یہ ایک خون کھول دینے والی کشمیر کہانی ہے جس کا ورق ورق ہم سب روز رنج وغم اور دکھ وافسوس کے ساتھ تحریر ہوتا ہو ادیکھ رہے ہیں۔ اس کہانی کے تمام کردار بشمول اس کے جنم داتا شیخ محمد عبداللہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ایک طرف شر وفساد ہے اور دوسری طرف مزاحمت اور بے تحاشہ قربا نیاں ہیں۔ یہ دو متضاد تصویریںگزشتہ بہتر سال سے دیکھتے پھر تے ہیں۔ خاص کرنوے کی دہائی سے مسلسل جابجا متحرک دیکھتے ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کشمیر متواترجلتارہا ، کشمیری بلا ناغہ جھلستے رہے ، مسلح جھڑپیں ہوتی رہیں ، عسکریت پسند اور سوئلین افراد جان بحق ہوتے رہے ، بستیاں مسمار ہوتی ہیں، نوجوان قبروں میں ابدی نیند سو تے رہے ہیں ، ماں اپنے لخت جگر سے بچھڑنے کا ماتم مناتے ر ہے ہیں ، باپ اپنی آنکھ کی پتلیوں کو شہر خموشاں میں دفن کرتے ر ہے ہیں، لوگ ماتم مناتے رہے ہیں ، کاوربار ِ زندگی ٹھپ ہوتارہا ہے، مجروح جذبات لئے نوعمر لڑکے( بسااوقات لڑکیاں بھی ) سڑکوں پر مظاہرے کرنے نکلتے رہے ، از سر نو گولیاںچلتی رہیں ، پیلٹ کی بارشیں ہوتی رہیں ، زخمیوں اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی رہیں ، ہڑتالیں ہوتی ر ہیں، تعلیمی ادارے مقفل ہوتی رہیں ، بازار ویران و سنسان پڑتے رہے ، انٹر نیٹ اور مواصلاتی نظام پر وقفے وقفے سے بریک لگتی رہی ، حکومت انسانی حقوق کی پامالیوں پر انکوائری بٹھا تی رہی، حریت واویلا کر تی رہی ، اقتداری سیاسی گماشتے بیان بازیوں سے اپنا حمام گرماتے رہے۔ گزشتہ انتیس سال سے یہی کچھ دیکھااور سہا جاتارہاہے اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگلے پچاس سال یہ کشمیر کہانی مزید خون خرابے اور فتنہ وفساد کے عنوان سے نہ لکھی جائے۔ سچ یہ ہے کہ یہی دیکھتے دیکھتے زمانے کی بوڑھی آنکھیں جنت نظیر کشمیر کو تباہ وبرباد ہوتی رہی ہیں۔ واضح رہے آج شوپیان ، پلوامہ سے لائین آف کنٹرول یا جنگ بندی لائین کے آر پار بنتی رہی ہے،اس کے پیچھے مسئلہ کشمیر کی یہی ایک مہیب کہانی کارفرما ہے ۔ قابل غور ہے کہ اس کشمیر کہانی میں کہیں بھی عدل وانصاف اور عقل ودانش کو کوئی رول نہیں دیا گیا بلکہ سنگ دلی ، آدم خوری اور طاقت کے اندھا دُھند اور وحشیانہ استعمال کو ہی ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے ، جب کہ امن وقانون کی لگام جبر وتشدد اور جارحیت کے فیل بدمست کے ہاتھ میں یہ کہہ کر دی گئی ہے کہ تم بھاری بھرکم جانور ہو، تم آزاد ہو کہ نہتوں کا خون نچوڑدو ، کمزوروں کو روند ڈالو، حق مانگنے والوں کی زبانیں کھینچ لو، بے زوروں کی عصمتیں نوچ ڈالو ،لوگوں کے گھر بار توڑ پھوڑ کے رکھ دو۔ اس فیل بدمست کو افسپا کے سحر سے مدہوش کیا گیا تاکہ کشمیر حل خواب وخیال بن جائے ۔ عقل وفہم ، سیاسی شعور وتدبر اور مذاکراتی عمل سے عاری طاقت کی زبان بولنے والوں کی منشاء کے مطابق اگلی صدی تک یونہی ترتیب پائے تو ان کے وارے نیارے ہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ اس تلخ حقیقت کو بدلنے کا مصمم ارادہ کر تے ہوئے مودی جی اپنی سیاسی طاقت بر صغیر میں امن ،عدل، ڈائیلاگ ، برادری اور تعمیر وترقی کے لئے بڑی فیاضی سے خرچ کریں اور آر پار کے لئے ایک مسیحا ثابت ہوجائیں اور کشمیر حل گولی گالی سے نہیں بلکہ آرپار کو گلے لگوانے سے نکالا جاسکے۔ کیا وہ ایسا کریں گے، زمانے کو اب یہی دیکھے کا اَرمان ہے ۔
کشمیر کہانی! .۔۔۔۔ اچھے انجام کی منتظر
کشمیر کہانی! .۔۔۔۔ اچھے انجام کی منتظر
