رمضان جنگ بندی کے اعلان اور مذاکرات کی مبہم پیش کش کے بیچ کشمیرمیںبدستورگھٹن، غیریقینیت اور ظلم وبربریت کا ماحول برپاہے۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی یکم جون بروزجمعہ کوتاریخی جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعدجامع مسجدسری نگرمیں پیش آئے دلدوزواقعہ ہے، موصولہ اطلاعات کے مطابق نوہٹہ چوک میں نوجوان حسب ِ معمول احتجاج کررہے تھے کہ عین اسی وقت سی آر پی ایف کی ایک گاڑی نمودارہوئی اور سیدھے مظاہرین پرچڑ ھ دوڑی اور بر سرموقع تین نوجوانوں کو روندتی ہوئی بھاگ نکلی۔ شدید زخمی نوجوانوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ایک نوجوان مسمی قیصر احمد نے زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑدیا۔ یہ نوجوان دویتیم ویسیرکم سن بہنوںکا اکلوتا بھائی اور واحدسہارا تھا ۔ 21؍سالہ قیصر امین ساکن شہر خاص مچہ بل فتح کدل(حال بچھوارہ ڈلگیٹ ) کے جان بحق ہونے سے پورے کشمیر میں غم وغصہ پایا جاتاہے ۔سی آر پی کی جپسی سے جن دیگر نوجوانوں کو عمداًوقصداً ٹکر ماری، ان میں ایک یونس احمد کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔قیصرامین اپنے پیچھے جودو کم سن بہنیں چھوڑیں ان کا موصوف واحد کفیل تھا۔ کئی برس قبل ان پر یکے بعد دیگرے ماں اور باپ کا سایہ سر سے اٹھا۔اب جب ان دو بہنوں کایہ آخری سہارابھی چھن گیاتو ان کے ویران کدے کی صورت حال محتاج وضاحت نہیں۔ یادرہے نوہٹہ المیہ سے قبل 5مئی 2018ہفتے کوسری نگر کے صفا کدل کے نزدیک فورسزکی بکتربند گاڑی نے ایک نوجوان کو ٹائر کے نیچے کچل کرشہیدکر ڈالااورجب فورسز گاڑی سے کچلے گئے نوجوان کی لاش وصول کرنے کے لئے مرحوم کے اعزا و اقرباء اورمحلے برداری کیمپ پر پہنچی توانہیں وہاںنہایت بے رحمی کے ساتھ شدیدزدوکوب کیاگیا۔ظلم وبر بریت کے اس آتشیںماحول میں اہل کشمیر میںغم وغصہ دوآتشہ ہونا فطری عمل ہے ۔ایک ماہ کے دوران دوجگر پاش سانحات میںکشمیری نوجوانوںکوکس بہیمانہ طریقے سے گاڑی کے نیچے لاکرکچل ڈالاگیا،سوشل میڈیاپران کی ویڈیوزوائرل ہیں ،جنہیں دیکھ کر قلب وجگر پر چھریاں چلتی ہیں۔ایک مہینے کے دوران یہ دوسراالمناک واقعہ ہے کہ جب فورسز نے جارحانہ انداز اختیارکرتے ہوئے احتجاج کرنے والے کشمیری نوجوانوں کوفوجی گاڑیوںکے نیچے لاکرکچل ڈالا۔بربریت سے عبارت اس طرزعمل کودیکھ کرایسالگ رہاہے کہ کشمیر میں جبر و ظلم کی گھٹائیںاب اپنی انتہا ئیوںکو پہنچ رہی ہیں ۔ ماہرین اور مبصرین کے مطابق گولیوں اور پیلٹوں کے بے تحاشہ ذخائر ختم کرنے کے بعد بھی جب کشمیرکے مزاحمت پسند عوام اپنے بنیادی حق سے دستبردارہونے کانام نہیں لے رہے توانہیں خوف ودہشت سے مرعوب کر نے کے لئے اب فوجی گاڑیوں سے جوانوں کو کچلنے کا ایک نیا خون آشام تجربہ کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قتل وغارت گری کے نہ تھمنے والے ماحول میں یہاں کا کوئی شہری محفوظ نہیں ، جب کہ فورسز کشمیری جوانوں کو تہہ تیغ کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کر تے ہوئے اب نوجوانوں کی نسل کشی کے ضمن میں مظاہرین کو گاڑیوں کے نیچے کچل ڈالنے کی اسٹریٹجی پر عامل ہیں ۔