کشمیر کاز حق وصداقت کا پرچم

نظریہ اور فلسفہIdeology and Philosophy) ( انقلابی تحریک کاہو تا ہے ۔ وہ تحریک چاہے سیاسی، سماجی ،معاشی ,مذہبی اصلاح یا دیگر اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے بر پا کی گئی ہو۔ نظریہ جتنا مضبوط اور واضح ہو تا ہے انقلابی تحریک اتنی ہی جا ندار ، ظرف اور وسعت کی حا مل ہوتی ہے۔ تحریکوں کی بنیاد کا راست اور عمیق ہو نا ان کے نظریہ اور فلسفہ پر منحصر ہو تا ہے۔ کسی تحریک کے نظریہ کا راسخ اور پیوست ہو نا اس بات کی ضمانت ہو تی ہے کہ یہ اپنا اثر نفوذ کرکے ہی رہے گی۔ نظریہ سے کسی تحریک کے اہداف اور منزل کا تعین ہو تا ہے اور فلسفہ اس نظریہ کی پشت پناہی کرتا ہے ۔ نظریہ کو پیش نظر ر کھ کر ہی پالسیاں اور طریقہ کار وضع کئے جاتے ہیں جنہیں بروے کار لاکر متعین ا ہداف اورمنزل کی طرف پیش قدمی کی جاتی ہے۔ نظریہ دائمی اور مستقل ہو تا ہے جب کہ پالسیاں اور طریقہ کار وقت اور حالات کے پیش نظر تغیر پذیر ہوتے ہیں۔ تحریک کے تقاضے اور مطالبے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ جمود تحریک کے لئے موت ہوتی ہے ۔جمود تحریک کو زنگ آلودہ کر کے ناکارہ بنا کے رکھ دیتا ہے ۔تحریک کے کل پُرزوں کو بے حس کردیتا ہے ۔ جب کہ تحریک حرکت کا نام ہے ، تبدیلی اور تنوع کا نام ہے اور حرکت اس کی رگ و پے میں بھری ہوتی ہے۔ فہم و تدبر انقلابی تحریک کا خا صا ہو تا ہے جسے تخلیقی سوچ ، تنقیدی فکر اور مختلف زاویہ ہائے نظر پروان چڑھتے ہیں۔ جو کسی تحریک ، مہم یاتنظیم کے نظریہ کو نکھار کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے فلسفہ کو مہمیزکر دیتے ہیں ۔ نظریہ اور پالیسی دو مختلف چیزوں کا نام ہے ۔ فلسفہ اور طریقہ کار ایک نہیں بلکہ دو بنیادی اور اہم چیزوں کا نام ہے ۔ پہلا استمراری ہو تا ہے تو دوسرا عبوری۔ پالسیوں اور طریقہ کار سے بسا اوقات نظریہ اور فلسفہ پر دھند ہلاہٹ چھاسکتی ہے لیکن یہ ان کو صفحہ ہستی سے معدوم نہیں کرسکتیں۔ نظریہ غیر مبہم اور واشگاف ہو تو تحریک دیر سویر منزل مقصود پر پہنچ ہی جاتی ہے ۔ لیکن اگر نظریہ ہی مشتبہ اور مبہم ہو تو ہلکی سی رُکاوٹ اور سدراہ اسے نیست نابود کرنے کے لئے کا فی ہوتی ہے ۔ یہ تاریخ کا پڑھا یا ہوا سبق ہے اور تجربہ کی سان پر چڑھی ہوئی دلیل ہے ۔وقتی طور اگر کوئی تحریک ، تنظیم ، مہم یا ادارہ کسی کرشماتی لیڈر، دلفریب نعرہ یا کسی بلند بانگ دعویٰ کی بنیاد پر اپنا دائرہ اثر اور حلقہ قائم کر نے میں کامیاب بھی ہو جائے لیکن واضح نظریہ اور قابل فہم فلسفہ کی عدم مو جودگی میں پانی کے بلبلے کی طرح ہو تی ہے ۔ ہوا کا ہلکہ سا جھو نکا اسے تحلیل کر کے رکھ دیتا ہے۔ نعرے اور دعوے جذبات تو بھڑکاتے ہیں لیکن نظریہ سے عاری  ہو کر یہ بے وزن ہو کر رہتے ہیں۔ نعرہ وہی دیر پا ثابت ہو تا ہے جس کی پُشت پر مستحکم نظریہ اور فلسفہ ہو تا ہے ۔ دعویٰ کے لئے مستند د لیل درکار ہوتی ہے ۔ ذہنی عیاشی اور مفروضہ کی بنیاد پر د عویٰ کر کے لوگوں کو بار بار بہکا یا نہیں جا سکتا ہے۔ نظریہ کا نفوذ عام کر نے میںفلسفہ کا کلیدی رول ہو تا ہے ۔ فلسفہ جتنا عام فہم اورلچک دار ہو اتنا ہی نظریہ لوگوں میں سرایت کر جاتا ہے۔ مدلل نظریہ اگرچہ بسا اوقات طویل عرصہ درکار ہو نے کا مطالبہ سامنے لاکھڑا کرتا ہے لیکن اس میں پائیدار انقلاب اور متوقع تبدیلی ہونے کی ضما نت ہو تی ہے۔ نظریاتی اور نظریہ ساز لو گ عجلت پسندی کے شکار نہیں ہوتے ہیںبلکہ طویل اور صبر آزماء کشمکش اور جدو جہد کے لئے رضا مند ہو تے ہیں۔کسی نظریہ کی حقانیت کا معیار یہ نہیں ہو تا ہے کہ وقت کا سپر پاور اور عوام النا س اسے قبو ل کریںبلکہ وہ برحق اور واشگاف اصول ہوتے ہیں جن پر اُس کی بنیاد قائم ہو ۔
1947ء میںبر صغیر کے تقسیم نے کشمیر مسئلہ کو جنم دیا ہے ۔ تنازعہ نے بین الاقوامی مسئلہ کی صورت اُس وقت اختیار کی جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کے حل کے لئے کئی قراردادیں پاس کیں اور جموں و کشمیر کے لوگوں کو اپنا پیدائشی حق خود ارادیت دینے کا موقعہ فراہم کر نے کی وکالت کی۔ دو نوں ملکوں پاکستان اور بھارت نے اس کی حا می بھر لی اور ان قراردادوں پر اپنے دستخط ثبت کئے۔ جب سے لے کر آج تک جموں و کشمیر کے لوگ استصواب رائے کا مطا لبہ لے کر جد وجہد کر رہے ہیں ۔ ستر سالہ اس جدو جہد کا ہدف صرف حق خو دارادیت کا حصول رہا ہے جو یہاں کے ہر باشندے کا بنیادی حق ہے۔ اس مطالبہ میں جب سے لے کر آج تک ہلکی بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو ئی ہے جس کاثبوت یہاں کے عوام بار بار پیش کرتے آرہے ہیں ۔  یہ الگ بات ہے کہ چند طالع آزماء لیڈر اور افراد اس تحریک کا استحصال کر کے اقتدارا پر براجمان ہو ئے اور اپنے ذاتی مفادات کو حاصل کر نے کے لئے اس جدو جہد کی راہ کو کھو ٹا کر نا چا ہا۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ وہ یہاں کے لو گوںکی اس تحریک کے ساتھ وابستگی اور جذبہ کو ختم نہ کر سکے۔ یہاں کی ہند نواز سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی منشور میں مسئلہ کشمیر کے حل کا نعرہ دے کر لو گوںکو لبھاتے ہیں اور ووٹ بٹور لیتے ہیں لیکن ایک دفعہ اقتدار ان کے ہاتھ میں آجائے پھر وہ وہی بولی بو لتے ہیں جو بھارتی حکومت کی قومی پالیسی ہوتی ہے۔ اقتدار سے با ہر ہو کر نیشنل کانفرنس آٹانو می کی راگ الاپتی ہے لیکن جب وہ اقتدار میں آتی ہے تو وہ ریاستی اسمبلی میں بھاری اکثریت کے ساتھ آٹانو می کی بل پاس تو کر لیتی ہے لیکن دہلی والے اس کو کو ڑے دان کی نذر کرتے ہیں ۔نیشنل کانفرنس یہ اخلاقی جرأت نہیں جُٹا پاتی کہ اس پر اپنی نا راضگی کا اظہار کرتی کجا کہ وہ مرکزی سرکار سے یہ پو چھتی کہ آخر کیونکر ریاستی اسمبلی کی پاس کردہ بل کو ردی کی ٹو کری کی نذر کیا گیا۔ کیا یہ ریاستی اسمبلی کی توہین اور اس پارٹی کی بے عزتی کی بات نہیں تھی؟  اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں اندیشہ لاحق تھا کہ کہیں ا قتدار ان کے ہاتھ سے چلا نہ جائے ۔عزت اور قدر و قیمت مٹی میں مل جائے لیکن اقتدار ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے ان کا وطیرہ رہا ہے ۔ پی ڈی پی جب حکو مت سے باہر ہو تی توسیلف رول اس کا وطیفہ حیات بن جاتا لیکن جو نہی وہ حکومت کی سنگھاسن پر براجمان ہو جاتی تو ان کا یہ نعرہ قصہ پارینہ بن جاتا۔پچھلے چار سالہ عرصہ کے دوران اس پارٹی نے شاذ و نادر ہی اپنے اس منتر کو زبا ن پر لایا ہو گا جس کا استعمال کر کے وہ عوام کو مسحور کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ہند نواز پارٹیاں اس بات سے بخو بی واقف ہیں کہ تحریک حق خو د اردیت سے یہاں کے لوگوں کی ذہنی اور قلبی وابستگی کس قدر گہری ہے اس لئے یہ لو گوں کے عمومی جذبہ اور نفسیات کو مد نظر رکھ کر ایسے نعرے اپنے انتخابی منشور میں شا مل کرکے استحصال کرتے ہیں۔ ان کے یہ نعرے کتنے بھی خو شنما اور دلفریب رہے ہو ںلیکن پچھلے ستر سالوں سے جاری جدو جہد کے نظریہ کو متاثر نہیں کر سکی ہیں۔اس جدو جہد کا نظریہ اگرکمزور ہو تا تو شاید یہ ساتھ دہائیوں تک زندہ نہیں رہتا ۔ ہر آنے والی نئی نسل اس نظریہ کو اپنے سینہ سے نہیں لگاتی۔ یہ کوئی مبا لغہ آرائی نہیں ہوگی اگر ایسا کہا جائے کہ اس جدوجہد کا نظریہ گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ مستحکم ہو تا آیا ہے۔ آٹانومی، سیلف رول یا اس جیسے دوسرے بے وزن نعرے حق خودارادیت کی تحریک کے متوازی اور مد مقابل ان قوتوں کی بھر پور سپورٹ کے ساتھ منصہ شہود پر لائے گئے ہیں جو یہاں کے لوگوں کے اس حق کو بزور بازو سلب کئے ہوئے ہیں ۔ یہ نعرے حق خود ارادیت کے مطالبہ کو کمزور کر نے اور اسے پھیکا بنا نے کے لئے ہی وجود میںلائے گئے ہیں۔ علاقائی، گرو ہی یانسلی بنیادوں پر جمو ں و کشمیر کے عوام کو بانٹ کر اس نظریہ میں خم اور ضعف پیدا کرنا براہ راست اس کی بنیادوں کو متزلزل کر نے کی منصوبہ بند کو شش ہے۔ جو لوگ ایسے بیانیہ کو فروغ دے رہے ہیں وہ دانستہ یا نا دانستہ طور اس تحریک کے بہی خواہ ہو نے کے بجائے بد خواہ ہو نے کا رول ادا کر رہے ہیں ۔ جو بہر حا ل اس تحریک کے ازلی مخالفین کے بیانیہ کو تقویت بخشتا ہے۔ اس تحریک کا نظریہ اور فلسفہ اظہر من الشمس ہے کہ یہاں کے لوگوں کو ان کے مستقبل کا جمہوری انداز سے فیصلہ کر نے کا حق دیا جائے اور جمہوریت بہرکیف اکثریت کی رائے کی قبولیت اور احترام کی روادار ہے ۔ جمہوریت نوازی کا تقاضا ہے کہ غالب اکثریت کی رائے کو بے چون و چرا قبول کیا جائے۔ جمہوری اور جمہوریت نواز یہاں پر جمہوریت کے اس اصول کو معطل نہیںکر سکتے ہیں۔ ایسا کر نا کھلی منافقت ہے ۔ فرضی خطوط نقص کھینچ کر لوگوں کے اندر کنفیوژن کرنے کا کام بہت پہلے سے انجام دیا جاتا رہا ہے اور ہنوز جاری ہے۔