مجھے کچھ کہنا ہے
مجید مجروح
آلوچی باغ، سری نگر
یہ ایک خون کھول دینے والی کشمیر کہانی ہے جس کا ورق ورق ہم سب روز رنج وغم اور دکھ وافسوس کے ساتھ تحریر ہوتا ہو ادیکھ رہے ہیں۔ اس کہانی کے تمام کردار بشمول اس کے جنم داتا شیخ محمد عبداللہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ایک طرف شر وفساد ہے اور دوسری طرف مزاحمت اور بے تحاشہ قربا نیاں ہیں۔ یہ دو متضاد تصویریںگزشتہ بہتر سال سے دیکھتے پھر تے ہیں۔ خاص کرنوے کی دہائی سے مسلسل جابجا متحرک دیکھتے ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کشمیر متواترجلتارہا ، کشمیری بلا ناغہ جھلستے رہے ، مسلح جھڑپیں ہوتی رہیں ، عسکریت پسند اور سوئلین افراد جان بحق ہوتے رہے ، بستیاں مسمار ہوتی ہیں، نوجوان قبروں میں ابدی نیند سو تے رہے ہیں ، ماں اپنے لخت جگر سے بچھڑنے کا ماتم مناتے ر ہے ہیں ، باپ اپنی آنکھ کی پتلیوں کو شہر خموشاں میں دفن کرتے ر ہے ہیں، لوگ ماتم مناتے رہے ہیں ، کاوربار ِ زندگی ٹھپ ہوتارہا ہے، مجروح جذبات لئے نوعمر لڑکے( بسااوقات لڑکیاں بھی ) سڑکوں پر مظاہرے کرنے نکلتے رہے ، از سر نو گولیاںچلتی رہیں ، پیلٹ کی بارشیں ہوتی رہیں ، زخمیوں اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی رہیں ، ہڑتالیں ہوتی ر ہیں، تعلیمی ادارے مقفل ہوتی رہیں ، بازار ویران و سنسان پڑتے رہے ، انٹر نیٹ اور مواصلاتی نظام پر وقفے وقفے سے بریک لگتی رہی ، حکومت انسانی حقوق کی پامالیوں پر انکوائری بٹھا تی رہی، حریت واویلا کر تی رہی ، اقتداری سیاسی گماشتے بیان بازیوں سے اپنا حمام گرماتے رہے۔ گزشتہ انتیس سال سے یہی کچھ دیکھااور سہا جاتارہاہے اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگلے پچاس سال یہ کشمیر کہانی مزید خون خرابے اور فتنہ وفساد کے عنوان سے نہ لکھی جائے۔ سچ یہ ہے کہ یہی دیکھتے دیکھتے زمانے کی بوڑھی آنکھیں جنت نظیر کشمیر کو تباہ وبرباد ہوتی رہی ہیں۔ واضح رہے آج شوپیان ، پلوامہ سے لائین آف کنٹرول یا جنگ بندی لائین کے آر پار بنتی رہی ہے،اس کے پیچھے مسئلہ کشمیر کی یہی ایک مہیب کہانی کارفرما ہے ۔ قابل غور ہے کہ اس کشمیر کہانی میں کہیں بھی عدل وانصاف اور عقل ودانش کو کوئی رول نہیں دیا گیا بلکہ سنگ دلی ، آدم خوری اور طاقت کے اندھا دُھند اور وحشیانہ استعمال کو ہی ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے ، جب کہ امن وقانون کی لگام جبر وتشدد اور جارحیت کے فیل بدمست کے ہاتھ میں یہ کہہ کر دی گئی ہے کہ تم بھاری بھرکم جانور ہو، تم آزاد ہو کہ نہتوں کا خون نچوڑدو ، کمزوروں کو روند ڈالو، حق مانگنے والوں کی زبانیں کھینچ لو، بے زوروں کی عصمتیں نوچ ڈالو ،لوگوں کے گھر بار توڑ پھوڑ کے رکھ دو۔ اس فیل بدمست کو افسپا کے سحر سے مدہوش کیا گیا تاکہ کشمیر حل خواب وخیال بن جائے ۔ عقل وفہم ، سیاسی شعور وتدبر اور مذاکراتی عمل سے عاری طاقت کی زبان بولنے والوں کی منشاء کے مطابق اگلی صدی تک یونہی ترتیب پائے تو ان کے وارے نیارے ہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ اس تلخ حقیقت کو بدلنے کا مصمم ارادہ کر تے ہوئے مودی جی اپنی سیاسی طاقت بر صغیر میں امن ،عدل، ڈائیلاگ ، برادری اور تعمیر وترقی کے لئے بڑی فیاضی سے خرچ کریں اور آر پار کے لئے ایک مسیحا ثابت ہوجائیں اور کشمیر حل گولی گالی سے نہیں بلکہ آرپار کو گلے لگوانے سے نکالا جاسکے۔ کیا وہ ایسا کریں گے، زمانے کو اب یہی دیکھے کا اَرمان ہے ۔
Leave a Comment