اس سے صاف طوردکھائی دے رہاہے کہ فورسزکا یہ نیااندازِ کار اسرائیلی ی کورانہ تقلید ہے اور یہ آپریشن آل آوٹ کا نیا باب ہے۔فلسطین میں مسلم نوجوانوں کو گاڑیوں کی ٹکر سے کچلنا اسرائیل کا آزمودہ حربہ رہا ہے۔ صیہونی فوج فلسطینیوں کاخون بہانے کاجوکام ٹینکوں سے لے رہی ہے ،کشمیرمیں وہی کام فورسز اب اپنی گاڑیوں کے ذریعے انجام د ینے لگی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف جنگ بندی اور بات چیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر کشمیر حل کی امید دلائی جائے اوردوسری طرف نہتے کشمیری نوجوانوں کوگاڑیوں کے نیچے لاکر صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا یاجائے ، ان دو تضادات میں کشمیرکو مسلسل ماتم کدہ بنائے رکھنے کے سوا کیا کوئی اور مقصد ہوسکتا ہے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ فوجی اہلکاروں کاافطار پارٹی کی آڑ میں لوگوں کو گولیوں کا شکار بنانا کہاں بحالی ٔامن کا عندیہ دیتا ہے ؟ ہنگامہ خیز قصبہ شوپیان کشمیر میں راشٹریہ رائفلز کی جانب سے افطار پارٹی کے فلاپ شو کا بدلہ تین کشمیری بچیوں پر گولیاں مار کر لینے کے پیچھے کیا کوئی انسان ذہنی کا ر فرما نظرآتا ہے ؟ مختلف علاقوں میں فورسز کا سحری اور افطار کے وقت مبینہ طورگھروں میں داخل ہوکرتوڑپھوڑ کرنا، سیب کے باغات پر آرے چلانا، ایک سرفروش کے گھر کو نذر آتش کر نے کی ناکام کوشش کر نا ، یہ سب اسرائیل کا اسلوبِ جنگ ہے ۔ فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کے حوالے سے ریکارڈ پر یہ تلخ حقیقتیں موجودہیںکہ صیہونی فوج بھی فلسطینی مسلمانوں کے زیتون کے باغات کواسی طرح بے دردی سے کاٹ کرمقبوضہ عوام کو دانے دانے کا محتاج بنا کر دم لیتی ہے۔
شورش زدہ کشمیر میں فورسز نے کشمیری نوجوانوں کے قتل ِعمد اور خون ِ ناحق کا جو نیامہیب سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ امن مذاکرات کی پیش کشوں کا مذاق اڑانے کے بر ابر ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ سنگھ پریوار کی سیاسی حلیف کشمیر کی خاتون وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی یہ تاثر دیتی رہتی ہیں کہ دلی کشمیر یوں کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے مگر بحالی ٔ اعتماد کے اقدمات ہو نے کے الٹ میں زمینی حقائق اس بات کی چغلی کھاتے ہیں دلی کی دو رُخی حکمت عملی کسی مذاکراتی عمل کی حمایت کرنا نہیں بلکہ یہ ایک ہاتھ کشمیری عوام کو لتاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنا چھوڑتی ، دوسرے ہاتھ عالمی رائے عامہ کو اپنے خلاف برہم بھی نہیں دیکھنا چاہتی ہے،اس لئے ڈائیلاگ ڈائیلا گ کی رَٹ لگاتی کر اپنے اصل مشن کشمیر کو چھپاتی ہے ۔ دو کشمیری نوجوانوں کو یکے بعد دیگرے فورسز کی گاڑیوں سے کچلنے کے پیچھے یہی منفی سوچ کارفرما ہے کہ یہاں کے عوام کو اتنا خوف زدہ کیا جائے کہ وہ کبھی بھی اپنے او پر ہورہے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند نہ کرسکیں اور بلا چوں چراکشمیرکاز سے دستبردار ہوجائیں ۔ بربریت کے اس بہیمانہ طرز عمل کامقصدکشمیری کی نوخیز نسل کویہ پیغام بھی دیاجاناہے کہ گذشتہ تین عشروںسے متواتر اپنے بھائیوں کی خون آغشتہ لاشوںکودیکھ دیکھ کراور دن رات اپنے ساتھیوں اور بھائیوں کی میتوں کو قبرستانوں میں پہنچا کر وہ نفسیاتی الجھنوں اور ذہنی اضطراب و پریشانی میں مبتلا رہیں اور کبھی ایک پل بھی آرام و سکون کا نہ پائیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح کی اوچھی حرکات سے کشمیریوں کاعزم ٹوٹ جائے گااورجس کازکی کامیابی کاخواب وہ دیکھ رہے ، انہیں دیکھناچھوڑدیں ؟ دنیا کی تاریخ اس حقیقت پر شاہد عادل ہے کہ ظلم و ستم سے نہ کبھی کوئی قوم دبی ہے اور نہ ہی کوئی قوم نے اپنے بنیادی حقوق سے دستبردارہوئی ہے، اس کے علیٰ الرغم ظالم چاہے طاقت کے نشے میں کتنا بھی مدہوش ہو وہ ظلم وجبر کا ثمرہ پاکر ہی رہتا ہے ۔ سویت یونین کی عصری تاریخ انہی معنوں میں اپنے وقت کے اس عالمی طاقت کے انجام بد پر واشگاف الفاظ دلالت کرتی ہے۔ آج امریکہ بھی سرعت کے ساتھ وہی کاٹنے جارہاہے جو اس نے بویا ہے ۔ تاریخ کے اس نوشتہ کی روشنی میں کشمیر کے شب وروز کو دیکھئے تو یہی باور ہوگا کہ مظالم ا ور بربریت کی تمام انسانیت سوز وارداتوںکے باوجود نوشتہ ٔدیوار یہ ہے کہ کشمیری قوم کی قربانیاں اورکشمیریوں کی پامردی ایک دن روز ضرور رنگ لائے گی ۔کشمیر کازکی کامیابی اورمنزل کے حصول کے لئے یہ ایک اشارہ کافی ہے کہ فورسز کے ظالمانہ ہتھکنڈوں اور حقوق البشر کی بے انتہا پامالیوں کے باوجود پامال شدہ اور بے نوا کشمیری قوم اپنی منزل پالینے کی دلی خواہش میںپیچھے ہٹتی نظرنہیں آرہی ہے ۔آج کی تاریخ میں کشمیرکاز اپنی کمزوریوں کے باوجود جس نہج پر دکھائی دے رہاہے ،ا س سے پتہ چلتاہے کہ آگ اورخون کے کتنے بھی دریا بیچ میں حائل ہوں کشمیر کا دیر سویر سیاسی تصفیہ ہوناہے ۔ کشمیرکی موجودہ گھمبیر صورت حال کودیکھ کرہرذی شعورپکاراٹھتاہے کہ یہ کیسی یک طرفہ جنگ بندی اور یہ کون سے مذاکرات کے لئے زمین ہموار کی جارہی ہے ؟ یہ محض دھوکہ اوردجل و فریب ہے اورہرنیاطلوع ہونے والادن اس بات کی علانیہ تردید کررہاہے کہ مودی حکومت کشمیر کا پُر امن اور منصفانہ حل کی راہ پر رتی بھر بھی گامزن ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار نے بھارتی عوام کا جو مائنڈ سیٹ بنایا ہے ،وہ اس بات کو گوار نہ کر ے گا کہ سیاسی تنازعات اور اختلافات کا ازالہ جنگ وجدل کے بجائے افہام وتفہیم سے کی جائے ۔