کوروناانفیکشن کے معاملات میں نیا اضافہ مسلسل تشویش کا باعث بنا ہوا ہے ۔چندریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں کورونا وائرس متاثرین کی تعداد میں اضافہ کے بعد بدھ کو مرکزی سرکار نے تمام ریاستوں اورمرکزی زیر انتظام علاقوں میں کورونا وائرس کو قابومیں کرنے کیلئے ایک ماہ تک دوبارہ لوگوں کی نقل و حرکت محدود اور بھیڑ بھاڑ کو قابو کرنے اور وائرس کی روکتھام کیلئے نئے رہنما خطوط جاری کئے ہیں۔ نئے رہنما خطوط کے تحت ریاستوں اور یوٹیز کوریڈزونوں کے دائرے میں آنے والے علاقوں میں رات کا کرفیو نافذ کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن ریڈزون کے باہر آنے والے علاقوں میں پابندیاں عائد کرنے سے قبل مرکزی سرکار سے مشورہ کرنا ہوگا۔ مرکزی سرکار نے اپنے تازہ رہنما خطوط میں کہا ہے کہ ریاستوں اور یوٹیز کو 72گھنٹوں کے دوران کورونا متاثرین کے رابطوں کا پتہ لگانا ہوگا جبکہ ان کی قرنطین سہولیات، علاج و معالجہ فراہم کرنے کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ پر عائد ہوگی۔ رہنما خطوط میں بتایا گیا ہے کہ یکم دسمبر سے 31دسمبر تک نافذ رہنے والے معیاری ضابطہ اخلاق اور دیگر قواعد و ضوابط، بھیڑ بھاڑ کو قابو کرنے کی ذمہ داری مقامی افسران کی ہوگی جنہیں ہر صورت میں جواب دہ بنایا جائے گا۔
صرف بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میںکورونا معاملات میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے اور حکومتیں لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لئے تازہ اقدامات پر غور کر رہی ہیں تاکہ اس وبائی مرض کے پھیلائو کو کم سے کم کیا جاسکے۔ پہلے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد اب اسے 8 ماہ ہوئے ہیں۔ پھر ہم نے کئی مرحلوں پر اس لاک ڈاؤن کا تسلسل دیکھا۔ آخر کار پابندیوںکو آہستہ آہستہ نرم کردیا گیا ، تاکہ معمول کی سرگرمیاں بحال ہوں۔ یہ بنیادی طور پر معیشت کو مکمل خاتمے سے بچانے کے لئے کیا گیا تھا۔اس دوران حکومت نے جانچ سہولیات اور ہسپتالوں میں علاج معالجے کے بنیادی ڈھانچے کو بھی اپ گریڈ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ سب کام کرنے کے بعد یہ وائرس آسانی سے جانے سے صاف انکار کررہا ہے۔ اب ہمیں بتایاجارہاہے کہ تیسری لہر اور بھی زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور ہدایات پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہے۔ چونکہ اس انفیکشن کی ویکسین ابھی بھی دور کی بات ہے ،ایسے میں ہمارے پاس صرف دفاعی تحفظ اور حفاظتی ضوابط کی سختی سے پابندی ہے۔
اگرچہ بہت سے لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ویکسین کی تیاری کے آخری مرحلے میں ہیں ، لیکن جب تک یہ حقیقت کا روپ نہیں دھار لیتا،ہم احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتے اور اگر ویکسین کے بارے میںخوش خبری جلد ہی سامنے آجائے اور ہمارے پاس واقعی خوشی منانے کے لئے کچھ ہو ، توبھی اس ویکسین کو یہاں تک پہنچنے کے لئے وقت درکار ہوگا۔ تیسری دنیا میں بسنے والے عام آدمی کے لئے یہ واقعی دور کی بات ہے۔ ہمیں کچھ اور وقت تک تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہمیں خود کو ہر لحاظ سے اس کے لئے تیار کرنا ہوگا۔
حکومت کو اب ایسے فیصلے کرنے چاہئیںجن پر کافی سو چ بچار کیا گیا ہو۔ لاک ڈاؤن کے پہلے اعلانات کے برعکس اب ہمارے پاس معلومات ، ڈیٹا اور تجربے کا ایک وسیع خزانہ ہے، جس سے ہم استفادہ کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اس ضمن میں حکومت کی طرف سے لئے جانے والے کسی بھی فیصلہ کی بنیاد گزشتہ آٹھ ماہ کے تجربہ پر ہونی چاہئے
بلاشبہ ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور فیصلے لینا کوئی آسان کام نہیںہے۔ لیکن اس سب میں ایک نئے جوش کے ساتھ بنیادی حفاظت کے رہنما اصولوں، ماسک پہننے اورجسمانی فاصلوں کو برقرار رکھنے پر زور دیا جانا چاہئے کیونکہ بقول وزیراعظم نریندر مودی تیسری لہر کو خارج از امکان قرار نہیںدیا جاسکتا ہے اور اگر تیسری لہر اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو نتائج انتہائی بھیانک ہوسکتے ہیں جس کا انتباہ عالمی ادارہ صحت پہلے ہی دے چکا ہے۔ایسے میں ہم پر لازم ہے کہ جان بھی جہان بھی کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم جہاں اپنی معمول کی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں وہیں ہم احتیاطی تدابیر کو پس پشت بھی نہ ڈالیں بلکہ تمام ضروری احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کو بالکل اُسی طرح اپنامعمول بنا ئیں جس طرح روزمرہ کی دیگر سرگرمیوں کو ہم نے اپنا معمول بنا رکھا ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ وائرس آس پاس ہی ہے اور سردی کا موسم چونکہ ا سکے پھیلائو کیلئے موافق ہے تو ہمیں اس سے بچنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو ہماری یہ غلطی ہمیںکسی بڑی مصیبت میں ڈال سکتی ہے ۔