عصر حاضر میں معاشرتی فلاح وبہبود ایک عام اصطلاح ہے جس کا مطلب اجتماعی مسائل اور کوششوں کو اس طرح بروئے کار لانا ہے کہ کسی ایک انسان کی زندگی بنیادی ضرورتوں سے محروم نہ رہے۔ کوئی بے خانہ وبے خانماں نہ رہے اور کسی کو بلاوجہ علم وعرفان کی شمع سے محروم نہ رہنے دیا جائے۔خدمت خلق کا مروجہ تصور انیسویں صدی عیسوی کے بدلتے ہوئے حالات کی پیداوار ہے۔ یہی تصور آج کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں مختلف صورتوں میں اور مختلف ضابطوں کی صورت میں نظر آتا ہے بلکہ خدمت خلق کا تصور تعلیمی سطح پر ایک با قاعدہ سائنس (سوشل سائنس)کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔
جدید جمہوری ریاستیں اپنے لئے رفاہی اور فلاحی ریاست کا جو تصور پیش کرتی ہیں، ان میں نبی نوع انسان کی خدمت اور فاہِ عامہ کی سرگرمیوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ آج کی دنیا انسان سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتی ہے اور اس سلسلے میںلاتعدادفلاح و بہبود پروگرامات وضع کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سرمایہ داری کے نظام نے بھی رفاہی نظام کو اپنا نے کی کوششیں کیں، مگر ان کا یہ رفاہی نظام محدود طبقے تک محدودرہا۔ فلاحی تصور امراء تک ہی محدود رہا بلکہ انسانیت کے لئے اس قدر مہنگا ثابت ہوا کہ انسانیت سے اس کا فطری حق ’حق ملکیت‘ چھین لیا گیا۔ بہر حال رفاہی و فلاحی تصور کے دعویدارہمیں ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں۔ آج جہاںسماجی خدمات کا شعبہ دنیا بھر کے ممالک میں ایک اہم ریاستی ذمہ داری کے طور پر کام کر رہا ہے اور رفاہی نظام اور فاہی ادارے کام کر رہے ہیں وہیں بے کاری ،غربت، بے چینی، بدامنی اور اضطراب میں بھی اسی نسبت سے اضافہ ہوا ہے۔ اس صورت حال نے جہاںبے شمار معاشرتی، اقتصادی ، تہذیبی اور ثقافتی وتمدنی مسائل کو جنم دیا تھا وہیں اب عالمی وباء (کورونا وائرس)نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کے رکھ دیاہے ۔ یہ وباء اس قدر پھیل چکا ہے کہ نت نئے مسائل کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے اوردنیا کے غالب حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، چہار سو خوف و دہشت چھائی ہوئی ہے۔ سائنسی لحاظ سے عروج کو چھونے والی اقوام کو اس نے لرزہ براندام کردیا ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی بے بسی اور کمزوری کی حقیقت سرِ عام ظاہر ہورہی ہے۔ جس ملک میں اور جس شہر کو دیکھو، لاچاری کی درد بھری آہوں سے پکار رہا ہے کہ فضا میں یہ کیسا جنون ہے۔ وہ لوگ جو ہر بات کو سائنس کے ترازو میں تولتے تھے، آج ان کے چہروں پر لاچاری کی داستان عیاں ہے۔ ڈر اور خوف کا ماحول ہر انسان پر اس طرح طاری ہے کہ وہ اپنی پر چھائیوں سے بھی ڈرنے لگا ہے۔ مادی دنیا میں مست انسان سمجھ لیں کہ یہ مادی عروج، صنعتی انقلاب، برق رفتار رابطے سب اس وباء کے آگے بے بس ہیں۔انسان اس قیامت خیز منظر کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ،ہر شخص کواپنے سامنے موجود فرد مشکوک نظر آرہا ہے۔طبی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس وائرس پر قابو نہ پایا جاسکا تو عالمی برادری کو بہت سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس صورتحال میں اگر ہم اپنے گردو پیش پر نظر ڈالیں توآبادی کا ایک بڑا حصہ بنیادی سہولتوں سے محروم نظر آتا ہے۔ بڑے شہر وں میں جہاں ایک طرف فلک بوس عمارتیں دکھائی دیتی ہیںاور موجودہ حالات میں اپنے عیش و آرام میںہلکا سا وقفہ نہیں دینا چاہتے ہیں وہیںدوسری طرف غریبوں، یتیموں، بیوائوں،مساکین ،اور حاجت مندوں کی ایک بڑی تعدادآنکھیں پھیلائے ہوئے ہیں ۔ شہروں سے لے کر قصبوں اور دیہی علاقوں تک جہاں ایک طرف عیش و عشرت کے مظاہر ہیں وہیں دوسری طرف بے شمار انسان ایسے بھی ہیں جو روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، جنہیںنانِ شبینہ کیلئے روزانہ جدو جہد کرنی پڑتی ہے ،جنہیں پینے کیلئے صاف پانی میسّر نہیں ہے ،جنہیں کہیںعلاج و معالجہ کیلئے طبی مراکز دستیاب نہیں تو کہیں ہسپتالوں کے گراں بار مصارف برداشت کرپانا ممکن نہیں ہوتا ہے اور جن کے بچے اعلیٰ تعلیم تو کیا ابتدائی تعلیم بھی حاصل نہیں کرپاتے۔ بہت سے انسان اپنی معمول کی زندگی میں تو خود کفیل ہوتے ہیں لیکن ناگہانی قدرتی آفات مثلاً زلزلہ، سیلاب، آتشزدگی اور اب یہ عالمی وباء (کورونا وائرس) کا شکار ہوکر اپنے گھر بار اور اثاثہ جات سے محروم ہوکر دوسروں کی مدد اور تعاون کے محتاج ہورہے ہیں۔