آہ و بکا، ماتم و گریہ کا ایک شور ہے جو دنیا کی چاروں دشائوں میں برپا ہے۔ موت کا ایسا تانڈو شاید ہی کسی کے وہم و گمان میں رہا ہوجو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ کہیں بوڑھے باپ کے کاندھوں پر جوان بیٹے کا جنازہ ہے تو کہیں بیٹیاں اپنی باپ کی ارتھی اٹھائے شمشان گھاٹ پر لائن میں کھڑی ہیں تاکہ نمبر آنے پر اپنے باپ کو چتا کے حوالے کر سکیں۔ شوہر اپنی بیوی کی لاش سائیکل میں لادے اس کی انتم سنسکار کے لئے سر گرداں ہے تو کہیں کوئی بیٹا اپنے ماں باپ کی زندگی بچانے کے لئے آکسیجن کی تلاش میں گلی گلی مارا مارا پھر رہا ہے۔ یہ کیا قیامت برپا ہوگئی ہے کہ ہر قدم پر یاتو جنازے سے سامنا ہورہا ہے یا جلتی چتائوں کی تپش سے۔ کیا یہ کوئی خدائی قہر ہے یا ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ یا کچھ اور ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر چہرے پر اداسی اور غم کی پرچھائیاں اتری ہوئی ہیں، کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے، ہائے یہ کیا ہورہا ہے، کیوں ہورہا ہے، آخرکب تک ایسا ہوتا رہے گا۔ زندگی اور موت کی یہ آنکھ مچولی کب تک چلے گی۔ یتیموں اور بیوائوں کے شور ماتم پر موت کا یہ رقص کب تک جاری رہے گا۔ اور کتنے انسانوں کی قربانی چاہئے اس وبا کو؟
مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک دنیا کا چپہ چپہ موذی وبا کی لپیٹ میں ہے ۔کورونا نے ترقی یافتہ دنیا کو اس کی خواہش اور اپنی گرفت میں رکھنے کے عمل کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس نے دنیا کو امریکہ اور یورپ کی غذائیت، صحت اور ترقی میں برتر ہونے کے دعوے کے خالی پن کو ظاہر کر دیا ہے۔کورونا اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی بھی وائرس غریب ممالک اور غریب لوگوں تک محدود نہیں رہتا ہے، بلکہ یہ سب کو یکساں طور پر تباہ کرنیکی طاقت رکھتا ہے۔اس نے سکھایا کہ ترقی کی بھی اپنی ایک حد ہوتی ہے۔کورونا نے ہمیں سکھایا بہت محفوظ سمجھے جانیوالے ممالک میں بھی انسان کی کوئی وقعت نہیں ہے، حفاظت کا کوئی جامع نظام نہیں ہے، اس نے سمجھایا کہ ہم احساس نہیں کر پا رہے لیکن ہمارا وجود خطرے میں ہے۔ کورونا نے بتایا کہ ایک فٹ بال کھلاڑی کو ماہانہ دس لاکھ یوروز دئے جاتے ہیں اور لوگ انہیں دیوتاؤں کی طرح پیار کرتے ہیں لیکن ایک بیالوجی کے ریسرچر کو محض 1800یوورزماہانہ ادا کئے جاتے ہیں۔ اب کرسٹیانو رونالڈو سے پوچھئے کہ کورونا وائرس کی دوا کیا ہے؟7 کروڑ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے ویراٹ کوہلی سے پوچھئے کورونا وائرس کی دوا کیا ہے؟۔
وبائیں دنیا کیلئے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔اس کی شروعات 430 سال قبل از مسیح ایتھنز میں طاعون سے ہوئی اور حال ہی میں سارس اور ایبولا جیسی خطرناک بیماری سے ہمارا سامنا ہورہا ہے۔زندگی میں درپیش ان لاحق خطرات کے باوجود انسان ثابت قدم رہا اور ان پر قابو بھی پایا گیا۔ان وبائوں نے زیادہ سے زیادہ ہمیں ڈرایا اور ہمیں تکلیف پہنچائی لیکن کسی وباء نے کبھی بھی پوری انسانیت کا صفایا نہیں کیا اور کورونا اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔لیکن ایک ایسے وقت پر جب ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم ہر شعبہ میں بہت آگے بڑھے ہیں یہاں تک جب ہمیں اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے ،انسان نے سوشل میڈیا سے نئی وسعتوں کی تلاش کا دعویٰ کیا اور کہا کہ 2004میں اسے پتہ چل گیا کہ 2020میں کورونا کی وباء تباہی وبربادی لائے گی تو ادراک کے باوجود اس کے تدارک کیلئے انسان کیوں نہ کچھ کر پایا لیکن پھر بھی کورونا نے امریکہ، یورپ چین اور بھارت جیسے ترقی یافتہ مماملک کو جو چیلنج دیا ہے وہ بحث گفتگو ہے۔ وائرس کچھ عرصے میں ختم ہو سکتا ہے انشاء اللہ لیکن یہ سوچنا غلط ہو گا کہ ہم نا قابل تسخیر ہیں۔سائنس دانوں کو مان لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔
