مسجد کے صحن کی ایک سرسبز پارک میں گاؤں کے دانشور لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے سامنے اکرم نامی ایک کمہار میلے کچیلے کپڑوں میں مایوس بیٹھا ہوا ہے ۔
مولوی صاحب اوقاف کمیٹی کے ممبران سے مخاطب ہیں۔
مولوی صاحب: اکرم کہہ رہا ہے کہ اگر اوقاف کمیٹی اس کے نان نفقے اور دوسرے لوازمات کی زمہ داری لے تو وہ اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد مسجد کے نام لکھ دے گا۔ آپ سب کی کیا رائے ہے ؟
دانشور : لیکن مولوی صاحب یہ تو بھتیجے کے ساتھ رہتا ہے اور اس کے بھانجے بھی ہیں ۔
اکرم : نہیں ،میرا بھتیجا میری طرف خلوص سے دھیان نہیں دیتا ہے ۔اس کی بیوی مجھے طعنے دیتی ہے ۔میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اپنی جائیداد اس کے نام کرسکتا ہوں۔
دانشور : پھر بھانجوں کے ساتھ بیٹھو ۔
اکرم: لیکن میرا بھتیجا ان کو میرے پاس آنے ہی نہیں دیتا ہے اور وہ بھی دل سے میری طرف توجہ نہیں دیتے ۔
مولوی صاحب : دیکھو اکرم ،تم کو بھی ضبط سے کام لینا چاہیے ۔
اکرم: لیکن وہ کتے کی طرح مجھے ٹوکتے رہتے ہیں ۔
دانشور :ٹھیک ہے ہم تمہارے بھتیجے اور بھانجوں کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے اور سوچیں گے ،جومناسب ہوگا وہی کریں گے ۔
اوقاف کمیٹی نے بھتیجے سلام کو بلایا اور سمجھانے لگے۔
مولوی صاحب : دیکھو سلام باپ کی وفات کے بعد چاچا کی خدمت کرنا ہمارا اخلاقی فرض ہے اور اس سے صلہ رحمی کا حق بھی ادا ہوتا ہے اور باپ سے ہوئی لاپرواہیوں کا ازالہ بھی اور پھر اس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس کا حقدار بھی تو ہی ہے۔ جاؤ اس کی خدمت کرو ۔خدا تجھے برکتوں سے نوازے گا ۔
سلام نے حامی بھری اور چچا جان کو اپنے ہمراہ لے کر چلا گیا ۔
اکرم ایک بوڑھا آدمی ہے۔اس نے جوانی میں دو نکاح کئے تھے لیکن دونوں کی کسی وجہ سے طلاق ہوئی ۔اس کا بڑا بھائی اؤر چھوٹی بہن فوت ہوچکے ہیں ۔اب اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ ہمت کہ وہ برتن سازی کے پیشے سے اپنی ضروریات زندگی پوری کرتا ۔اس کو اکیلے رہنے اور کھانے کی عادت پڑگئی ۔گاوں کے سخی لوگ اسکو سو دو سو دیتے رہتے ہیں اور سرکاری خزانے سے بھی تھوڑی بہت امدادی رقم ملتی ہے جس سے اس کا گزارا چلتا ہے ۔
اس کے پاس زمین کے دو یا تین مرلے ہیں جو سڑک پر واقع ہونے کی وجہ سے اچھی قیمت کے حامل ہیں ۔
سلام نے اکرم کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی ۔اکرم خوشی خوشی مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے آتا رہا اور سلام کی مدح کرتا رہا۔یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا ۔
ایک دن اکرم مسجد کے حمام میں چلّا چلّا کر صدر اوقاف سے کہہ رہا تھا۔
۔۔میرا فیصلہ کرو۔۔ ۔میں اب سلام کے ساتھ ایک پل بھی نہیں رہ سکتا ۔میں اپنی زمین بیچ کر اس کے آنگن میں ایک ایسے آدمی کو کھڑا کردوں گا جو اس کی ناک میں دم کرے گا۔ اس کی بیوی دروازہ بند کرتی ہے اور مجھے اندر آنے نہیں دیتی۔۔۔روتے ہوئے ۔۔یہ لوگ باتھ روم کے کمرے کو بھی بند کر کے رکھتے ہیں ۔۔آخر میں ایک بشر ہوں اور عمر رسیدہ بھی ۔کبھی بھی جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔۔
صدر اوقاف نے جب سلام کو بلایا اور پوچھا تو اس نے کہا
سلام:۔۔۔میں اس کی اور خدمت نہیں کرسکتا ۔۔میں ایک غریب شخص ہوں ۔۔۔یہ جیب سے ایک پیسہ بھی نہیں نکالتا ہے۔۔میں اس کے نخرے نہیں اٹھا سکتا۔۔۔ یہ باتھ روم میں گندگی پھیلاتا ہے ۔نہ پانی سے صاف کرتا ہے اور نہ ہی اپنے کپڑوں کی صفائی کی طرف دھیان دیتا ہے ۔ اس کو کون گھر میں داخل ہونے دے گا۔۔۔
صدر اوقاف نے سلام کو سمجھانے کی بہت کوشش کی ۔لیکن اس نے ایک نہ مانی ۔شام ہوتے ہی حمام میں اکرم کے بھانجے آئے اور انہوں نے ماما کی خدمت کا ذمہ لے لیا ۔ابھی دو ہی دن ہوئے تھے کہ سلام نے اپنے آنگن میں چلّانا شروع کردیا۔
سلام:میں دیکھوں گا اس آنگن میں کون آئے گا۔۔ اس کی ٹانگیں توڑ کر اس کے ہاتھ میں رکھوں گا۔ بڑے آئے ہمدردی دکھانے والے ۔۔۔۔
شام کے وقت اکرم چائے اور کھانے کی تاک میں تھا لیکن نہ کسی نے چائے لائی اور نہ ہی کھانا ۔وہ صبح سویرے مسجد کے حمام میں پہنچا اور رونے لگا
اکرم؛میں نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا ۔نہ کسی نے دروازہ کھولا اور نہ ہی کسی نے کھانا لایا ۔۔۔۔
ایک پڑوسی نے گھر سے چائے اور روٹی منگائی اور اکرم کو حمام میں چاہئے پلائی۔
ایک مرتبہ پھر اوقاف کے اراکین نے اکرم کے بھانجوں کو بلایا اور کہا ۔۔آپ نے اس کو کھانے کے لئے کھانا کیوں نہیں دیا ؟
بھانجے؛وہاں کون جائیے گا ؟ اس کے بھتیجے نے ہم کو جان سے مارنے کی دھمکی دی ۔
یہ لڑائی جھگڑے کا معاملہ اکثر سننے کو ملتا تھا ۔گاوں کے لوگ ازراہ ترحم اکرم کو گھر سے کھانا بھیجتے تھے ۔
ایک دن گاؤں کے چند نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ اکرم کے مکان کے نیچے جتنی زمین ہے وہ اس کے پڑوسی کو لکھ کر دیں گے اور وہ بدلے میں اس کو کھانا کھلائے گا ۔
یہ بات سامنے آتے ہی سلام کی بیوی نے اکرم کے سے معافی مانگی اور گڑگڑانے لگی ۔ایک بار پھر فیصلہ ہوا ۔
اکرم پھر سے سلام کے گھر میں کھانا کھانے لگا ۔سلام کی بیوی کبھی ٹھنڈی، کبھی گرم ،کبھی کم اور کبھی زیادہ غذا رکھ دیتی تھی، جیسے کسی کتے کو بچا کھچا کھانا ڈالتے ہیں۔۔۔
نوبت یہاں تک پہنچی کہ اکرم تنگ آکر خود پکانے لگا ۔
گاؤں کے نوجوانوں نے اکرم کو حمام میں رکھنے کا فیصلہ لیا اوربستی کے ہر گھر والے کو باری باری کھانا کھلانے کی ذمہ داری دی گئی ۔گاوں والوں نے اس سے پہلے بھی ایک کُلال کے ساتھ یہی معاملہ کیا تھا جب تک وہ فوت ہوگیا ۔شام کے وقت جب نوجوان اکرم کے گھر پہنچے تاکہ اس کو بستر سمیت حمام میں منتقل کر دیں ۔ تو وہ کھانا کھا رہا تھا ۔ہاتھ کانپ رہے تھے ۔جوانوں نے بستر سمیٹنا شروع کیا ہی تھا کہ اکرم نے کہا : نہیں ،میں نہیں آؤں گا ۔میں یہیں رہوں گا ۔اگر سلام مجھے اپنے ساتھ رکھے گا تو بہتر ہوگا ۔
اکرم دراصل سلام سے بہت پیار کرتا تھا لیکن اس کی بیوی تند مزاج ہونے کی وجہ سے اکرم سے نفرت کرتی تھی۔
نوجوان واپس چلے گئے لیکن جانے سے پہلے اکرم کو کہہ دیا اب ہم نہیں آئیں گے ۔تیرا مزاج مستقل نہیں ہے ۔اب تو جانے اور تیرا بھتیجا ۔
