کورونا متاثرین کے حوالے سے مقامی اور ملکی سطح پر جو اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں،وہ پریشان کن ہی نہیں بلکہ نیندیں اچاٹ دینے والے ہیں۔بُدھ کے روز جموںوکشمیر میں 44افراد کورونا وائرس میں مبتلا ٔپائےگئے جو اب تک ایک دن میں سب سے زیادہ تعداد تھی ۔ اسی طرح کل جو مرکزی وزارت صحت کی جانب سے کورونا اعدادوشمار ظاہر کئے گئے ہیں،وہ بھی اطمینان بخش نہیں ہیں۔مذکورہ وزارت کی جانب سے ظاہر کئے گئے اعداد وشما ر کے مطابق ملک میں کورونا اموات کی تعداد بڑھ کر1783ہوگئی ہے جبکہ کورونا متاثرین کی تعداد تقریباً53ہزار تک پہنچ چکی ہے ۔وزارت کے مطابق جمعرات کو چوبیس گھنٹوں کے دوران تقریباً3600افراد ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہوئے ہیں۔
گوکہ مقامی اور ملکی سطح پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور صورتحال کنٹرول میں ہےلیکن اگر اعدادوشمار کا باریک بینی سے تجزیہ کیاجائے تو یقینی طور پر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نظر نہیں آرہاہے۔ملکی سطح پر روزانہ 4ہزار کے قریب نئے کورونا معاملات کا سامنے آنا پریشان کن ہے اور جو رجحان بنا ہوا ہے ،اس کے مطابق اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلائے گا کیونکہ ابتداء میںیہ تعداد سو سے کم اعداد سے شروع ہوکر پہلے کافی وقت تک سینکڑوں میں چلی ،پھر ہزار اور پندرہ سو کے درمیان رہی ،پھر دو ہزار سے کم کے درمیان کچھ وقت رہی لیکن پھر یہ اُچھلنے لگی اور اب تو بڑی بڑی چھلانگیں مارتے ہوئے تعداد4ہزار کے آس پاس ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آنے والے دنوںمیں مزید بڑھ سکتی ہے ۔اسی طرح اموات کا گراف بھی اطمینان بخش نہیںہے ۔تاحال قریب18سو اموات ہوچکی ہیںاور اب اموات کے گراف کو دیکھیں تو اس میں بھی یکایک اضافہ کا رجحان دیکھا جاسکتا ہے ۔پہلے پہل اموات نہ ہونے کے برابر تھیں اور پھر آہستہ آہستہ اموات کا سلسلہ بڑھنے لگا لیکن اب تو اموات کا گراف بھی جیسے چھلانگیں ماررہا ہے اور اس میں روزانہ کی بنیادوںپر تشویشناک حدتک اضافہ ہونے کا اشارہ مل رہاہے۔
اس بات سے قطعی انکار نہیںکہ ملک میں ٹیسٹنگ کی صلاحیت کافی بڑھ چکی ہے اور اس وقت یہ روزانہ 80ہزار کے آس پاس ہے ۔جتنے زیادہ ٹیسٹ ہونگے ،اتنے ہی زیادہ متاثرین سامنے آنے کے امکانات ہیں ۔ملک بھر کے لئے بھی تاہم جس طرح زیادہ ٹیسٹنگ کے نام پر متاثرین کی تعداد بڑھنے کے نام پر لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ،وہ قابل قبول نہیںہوسکتی ہے۔بالکل ایسی ہی صورتحال پہلے پہل ترقی یافتہ ممالک میں بھی تھی اور وہ ملکی عوام کو مسلسل دلاسہ دے رہے تھے کہ حالات قابو میں ہیں لیکن پھر جب یکایک کیس بڑھتے چلے گئے اور یہ دنوں میں دو گنا ،تین گنا بڑھ کر ہزاروں سے لاکھوںمیںچلے گئے تو حکومتوں نے ہاتھ کھڑے کردیئے اور لوگ بے بسی کے عالم میں خدائی مدد کے طلبگار بنے ۔
ہمارے ملک میں ابھی ایسی صورتحال نہیں ہے ۔بے شک ابھی بھی معاملات قابو سے باہر نہیں ہیں گوکہ پریشان کن ضرور ہیں۔کورونا کے پھیلائو کے عالمی رجحان کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔فی الوقت بلا شبہ بھارت میں کورونااُس رفتار سے نہیں پھیل رہاہے جس رفتار سے امریکہ یا دیگر ممالک میںپھیلا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم یہ مان کر چلیں کہ یہاں یہ رفتار ویسے ہی رہے گی اور یہ کبھی امریکی رفتار کے برابر نہیں ہوجائیگی ۔ہمیں مان لینا چاہئے کہ اگر سینکڑوں سے بڑھ کر اب یہ ہزاروں میں ہوچکی ہے تو یہ کل لاکھوں میںبھی جاسکتی ہے ۔آج روزانہ4ہزار کے کیس کل روزانہ 8سے دس ہزار بھی ہوسکتے ہیں۔جتنے زیادہ کیس ہونگے ،اتنی زیادہ اموات ہونگیں اور جتنی زیادہ اموات ہونگیں،اتنا پھر اُس صورتحال سے ابھر پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن جائے گا۔
اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بے شک عوام کا حوصلہ بنائے رکھیں لیکن ساتھ ساتھ تیاریوںکو بھی مستحکم کرتے چلے جائیں ۔اگر ہم یہ کہیں کہ آج بھی ہمارے پاس کورونا سے لڑنے کیلئے مناسب طبی ڈھانچہ میسر نہیں ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ابھی بھی وقت ہے ۔مرکزی اور یوٹی سرکار کو چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور پیش بندی کریں۔یہ طوفان ابھی تھمانہیں ہے بلکہ آگے بڑھ رہا ہے ۔اس لئے اگر اس وقت بھی ہم نے اس سے بچائو کا بندو بست نہیں کیاتو یہ طوفان ہمیں خس و خاشاک کی طرح بہا کرلے جائے گا۔امید کی جانی چاہئے کہ دلّی سے لیکر جموں وکشمیر تک سرکاری مشینری حرکت میں آئے گی اور معمول کی لیپا پوتی کو چھوڑ کر عملی اقدامات بروئے کار لائے گی جس سے اس طوفان سے نمٹنے میں کسی حد تک آسانی ہوسکے۔