کورونا نے ٹیکنالوجی کے حوالے سے کامرانیوں اور کامیابیوں کے نشے میں ڈوبی ہوئی دنیا کی انا کو خاک میں ملا دیا ہے۔معاشی انجن کو روک دیا ہے اور انسانی پریشانیوں میں ناقابل تلافی اضافہ کر دیا ہے۔ اپنے تمام تر اجتماعی وسائل، سائنس اور عقل و دانش کے باوجود، ہم نہیں جانتے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا، یہ کب تک برقرار رہ سکتا ہے، کتنی جانوں کے اتلاف کا باعث بنے گا، اس پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے، یا اس کا حتمی علاج اگر کوئی ہے، کیا ہو سکتا ہے۔ اس عالمی وبا سے پیدا ہونے والے بے یقینی کی صورتحال میں صرف ایک ہی چیز ہے جس کا ہم کچھ حد تک یقین کے ساتھ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں، کورونا وائرس، اور پوری دنیا میں اس کا اثر، لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دے گا، اورباوسیلہ اور بے وسیلہ لوگوں اور طبقات کے درمیان معاشی خلیج کو اتنا وسیع کر دے گا جس کا پاٹنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔یہ معاشی حق تلفی، اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی غربت ایک عالمی مسئلہ ہے‘ اور یہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کو متاثر کرے گا۔
پوری دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت میں اب کورونا کے خلاف ایک کامل جنگ شروع ہوگئی ہے۔ مرکز اور ریاست کی حکومتوں نے کسی بھی پارٹی سے قطع نظر ‘ کورونا کو شکست دینے کیلئے اپنی کمرکس لی ہے۔ ان حکومتوں سے بھی زیادہ ‘ بہت سے فرشتہ صفت لوگ نمودار ہوئے ہیں ‘ کوئی آکسیجن کا سلنڈر مفت دے رہے ہیں ‘ کچھ مریضوں کو مفت کھانا مہیا کررہے ہیں ‘ کچھ پلازما ڈونرز جمع کررہے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مریضوں کو ہسپتال بھیجن ے کا کام کررہے ہیں۔ ٹاٹا ‘ نوین جندل 'سونو سود‘ اڈانی اور بہت سے دوسرے چھوٹے صنعت کاروں نے اپنی فیکٹریوں کو بند کرنے اور آکسیجن بھیجنے کا انتظام کیا ہے۔ وہ یہ نیک کام رضاکارانہ طور پر انجام دے رہے ہیں۔مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان کے اقدام پر آکسیجن ٹرینیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ ہزاروں ٹن مائع آکسیجن کے ٹینکر ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں۔ لاکھوں ڈاکٹر ‘ نرسیں اور خدمت گزار اپنی جانوں پر کھیل کر زندگیاں بچا رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم ریلیف فنڈ سے 551 آکسیجن پلانٹ بھی لگائے جاچکے ہیں۔ آکسیجن لین دین اور نقل و حرکت بحال کرنے کیلئے تمام تر کوششیں کی جارہی ہیں۔ بہت سے ممالک دوائیں ۔
‘ ان کے خام مال ‘ آکسیجن آلات وغیرہ بھارت بھیج رہے ہیں ‘ لیکن بھارت میں بھی ایسی درندے ہیں جو آکسیجن ‘ ریمڈیسویر انجکشن ‘ دوائیں اور علاج کے بہانے مریضوں کی کھالیں کھینچ رہے ہیں۔ انہیں پولیس نے پکڑا ہے لیکن آج تک انسانیت کے ایسے کسی دشمن کو عبرت ناک سزا نہیں دی جاسکی۔ پتہ نہیں کیوں بھارتی حکومتوں اور عدالتوں کو اس معاملے میں مفلوج کیا گیا ہے؟ ہسپتالوں میں مریض دم توڑ رہے ہیں لیکن لوٹ مار سے ان کے کنبوں کے افراد زندہ رہ کربھی مر رہے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز تشویشناک خبریں اتنی دے رہے ہیں لیکن وہ ہمارے گھریلو کاڑھا‘ گلوئی اور نیم گولی اور برگدکے دودھ جیسے موثر اقدامات کو کیوں فروغ نہیں دیتے؟ کورونا کو شکست دینے کیلئے جو بھی نیا اور پرانا ‘ ملکی اور غیر ملکی ہتھیار کارآمد ہے ‘ اسے کھونا نہیں چاہیے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ڈبل میوٹینٹ کا کورونا وائرس آسمانی قہر بن کر ہندوستان پر ٹوٹ پڑا ہے۔ اموات کی مجموعی تعدادکابہت جلد ملین تک پہنچ جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیاجارہاہے۔ لیکن ان اموات کاسبب صرف کورونا وائرس کو قرار دینا اپنی ناکامی اور نااہلی چھپانے جیسا ہے۔ اب تک ہونے والی اموات کاکورونا سے کہیں زیادہ علاج نہ ملنا سبب ہے۔ بالخصوص اترپردیش اور بہار میں حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ مرنے والوں کی آخری رسوم بھی نہیں ادا ہورہی ہیں اور ان کی لاشوں کو جانوروں کی لاش کی طرح ندی میں پھینک دیا جا رہا ہے۔وبائی مرض میں مبتلا ہوئے ڈیڑھ برس سے زیادہ ہونے کو ہیں ‘ اس وقت ویکسین کی چند اقسام بھی مارکیٹ میں موجود ہیں مگر صورتحال یہ ہے کہ جہاں ان کے فائدے پر دو رائے ا نہیں وہاں یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ مذکورہ وبائی مرض اپنے آپ کوتبدیل کر کے نئی نئی اشکال اختیار کر رہا ہے لہٰذا جہاں نئے لوگ اب ایک بڑی تعداد میں اس کا شکار ہو رہے ہیں وہاں وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جو پہلے علاج سے اپنے اندر اینٹی باڈیز پیدا کر چکے تھے یا ویکسین لے چکے تھے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ کورونا نے اپنی شکل کو تبدیل کر لیا۔ البتہ مثبت بات یہ ہے کہ ویکسین لگنے کے بعد اگر مرض کا حملہ ہو جائے تو وہ شدید نہیں ہوتا لہٰذا ویکسین لگوانا اور ''ایس او پیز‘‘ یعنی پرہیز کرنا ضروری ہے؛ تاہم دنیا میں خوف کی یہ لہر بہرحال موجود ہے کہ کہیں کوئی ایسی نئی شکل سامنے نہ آ جائے کہ جس کا مقابلہ مشکل ترین ہو جائے یا کچھ عرصہ کے لیے نا ممکن ہو جائے اور یوں نیا علاج یا نئی ویکسین آنے تک انسانیت کا کافی نقصان ہو جائے۔
خدارا! حالات کو سمجھیں۔ زندگی اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے، اس کی حفاظت کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔ آپ کی ذرا سی غفلت نہ صرف آپ کے لئے خطرناک ہو سکتی ہے بلکہ آپ کے اپنوں کو بھی پریشان کر سکتی ہے۔ حکومت کیا کرتی ہے کیا نہیں کرتی ہے اس بحث میں الجھے بغیر آپ اپنے لئے اور اپنے اہل خانہ اور زیر دستوں کے لئے ایک لائحہ عمل وضع کیجئے، سماجی فاصلے کو یقینی بنائیے، ہر قسم کے اجتماعات میں شرکت سے احتراز کیجئے، گھروں میں جمے رہئے، جب تک وبا کا زور نہیں ٹوٹتا مصافحہ کی عادت سے باہر نکل آئیے۔ صرف شدید ضرورت پر گھر سے باہر نکلیئے اور ماسک ضرور استعمال کیجئے۔
اس وبا سے محفوظ ہونے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ویکسین۔ ویکسین کے تعلق سے جتنے بھی منفی پروپگنڈے ہو رہے ہیں وہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی پر مشتمل ہیں۔ اگر ویکسین دستیاب ہے تو فوراً لگوالیں۔ ویکسین آپ کی مدافعتی قوت میں اضافہ کر کے آپ کو اس وبا سے بچائے رکھی گی اور اگر آپ اس وبا کے لپیٹ میں آبھی گئے تو وہ اسے شدید ہونے نہیں دے گی۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس وبا سے ساری انسانیت کو نجات بخشے،پورے ملک میں اس کی جو شدت دیکھی جارہی ہے اس سے سبھوں کی حفاظت فرمائے، جو لوگ اس وبا کی لپیٹ میں آکرر اس کے پاس پہنچ چکے ہیں انہیں اپنے شایان شان جزا دے، جو اس وبا میں گرفتار ہیں انہیں جلد از جلد صحت کاملہ عطا کرے، اس وبا کی وجہ سے جو بچے یتیم ہوگئے جو عورتیں بیوہ ہوگئیں جن کے سروں سے کمانے والے اٹھ گئے ان کی زندگیوں میں آسانیاں فراہم ہونے کی سبیل پیدا کرے، جو لوگ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر خدمت میں لگے ہوئے ہیں ان کی زندگی اور خلوص میں برکت دے انہیں عافیت سے سرفراز کرے۔ آمین ثم آمین
پتہ۔بارہمولہ کشمیر
رابطہ۔6005293688