جب ہم تاریخ کشمیرکی ورق گردانی کر یں تو محسوس کریں گے کہ ہم میں ابتدا ء سے ہی تساہلات نظر آتے ہیں جن سے ہماری منزل مقصود ہمارے ہاتھوں سے پھسلتی رہی۔ ۱۹۳۱ء سے کشمیر میں سیاست وحریت نوازی کو تقسیم در تقسیم ہونے کا لاعلاج مرض لاحق ہوا اور یہ تقسیم اب بھی ہماری مقدر بن گئی ہے ۔بنابریں ہم اپنی منزل مقصودسے ابھی تک دور ہیں ۔ تاریخ بتلاتی ہے اولین شہدائے کشمیر کی نماز جنازہ جامع مسجد نوہٹہ میں ادا ہوئی جس میں کشمیر کی دو مضبوط مذہبی قیادتیں بہ نفس نفیس موجود تھیں، جب ان شہیدوں کی تدفین زیارت حضرت نقشبند ؒصاحب شہر خاص سری نگر میںہورہی تھی ،اس وقت بعضوں نے خانقاہ معلی مین مزار شہداء بنانے کی کوشش کی ، شایداس وجہ سے کہ آیندہ کشمیر کا یہی سیاسی پلیٹ فارم ہو گا ۔صرف ایک سال تک قیادت میں یہ سیاسی اتحاد قائم رہاکیونکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اس بیچ سیاسی دائو پیچ سے اس اتحاد کو توڑ کے رکھ دیا۔شوشہ یہ پھیلایاگیا کہ سیاسی قیادت ایسے نوجوان کو سپرد ہوئی جومذہبی طور قابل قبول نہیں۔اس طرح ابتداء میں ہی حریت نوازی کو دو الگ الگ پلیٹ فارموں جامع مسجد اور خانقاہ معلی کی صورت میں منقسم کر کے اہل کشمیر اس کا خمیازہ اٹھاتے رہے۔ یہ شوشہ آرائی ’’پھوٹ ڈالو اورحکومت کرو‘‘ محلاتی سازش اورمہاراجہ ہری سنگھ کی ہی کارستانی تھی۔مذہبی قیادت کا خانقاہی حصہ شیخ صاحب کے ساتھ شانہ بشانہ تھا ۔’’ آتش چنار ‘‘ کے مطابق یہ حصۂ قیادت چونکہ جامع مسجد کی قیادت سے مرعوب و مغلوب تھا ،اس لئے اس اقدام سے یہ مضبوط و غالب ہوا۔ چلتے چلتے ہماری سیاسی قیادت مسلم کانفرنس اورآزاد مسلم کانفرنس میں تقسیم ہوئی۔ اس طرح ہری سنگھ اہل کشمیر کو اپنے سلب شدہ حقوق کی بازیابی سے سولہ سال تک دور رکھنے میں کامیاب ہوا کیونکہ عملی طور مذہبی قیادت اور سیاسی قیادت میںایک بہت بڑی خلیج پیدا کردی گئی تھی ۔ جب شیخ محمد عبداللہ نے مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا تو مذہبی قیادت نے اپنی تشکیل شدہ تنظیم کو مسلم کانفرنس سے بدستور موسوم رکھا ۔ اُدھرہندوستان میں معرکہ آراء دو قومی نظریہ اورسیکولرازم والوں نے ان دونوں قیادتوں کو اپنے اپنے لئے استعمال کیا جب کہ دل ہی دل دونوں مخالف سیاسی دھارے کشمیر پر قبضہ جمانے کا خیال رکھتے تھے اور انہیں اہل کشمیر کا درد بانٹنے کی کوئی فکر نہ تھی۔
یہی وجہ ہے کہ پار میر واعظ کشمیر مولوی محمد یوسف شاہ ؒ کی بحیثیت صدر ’’آزاد کشمیر‘‘ بے تکلفی کے ساتھ معزولی کی گئی اور اس والے کشمیر میں سیکولرازم والوں نے اٹھارہ سو مسلمانوں کو اگست ۱۹۵۳ء میں صرف تین دنوں میں شہید کر ڈالا اور کسی غیر کشمیری نے ان پر رویا بھی نہیں۔ دلی کے سیکولرسٹوں نے یہاں کی سیاسی قیادت کے لالچی اور حریص حصے کو آری اور جنگل ٹھیکوں سے اپنی آقائیت کے تحت لایا،سوائے چند مخلصوںکے تمام ارکانِ اسمبلی غداری اور جفاکاری کے کنویں میں ڈوب مرے۔میں نے اپنے دادا محترم اسداللہ قانون گو سے اس واقعہ کے پس منظر میں مرزا افضل بیگ کی وفاداری کا ذکر کیا توانہوں نے کہا’’ بات یہ ہے کہ مرکز نے بیگ صاحب کو اس لئے قبول نہیں کیا کیونکہ وہ جرأت اور جسمانی قوت دونوں سے معذور تھے ورنہ ان کے منہ میں بھی لالچ کی رال ٹپک رہی تھی۔سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے جب پاکستان نے کشمیری قیادت کی مدد کرنے میں کمزوری دکھائی ،تو بیگ صاحب اور شیخ صاحب کے اہلِ خانہ کو ہی درمیانہ دار بناکر بیگ پارتھا سارتھی مکالمہ ہوا جس کے اخیر پر اندرا عبداللہ ایکارڈ وجود میں آیا ۔اس ضمن میں طے شدہ پلان کے مطابق اُن تمام مخلصین پر شیخ صاحب کے ساتھ ملاقات پر روک لگادی گئی جو رائے شماری کے قائدکو ایکارڈ سے باز رکھنے کے لئے قومی مفاد میں تڑپ رہے تھے ۔ایکارڈ کی رومیں بہہ کر’چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات‘کے مصداق گھاٹے کا سودا قبول کرتے ہوئے محاذ رائے شماری کی ایثار پیشہ کوششوں کو بائیس سالہ آوارہ گردی کانام دیا گیا ۔ان بائیس سالوں میں بھی یہ تحریک دو حصوں میں محاذ رائے شماری اور عوامی مجلس عمل میں منقسم رہی۔ چنانچہ۱۹۳۱ء کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کر نے کیلئے شہر خاص میں دو جلوس بر آمد ہوتے رہے بلکہ شہیدوں کی تدفین کے لئے جامع مسجد کے ایک کونے کو الگ سے مزار شہدا ء کے لئے مختص کیا گیا ۔ دریں اثناء بھارت ۱۹۵۳ء سے لے کر ۱۹۷۰ء تک سیاسی غنڈوں کو بطور انتخابی امیدوار میدان میں اُتارتا رہا اور ہم انتشار اور خلفشار کے بھینٹ چڑھتے گئے۔ ۱۹۷۵ء کے مابعدایکارڈ سے ہماری سیاسی تحریک زمین بوس ہوگئی اور پھر ہم نے کبھی سنگل فاروق اور کبھی ڈبل فاروق اتحاد کانظارہ کیا ۔ دوسری بدقسمتی اس قوم کی یہ رہی کہ کسی مذہبی اورسیاسی قیادت نے اپنے بعد آنے والے زمانے کے لئے کوئی معتبر، مضبوط اور قابل قبول جانشین قوم کو پیشوائی کے لئے نہ دیا ۔اس بناپر بھی ہم مذہبی، سیاسی اور مسلکی منافرتوں میںبٹتے گئے جب کہ ہندوستان حادثاتی طور نمودار ہوئے مذہبی اورسیاسی چہروںکوپنپنے کا موقع دیتا رہا تاکہ کشمیری بے امام رہیں۔ اس روایت کی داغ بیل بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ڈال دی اور تاریخ نے دیکھا کہ جب نیشنل کانفرنس نے انتخابات جیت کر اٹانومی کا نعرہ دیاتو ہندوستان نے وقت کے ریاستی وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق کی والد محترمہ کی وفات پرواجپائی نے بذات خود تعزیت پرسی سے اس نعرے کا گلا گھونٹ دیا اورپھر آئندہ اس قسم کی ’’ناپسندیدہ حرکات‘‘ سے انہیں باز رکھنے کے لئے ہندوستان نے کشمیر میںمفتی سعید کو متبادل سیاسی قیادت کے طور اُبھرنے میں اپنی پوری پوری معاونت دی ۔انہیں بھارت نے پہلے ہی بحیثیت مرکزی داخلہ مقرر کرکے کشمیر کے بارے میں دوررس سازشوں کے لئے پال رکھا تھا تاکہ اٹونومی کی مانگ کرنے والی پارٹی کو جڑوں سے اُکھا ڑا جائے جو ۱۹۳۱ء سے کشمیر کے سیاسی منظر نامے میںپیش پیش رہنے کے علاوہ الحاق ہند کی سیاسی فریق تھی۔ قبل ازیں کشمیر کاز نے شدومد سے سر اٹھایا تھامگرعسکری قیادت درجنوں تنظیموں کے نام سے تقسیم کی گئی تھی،یہاں تک کہ ہر تحریک نواز سیاسی ومذہبی تنظیم نے اپنے ہم نوا عسکری بازو کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا ۔ گردش ِ ایام میں تحریک نوازوں میں اتنی خلیجیں پیدا ہوئیں کہ ہر عنوان سے صرف تحریکی صفیں تقسیم ہوتی رہیں اور بکھرتی رہیں ، اور دشمنان دراڑوں سے فائدہ سمیٹتارہاتنظیموں کاالگ الگ منشور ،نظریہ،پلیٹ فارم ،پرچم اور نعرہ سوختہ دلان ِ کشمیر کو بھاری پڑا مگر لوگ ان کے سامنے بے دست وپا ثابت ہوئے۔ افسوس کہ ہزاروں نوجوانوں کی شہادتیں ، پیلٹ اور بلٹ کادبدبہ ، مائوں بہنوں کی عصمت ریزیاں ، نوجوانوں کی حراستی گم شدگیاں ، سبز سونے کی آتش زنیاں اور لوٹ مار،مساجد،خانقاہوں اورزیار ت گاہوں کی بے حرمتی اورمسماریاں ،زرعی زمین پر قبضہ داریاں، لامحدود املاک کی خاکستریاں ، نئی نسل میں اخلاقی تنزل پیدا کرنے کی منظم سازشیںتقاضا کر رہی تھیں کہ ہم قوم کے دشمنوں سے چوکنا رہیں مگر اس کے بجائے ہم میںتفرقات کا دورد دورہ رہا ،قربانیوں کا لحاظ و احترام کر نے کے برعکس شکوک وشبہات ، منافرتیں، تکفیر بازیاں اورمناظرہ بازیاںجیسی منفی چیزیں کی موجودگی میں ہندوستان ہمیں اپنے سلب شدہ حقوق کی بازیابی سے باز رکھنے میں کامیاب نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا؟ مہاراجہ ہر ی سنگھ نے بھی ۱۹۳۱ء سے ۱۹۴۷ء تک ہمیں اپنے حقوق سے باز رکھنے کے لئے ہمیں منقسم ومنتشر بنائے رکھا ۔
سچ یہ ہے کہ جب تک قوم کی قیادت تقسیم در تقسیم ہوتی رہے ، قوم بے انتہا اور انمول قربانیوں کے باوجود بھی منزل مقصود سے دن بہ دن دو ر ہی ہوتی رہے گی۔ بلا شبہ موجودہ گھمبیرصورت حال ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ روزانہ ہول سیل میں قتل و غارت اور بالخصوص کشمیر ی نوجوانوں کی نسل کشی کے باوصف ہم منتشر ہیںجب کہ ہماری بقاء کاراز اس میں مضمر ہے کہ ہم اتحاد اور ثابت قدمی سے متصف رہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اتحاد واتفاق تودور ہم اخلاقی حس سے بھی اس قدر تہی دامن ہورہے ہیں کہ ناگفتہ بہ حالات سے گزرنے اور خون آشامیوں کا مشاہدہ کرنے کے باوجو کوئی ہم میںسے ٹس سے مس نہیں ہونے کو تیارنہیںہے ، ہم میں فلک بوس بنگلوں کی تعمیر، نکاح وشادی پر بے تحاشا رسومات وخرافات ، فضولیات اور عیاشیاںہم میں اتنی رچ بس گئی ہیں کہ اب شاید قیامت کبریٰ کا برپا ہونا ہی ہمارے درد کا درماں ہے ۔ کتنی شاق گزرتی ہے یہ بات کہ ہم اپنے کاز سے ہی نہیں بلکہ اپنے مستقبل سے بھی لاپروا ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ہم روز اپنے اجتماعی مقصد سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔یادرکھئے زندگی میں کسی عظیم الشان مقصد کا حصول اور عیاشیاں وخرمستیاں ایسی متضاد چیزیں ہیں جو ایک ساتھ چل نہیں سکتی ہیں ۔ بہر حال اس مایوس کن صورت حال میں ہمیں اگر اپنے ہموم وغموم سے چھٹکارا چاہیے تو اس کے لئے نہ صرف اپنا ذاتی محاسبہ کر نا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں ایمان واستقامت ،اتحاد واستقلال اورمصائب وشدائد پر صبر کرنے کی توفیق نصیب کرے اور جلدازجلد ہمیں کامیابی و کامرانی کے زینوںسے ہمکنار کرے ۔ ہم یہ بھی دعاکریں کہ کشمیر کی سیاسی ،مذہبی وحریت نواز قیادت کو زمینی حالات کا بغور مشاہدہ کرنے اور ان سے قوم کے لئے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطاہو اور انہیں قوم اورکازکے لئے متحدو منظم ہونے کی ہمت عطاہو۔
رابطہ :صدر انجمن حمایت الاسلام
9419076985