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے ٹھوس اقدامات کئے جائیں بصورت دیگر حالات قابو سے باہر ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔یہاں کی انتظامیہ کیلئے اس طرح کے اقدامات کرنے میں اس لئے بھی آسانیاں ہیں کیونکہ خطہ لینڈ لاکڑ ہے اور جواہر ٹنل اور سرینگر ایئر پورٹ پر مستعدی کا مظاہرہ کرکے وائرس کو وادی کے اندر داخل ہونے سے روکا جاسکتا ہے اور اسی طرح لکھنپور اور جموں ایئر پورٹ پر عملی اقدامات سے صوبہ جموں میں بھی وائرس کے داخلے پر روک لگائی جاسکتی ہے۔ بعد ازاں وادی کشمیر اور صوبہ جموں کے اندر محدود پابندیوں کے ساتھ ماس ٹیسٹنگ کی طرف توجہ مرکوز کی جائے تو جموں کشمیر میں وائرس کی ہلاکت خیزی کوزائل کیا جاسکتا ہے۔
حکومت جموں کشمیر کے سامنے ملک کی صورتحال ہے جہاں کورونا مریض طبی آکسیجن کیلئے ترس رہے ہیں۔اس لئے یہی موقع ہے کہ خطے کے دونوں صوبوں کے اندر میں وا مقدر میں طبی آکسیجن زخیرہ کی جائے ۔وینٹی لیٹر وں کا قبل از وقت انتظام بھی ضروری ہے۔ہر ضلع اور تحصیل سطح پر کورونا مریضوں کیلئے عمارات مخصوص کی جائیں اور ان میں ضروری انتظامات بہم رکھنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ان جیسے عملی اور ٹھوس اقدامات سے کورونا کی ہلاکت خیزی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ابھی بھی وادی کشمیر کے اندر ملک کی کئی ریاستوں کے سیاح گھوم پھر رہے ہیں۔اس طرح سیاحت کے نام پر یہاں کے باشندوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل بھی سال کے اوائل میں باغ گل لالہ کی سیاحت کو لیکر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے ماہرین کے مطابق لوگوں کو کافی بھگتنا پڑا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انتظامیہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کرے تو وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔ہاں،عام لوگوںپر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اور اپنے اپنوں کی زندگیوں سے کھلواڑ نہ کریں۔ کمائی تو بعد میں بھی ہوسکتی ہے، مجبوری کی حالت ہے ،اس لئے عبادات گھروں میں بھی کی جاسکتی ہیں، سماجی تقریبات کو ملتوی بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔لوگوں کو یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ دہلی کا صحت انفراسٹکچر یہاں سے کہیں زیادہ بہتر ہے لیکن جب وائرس کو پھیلنے سے نہیں روکا گیا تو ہا ہا کار مچ گئی۔وائرس کے متاثرین کی تعداد پر قابو پانے سے بحرانی صورتحال کومحدود کیا جاسکتا ہے ۔خدا نہ کرے کہ یہاں کورونا مریضوں کی تعداد قابو سے باہر ہوئی تو ہمارے یہاں کا نظام صحت تو خود بھی آکسیجن پر ہے، مریضوں کے رش کو برداشت نہیں کرسکے گا اور نتیجے کے طور بہت زیادہ جانی نقصان ہوسکتا ہے۔