اکرم کو نہ جانے کا افسوس ضرور ہوا لیکن خاموش رہا اور ظلم و ستم کے باقی دن کاٹنے لگا ۔خدا کا کرم تھا کہ اکرم کی آنکھیں اور ٹانگیں درست تھیں ۔وہ اچھی طرح سے چل پھر سکتا تھا ۔اب وہ چپ ہوگیا نہ کسی سے شکایت کرتا اور نہ ہی کسی کا شکوہ ۔خود ہی دودھ ،روٹی اور سبزیاں خرید کر لاتا اور چولہے پر پکا کر کھاتا ۔نہ بھتیجے کو فکر تھی اور نہ ہی بھانجوں کو غم ۔ اکرم پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرتا تھا اور خدا سے اپنی غلطیوں کی معافی طلب کرتا تھا ۔ وہ سچ مچ ایک مومن صفت انسان تھا جو بے صبری سے موت کا انتظار کررہا تھا ۔ ایک دن شام کے وقت اکرم بیمار ہوا ۔سلام نے جب اس کی حالت خراب ہوتی دیکھی تو اس نے پڑوسیوں کو بھی بلایا اور شام کے وقت جب اکرم کو تھوڑی راحت ملی تو اس نے سب سے مخاطب ہوکر کہا
۔۔۔میں ایک بے اولاد بدقسمت انسان ہوں ۔۔۔۔
۔۔۔خدا نے میرے لئیے یہی بہتر سمجھا ۔۔۔
۔۔۔۔میں اس میں ناخوش نہیں ہوں ۔۔۔
۔۔۔میری طرح ہزاروں لوگ کلال ہیں ۔۔۔جن لوگوں کے پاس مال و جائیداد ہوتی ہے ۔ان کے آس پاس ہزاروں لوگ پروانوں کی طرح گھومتے رہتے ہیں۔۔۔ میرے پاس اس جھونپڑی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔لیکندنیا میں جو کلالوں کی حالت ہوتی ہے،اس کے مقابلے میں میں خوش قسمت ہوں جو مجھے ایسا گاؤں ملا، جہاں میری ضروریات کا خیال رکھا گیا ۔۔۔ورنہ مجھ جیسے لوگ بھوکے ننگے سڑکوں اور نالیوں میں بھیک مانگتے مانگتے مرجاتے ہیں ۔۔۔آپ سب مجھے معاف کرنا ۔۔۔میری وجہ سے آپ کو تکلیف پہنچی ۔۔۔
اکرمکے ان الفاظ نے سب کو رلایا ۔وہ سب ہاتھ جوڑ کر اکرم سے معافی مانگنے لگے ۔
بھتیجے سلام نے بڑے پیار سے نہلایا ۔ناخن تراشے اور معافی مانگی ۔
رات گزر گئی ۔صبح ہوتے ہی اکرم کے درد میں اضافہ ہوا تو سلام نے اس کو فوراً ہسپتال پہنچایا،جہاں اس نے ہنستے ہنستے موت کو گلے لگایا اور دنیا کی سختیوں سے نجات پائی ۔اکرم کی موت کی خبر سنتے ہی گاؤں میں ماتم چھاگیا ۔ اس کی لاش کو جونہی گھر کے صحن میں رکھا گیا تو رونے والے ہمدرد سامنے آگئے، جن میں بھتیجے کی بیوی شامل تھی جو نہ جانے کیوں رونے کا ناٹک کرنے لگی ۔
دوسری عورت بھانجے کی بیٹی تھی جو چلا چلا کر کہتی تھی ۔۔۔۔۔میرے نانا ،تو کہتا تھا کہ میرا رونے والا کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔میں رو رہی ہوں تیری لئے ۔اس کے رونے میں بھی درد نہیں تھا ۔
اسی اثنا میں قبر کوڈھکنے کے لئے لکڑی کی مانگ ہوئی تو بھتیجے سلام نے گھلی سڑھی کلوٹی کمزور لکڑی کا ایک کمزور تختہ لایا جو بالکل بیکار تھا ۔ایک نوجوان نے اکرم کے مکان سے مضبوط لکڑی کا بڑا تختہ نیچے اتارا تو سلام کی بیوی فوراً رونا دھونا چھوڑ کر سلام سے کہنے لگی
۔۔۔۔۔سلام سنو ،یہ تختہ مت دو یہ کل ہمارے کام آئے گا ۔۔۔سلام کہنا تو چاہتا تھا لیکن گاؤں والوں کے تیور دیکھ کر خاموش ہی رہ گیا ۔۔کفن کی باری آئی تووہ کسی نے پہلے ہی بھیجا تھا ۔کفن دفن کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھر وں کوگئے ۔دھیرے دھیرے لوگ اکرم کو بھول گئے اور اکرم کے بھتیجے نے زمین اور مکان پر قبضہ جمالیا اور خوشی خوشی جینے لگا ۔
نہ اس سے کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ سلام کویہ کہنے والے کہ کلالہ کی جائیداد سارے رشتہ داروں کا حق ہے نہ کہ کسی ایک کی ۔خدا کی مرضی دیکھئیے ۔۔سلام کی بیوی اچانک شدید بیمار ہوئی ۔۔۔۔گاوں والے کہنے لگے۔۔۔برے کام کا برا نتیجہ۔۔۔۔
���
قصبہ کھُل ، کولگام
موبائل نمبر؛9906598163