اس لئے یک طرفہ جنگ بندی کی ڈفلی اورمذاکرات کی ڈگڈگی بجانا لاحاصل ہے جب کہ جان بوجھ کر زمینی صورت حال امن وانصااف کے ادنیٰ تقاضوں سے یکسرمختلف بنائی جارہی ہو۔ خود ہی بتایئے جب کشمیری عوام کے خلا ف ظلم و جبر سے عبارت کارروائیاں مسلسل جاری ہوں،یہاں امن ناپید، آرام حرام ، بے چینی بام ِ عروج پر، ظلم انتہاوں پر، تشددروبہ ترقی، ہلاکتیں زندگی کامعمول، گھروں کی توڑپھوڑ ، پھل دار پیڑ پودوں کی کاٹ پھاڑ، سنگ ہائے ِمزار تک نشانۂ نفرت بن رہے ہوں، حتیٰ کہ قبر وں تک کو بھی بخشنے پر اربابِ اقتدار رضامند نہ ہوں تو ایسے میں جنگ بندی کے اعلانات محض ڈھکوسلے ہیں۔واضح رہے کہ زمانہ قدیم میں یہ رواج تھا کہ لڑائی میں جب کوئی قبیلہ شکست کھا جاتا تھا تو ہارنے والے قبیلے کی قبریں اُکھیڑ دی جاتی تھیں اوراس طرح ان کی بے حرمتی کی جاتی تھی ۔ عصرحاضرمیں ایسا کرنے والوں کی مشابہت اورمماثلت دورجہالت کے لوگوں سے ہی کی جاسکتی ہے اورایسی اوچھی حرکات تہذیب اور شائستگی ،رواداری ،آداب اور اخلاق سے عاری کہلاتے ہیں۔کشمیرمیںسرفروشوں کے مقابر کو اکھاڑنے اور ان پر لگے کتبوں کی توڑ پھوڑ کرنے کی ننگ وعار والی کارروائی سے جہاں اس امرکابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ کشمیرکاز نے دہلی کے اوسان خطا کر دئے ہیں ،وہیںاس سے یہ امر بھی مترشح ہوجاتاہے کہ کشمیرمیں اخلاقی اور انسانی اقدار کی بے حرمتی کرنے کی سطح کتنی گری ہوئی ہے۔اس طرزعمل سے یک طرفہ جنگ بندی کی حقیقت اورمذاکرات کے اعلان کی سنجیدگی کاپتہ بھی چلتاہے اوریہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ ایسے میں ساون کے کسی ا ندھے کو اگر ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آئے تو کیا کہیے۔ بایں ہمہ اگر حکومت ِ ہند کی ارضی سطح پر کوئی تھوڑی سی بھی َسنجیدگی نظرآجاتی اور ایسے اقدامات اٹھائے جاتے جن سے باور ہوتا کہ کشمیر حل کے لئے فضا سازگار کی جارہی ہے تو ہم یہ نہیں دیکھتے کہ نوجوانوں کو فروسز گاڑیوں تلے کچل رہے ہیں ، قیدیوں کو جیلوں سے غیر مشروط رہا کیا جارہاہے ، بدنام زمانہ کالے قوانین کا بتدریج خاتمہ کیا جارہاہے ، کشمیر کے طول و عرض میں قائم بنکراور واچ ٹاوروں کو ہٹایا جارہاہے لیکن ایساکچھ بھی نہ دکھائی دے تو کون سلیم العقل انسان بات چیت کی رٹ پر یقین کر ے گا؟غور طلب ہے کہ پچھلے کئی دن سے مودی حکومت کی طرف سے پاکستان اور حریت سے مکالمہ آرائی کی مشروط پیش کشوںکو بعض لوگ کشمیرپرمودی کی اجیت ڈیول ڈاکٹرائن میں بدلائو سے تشبیہ دے رہے ہیںلیکن ایساہرگزنہیں۔ کشمیرحل کے لئے مذاکرات کے انعقادکے لئے کسی بھی سلیم العقل انسان کو انکار نہیںہو سکتا ہے لیکن یہ ایک کھلاراز ہے کہ گذشتہ تین عشروں سے وادی کشمیر میں کشت و خون کا باز ار مسلسل گرم ہے ۔ اس دوران شاید ہی یہاںکوئی دن گزر اہو جب یہ بہشت نما سرزمین ابن آدم کے خون سے ایک بہانے یا دوسرے بہانے سے لالہ زار نہ ہوئی ہو، یہاں کے طول وعرض میں انسانیت کی تذلیل نہ ہوئی ہو، بستیاں نہ اجڑ گئیں ہوں ، متاثرین کی آہ وبکا اور چیخ وپکار سے عرش بریں نہ ہلا ہو ، کشمیریوں کو اپنے وطن اور بیرونِ وطن جان کے لالے نہ پڑے ہوں۔تین دہائیوں سے نامساعد حالات کے چلتے یہاں اتنی بہاریں خزان رسیدہ ہوئیں کہ ان کا کوئی شمار نہیں ، اتنی معلوم ونامعلوم قبریں بنیں کہ ان کا بھی کوئی حساب نہیں ، اتنے زندان خانے اور مراکز ِعقوبت آبا د ہوئے کہ اس کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر اس زور زبردستی کے باوجود مسئلہ کشمیر کا دردسر اپنی جگہ من وعن موجودہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر اتنی تباہیوں ، بربادیوں اور زور آزمائیوںکے باوجود کشمیری عوام اپنے سیاسی موقف سے بال برابر بھی کیوں نہ ہٹے ؟ محض اس لئے کہ وہ اپنی سیاسی تقدیر کا فیصلہ جب تک خود نہ لیں ،اس وقت تک یہاں حالات معمول پر نہیں آسکتے ۔ مودی حکومت کے ڈائیلاگ آفر کے تعلق سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ بنیادی طورپر دہلی میں جتنے منہ اتنی باتیں کافتورموجودہے۔اس لئے ایک جانب بھارتی وزیر داخلہ حریت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے بارے میں بیان دے رہے ہیں ، دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور کشمیرمیں ہماری سینااپنے کارروائیوں میں لگی ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کایہ کہتے ہوئے عندیہ دے رہی ہے کہ بقول ان کے شرطیہ طور پاکستان کی طرف سے دہشت گردی بند کرنے سے اسلام آبادکے ساتھ دوبارہ بات چیت ہوسکتی ہے ، حکمران جماعت بی جے پی کے صدر امیت شاہ کہتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے رمضان جنگ بندی صرف کشمیرکے عام لوگوں کیلئے ہے نہ کہ عسکریت پسندوں کے لئے، کشمیرکے پولیس چیف کہتے ہیں کہ جنگ بندی عسکریت پسندوں کے لئے ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ متذکرہ بالا بیانات کے کھلے تضادات کے ماحول میں مذاکرات کی آخر کونسی صورت بچ پاتی ہے جس پرکوئی اعتبارکرے؟ مذاکرات کے حوالے سے ہمیشہ دہلی کارویہ مبہم بھی رہااورمنفی بھی۔اگردہلی کی نیت میں عدم اخلاص کا روگ نہ ہوتاتو بانت بانت کی بولیوں کے بجائے واضح طور پر مسئلہ کشمیر کے دائمی تصفیے کے حق میں اولین فرصت میںماحول کو ساز گار بنایا جاتا لیکن دہلی جس لب ولہجے میں مذاکرات کی ڈگڈگی بجارہی ہے ،ا س سے تاثر یہی بنتا ہے کہ مودی سرکار نہ کشمیریوں اورنہ ہی پاکستان کے ساتھ کوئی بات چیت کروانے میں سنجیدہ ہے بلکہ یہ فورسز کی بربریت، سخت گیریت اور تندو ترش پالیسیوںپر مسلسل گامزن ہونے پر تکیہ کرکے کشمیر کی عوامی مزاحمت اسی طرح نامساعدحالات کے ہمالیائی پہاڑ کے نیچے دبانا چاہتی ہے جیسے قیصر احمد نجار کو نوہٹہ میں فورسز گاڑی کے نیچے دباکر ہمیشہ کی نیند سلادیا گیا اور بس ۔