جموں وکشمیر چونکہ مسلم اکثریتی خطہ ہے ۔ یہاں کی مجموعی آبادی عمومی طور مذہبی رجحانات کی حا مل رہی ہے اور ہرمسئلہ کو اسی پیرایہ اور تناظر میں دیکھتے ہیں۔ رواں جدوجہد میں بھی یہ عنصر غا لب رہا ہے۔ جدو جہد میں مختلف محاذوں پر اپنی شمولیت کو اپنی ذمہ داری کے علاوہ فریضہ سمجھتے ہیں۔ بنیادی غرض و غایت یہی پیش نظر رہا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو اپنے مستقبل کے بارے میںخود فیصلہ کرنے کا موقعہ ملنا چا ہئے ۔ یہ یہاں کا زمینی اور حقیقی بیانیہ ہے ۔ لیکن کچھ کر م فرما جدوجہد کے اس غرض و غایت کو مشتبہ کر کے اس کو دھندہلاہٹ کا شکار بنا نے پر تلے ہوئے ہیں ۔ قبل از وقت نت نئے اعتراضات کو ہوا دے کر فی الاصل اصلی بیانیہ کو مسخ کر نے کا کام کر رہے ہیں ۔ آزادی کے نعرہ کو لے کر قیادت اور لو گوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ آزادی کا مطلب یہاں کے لو گوں کے پاس صرف یہی ہے کہ اس جبری قبضہ کو ختم کیا جائے جو یہاں کے لو گوں کے مرضی کے خلاف ہے۔ جسے یہاں کے لو گوں کے سیاسی ، اقتصادی ، سماجی اور انسانی حقوق سلب کئے جا چکے ہیں۔ تہذیبی اقدار اور مذہبی فریضوں کی ادائیگی کو اپنی مرضی سے ادا کر نے پر قدغنیں لگی ہوئی ہیں۔ثقافت اور تہذیب کو زبردستی متاثر کر نے کی کو ششیں کی جارہی ہیں۔ آزادی کے معنی و مفہوم کو لے کر کوئی مغالط لو گوں کے اندر نہیں پایا جاتا ہے ۔آزادی کے نعرے کے بالمقابل یہاں کئی اور دل فریب نعرے ہند نوازوں کی طرف سے وقتاً فو قتاً متعارف کئے جاتے رہے ہیں لیکن نہ انہیں کوئی سماجی تقدس حا صل رہاہے اور نہ ہی وہ زیادہ دیر تک آزادی کے نعرے کے سامنے ٹکنے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ نعرے صرف اپنی نوعیت میں استحصالی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے وقتی حربے ثابت ہو چکے ہیں۔ جدو جہد آزادی کے نظریہ کاحق بجانب ہو نے کا معیار ہر گز یہ نہیں ہے کہ عالمی طا قتیں اور نا م نہاد عدل و انصاف کے ادارے اسے حق مان لیں بلکہ وہ تاریخی پس منظر اور آرزو اور امنگ ہیں جو یہاں کے لوگوں کے قلب و ذہن میں جا گزیں ہیں اور رگ رگ میں رچا بسا ہے ۔ جسے پانے کے لئے اس قوم نے آج تک کسی بھی قربانی پیش کر نے سے دریغ نہیں کیا ہے۔تحریک کی کا میابی کا راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ قیادت اور لوگوں کی طرف سے کسی تھکاوٹ اور جھکاو و بکاو کا مظا ہرہ نہ ہو۔ مخالف قوتوں کی طرف سے منصوبہ بند طریقے سے منفی سوچ اور یاس وقنوط کی فضا قائم کرنے کے ذہنی و نفسیاتی جارحیت اور یلغار سے کم ہمتی کے شکار نہ ہوں۔ 
نظریہ کی آبیاری اور حصول کے لئے طریقہ کار اور پا لیسیاںحالات کے پیش نظر بدلتی رہتی ہیں ۔ اس میںقیادت کا اہم رول ہو تاہے ۔ وہ ہو ش بینی کے ساتھ طریقہ کار مرتب کرتے رہیں اور عوام الناس کو اس کو عملانے کے لئے موثر انداز میں ابھارتے رہیں۔ بسا اوقات کوئی پالیسی خطا بھی ہوتی ہے ۔ ایسے حالات میں تجزیہ اور غورو فکر کر کے اسے رجوع کر نا بھی تحریک کا اہم حصہ ہو تا ہے۔عوامی بیداری کے اس دور میں قیادت محاسبہ سے خود کو نہیںبچا سکتی ، بلکہ ہر قدم پر ان سے سوالات پو چھے جا سکتے ہیں جسے تحریک اور قیادت دونوں میں نکھرنے کے مواقع پیدا ہو ں گے۔ نظریہ سازی ہو گی ۔ پالسیوں اور طریقہ کار میں جدت کے مواقع فراہم ہوں گے۔ انقلابی تحریکوں میں نظریہ سازی اور پالیسی سازی نا گزیر ہوتی ہے۔