ان حالات میں بہت سے انسانوں کی خوشحال زندگی کے تارو پود بکھر جاتے ہیں، ان کا سکون و اطمینان غارت ہوجاتا ہے اور وہ مصائب اور الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایسے محروم اور پریشاں حال انسانوں کی مدد کرنا، ان کے کام آنا اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنا انسانی فطرت کا خاصّہ اور متمدّن سماج کا فرض ہے۔ حکومت کی طرف سے ان کاموں کیلئے بڑی بڑی رقوم خرچ کی جاتی ہیں، کمزور طبقات کی فلاح و بہبودکیلئے منصوبے اور اسکیمیں بنائی جاتی ہیں اور سرکاری و غیر سرکاری رضاکار تنظیموں کو ان اسکیموں کو مستحق افراد تک پہنچانے کی ذمہ داری دی جاتی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ مستحقین کا بڑا طبقہ ان مراعات اور سہولیات سے یکسر محروم رہتا ہے ۔ مختلف گھوٹالوں کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
ایسے حالات میں سماجی خدمت اورر فاہِ عامہ کی بدولت انسانیت کی فلاح کے لئے کوشش کرنا ہم پر لازم بن جاتا ہے۔اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے۔یہ اپنے ماننے والوں سے اس امر کا تقاضا کر تا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے۔ اسلام محض ایک اخلاقی ضابطہ اور چند اصولوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔ چونکہ افراد کے مابین تعاون، ہمدردی اور باہمی محبت وخیر خواہی کا جذبہ معاشرہ میں سیاسی استحکام، معاشرتی امن و سکون اور معاشی ترقی کے لئے ازحد ضروری ہوتا ہے۔ لٰہٰذا اسلام نے باہمی ہمدردی و تعاون اور خیرخواہی کو اعلیٰ انسانی اوصاف کا حصہ بنادیا ہے۔
اسلام کے معاشرتی بہبود ورفاہِ عامہ کے نظام اور اسلام کی روحانی اور اخلاقی اقدار میں گہرا تعلق ہے۔ اسلام کی یہ اقدار انسان کو ایثار، قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں۔ نتیجتاً وہ اپنے ضرورت مند بھائیوں کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے پر روحانی خوشی محسوس کرتا ہے۔
خدمت خلق کے لغوی معنی مخلوق کی خدمت کرنا ہے، جب کہ رضائے الہی کے حصول کے لئے جائز امور میں اللہ کی مخلوق کا تعاون کرنا خدمت خلق کہلاتاہے، خدمت خلق محبت الہی کا تقاضہ ،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی سرخ روئی کا ذریعہ ہے، صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں ہے بلکہ کسی کی کفالت کرنا ،کسی کو تعلیم دینا ،مفید مشورہ دینا ،کوئی ہنر سکھانا ،علمی سرپرستی کرنا ،تعلیمی و رفاہی ادارہ قائم کرنا ،کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔
ماہرین اخلاقیات نے اخلاقِ انسانی کی کئی اقسام بیان کی ہیں۔ اْن کی تحریروں کا بنیادی نکتہ فلاح انسانیت ہے۔ انسان کی خدمت اور عظمت تمام خدائی اور انسانی نظام ہائے فکر کی بنیاد ہے۔ یہ سیاسی اخلاقیات ہوں یا اقتصادی اخلاقیات، سماجی اخلاقیات ہوں یا مذہبی اخلاقیات ان تمام کا تعلق انسانی سماج کی بہتری سے ہے اسی لئے سماجی اخلاقیات کے ارد گرد تمام مکتبہ ہائے فکر محوِ گردش ہیں۔ جس معاشرے میں انسان کی عظمت کا تصور ناپید ہو وہ حیوانی معاشرہ ہے۔
انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اسلئے سماج سے ہٹ کرزندگی نہیں گذارسکتا، اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجو دہیں، مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے، اس لئے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کے لئے آپسی تعاون، ہمدردی ،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علم بردار ہے ،اسلئے اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو،سماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے ،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے،اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کرے۔
علامہ رازیؒ عبادت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ پوری عبادت کا خلاصہ صرف دوچیزیں ہیں ایک امر الٰہی کی تعظیم اور دوسرے خلق خداپر شفقت۔کمال یہ ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کے دائرہ کارکو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کو ضروری قرار دیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا وہیں تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ بھی قرار دیا، اس سے انسانیت کی تعمیر کے لئے آپسی ہمدردی ،باہمی تعاون اور بھائی چارے کی وسیع ترین بنیادیں فراہم ہوتی ہیں۔
بقول الطاف حسین حالی
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں