مئی ۲۰۱۴ء سے پہلے ملک عزیز کے جو گھمبیر حالات تھے وہ آج بھی ویسے ہی ہیں یا ان میں کچھ تبدیلی آئی ؟ ملک نے معاشی طور پر ترقی کی ہے یا تنزلی اس کا مقدر رہی ؟ معاشرتی حالات میں بہتری آئی یا لوگوں میں بے چینی ہے؟ملک میں افراتفری ہے یا امن و آشتی ؟لوگوں کی زندگیاں بہتر ہوئیں یا بدتر ہوئیں ؟ ملک کی خارجہ پالیسی مضبوط ہوئی کہ ملک نیم جان ہوا؟آج کے کالم میں ایک ایک کرکے مختصراً ہم اِن تمام سوالوں پر غور کریں گے، اس ضمن میں کشمیر کا موضوع اولیت کا حامل ہوگا۔ زمینی حالات کے حوالے سے جو فیڈ بیک کشمیر سے مل رہاہے ہیں وہ بڑا ہی مایوس کن اور خوف ناک ہیں۔مودی جی کی کشمیر پالیسی بری طرح ناکام ہے اور وہاں جنگجوؤں کی تعدادپہلے سے زیادہ بڑھی ہے اوروہ بھی مقامی عسکریت پسند۔پولیس کے ساتھ ان کے تصادمات میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔جنگجوؤں کے ساتھ عام شہری بھی مارے جارہے ہیں ، فوجیوں اور پولیس کی خاطر خواہ تعداد جھڑپوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔غرض کشمیر میںانسانیت پِٹ رہی ہے ۔آج اس موقع پر آنجہانی اٹل جی کی بہت یاد آرہی ہے۔کسی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں ملک کا سب سے اچھا وزیر اعظم کون تھا؟ایک لمحہ ضائع کئے بغیرہم نے اٹل جی کا نام لیا۔ویسے اندرا گاندھی سے لے کر منموہن سنگھ اور اب نریندر مودی کے ادوار کو پورے ہوش و گوش سے دیکھے لیکن اٹل جی کا انتخاب اول نمبر پر کرنا دل کی آواز ہے۔خود این ڈی اے(نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ جس کی قیادت بی جے پی کر رہی ہے) کے پارٹنرز علی الاعلان کہتے رہے ہیں کہ ہمیں اٹل جی والا این ڈی اے چاہئے۔اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ مودی اور امیت شاہ کواور ان کے کام کرنے کے طور طریقوںکو قطعی پسند نہیں کرتے۔۲۰۱۹ء کے عام چناؤ میں اگر بی جے پی کی سیٹیں کم آتی ہیں تو مودی (یا امیت شاہ) کسی بھی حال میں وزیر اعظم نہیں بن پا ئیںگے۔این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں کا یہی اشارہ ہے اور اس وجہ سے دونوں ہی بڑے حیران و پریشان ہیں۔ایک بنگال بھاگ رہا ہے تو دوسرا اپنی تقریروں اور طویل انٹریو میں مہا گٹھ بندھن کو ’’ناپاک اتحاد‘‘ کا نام دے رہا ہے۔
اب کوئی یہ کہے کہ اٹل جی کی مجبوری تھی اور وہ ایک ملی جلی سرکار چلا رہے تھے جس میں پچیسوں پارٹیاں شامل تھیں۔اسی لئے انہیں نرم رہنا ہی تھا لیکن مودی جی چونکہ اکثریت سے جیت کر آئے ہیں تو ان کے اندر اہنکا رکا آنا لازم ہے۔یہ بہت ہی بے تکی بات ہے۔الیکشن سے پہلے بی جے پی نے اتحاد کرکے چناؤ لڑے تھے توان اتحادی پارٹیوں کا اتنا ہی حق بنتا ہے جتنا کہ بی جے پی کا۔یہ اور بات ہے کہ بی جے پی کو اکیلے اپنے دم پر اکثریت آگئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی اتحادی پارٹیوں کو لائقِ اعتنا ہی نہ سمجھے جیسا کہ مودی اور امیت شاہ نے مسلسل چار برسوں سے کر تے رہے۔آخر اس برس میں انہیں اس وقت ہوش آیا جب ایک ایک کرکے اتحادی بھاجپا چھوڑ کر جانے لگے۔اسی تناظر میں بھاجپا نے راجیہ سبھا کا ڈپٹی اسپیکر نتیش کمار کی پارٹی کے ایم پی کو بنایاتاکہ نتیش جے پی کے ساتھ ہی رہیں۔یہ جوڑ توڑ چناؤ میں بھی کام آئے گا ؟ ایساکچھ کہا نہیں جا سکتا۔اٹل جی کے تعلق سے مشہور ہے کہ وہ سب کو ایک ساتھ لے کر چلنے والے نیتا تھے۔ان کا سیاسی فہم اعلیٰ درجے کا تھا۔مسلمانوں سے انہیں نفرت نہیں تھی،وہ انہیں دیش کا اٹوٹ انگ سمجھتے تھے۔۲۰۰۲ ء کے گجرات بدنام زمان مسلم کش فسادات کے دوران انہوں نے مودی کو ’’راج دھرم‘‘ نبھانے کی بات کہی تھی جو اُس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔اٹل جی ہر دلعزیزرہنما تھے اور پارٹی لائن سے بالاتر عوام کی خدمت کرتے تھے ،خواہ پارٹی ناراض ہی کیوں نہ ہو۔یہی سبب ہے کہ تمام لوگ انہیں ووٹ دیتے تھے، یہاں تک کہ مسلمان بھی۔کیا یہ بات مودی جی کے بارے میں کہی جا سکتی ہے؟ہرگز نہیں۔
یہ پنی جگہ درست ہے کہ مودی اور امیت شاہ کی خودپسندانہ پالیسیوں نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔پڑوسی ممالک ہم سے دور ہو گئے ۔نیپال جو ہمارا تھا وہ اب چین کے ساتھ کھڑا ہے۔مالدیپ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہندوستان اپنے جہاز واپس منگوا لے۔سری لنکا اور بھوٹان بھی چین کے ہم نوا ہوگئے ہیں۔پاکستان کی بات ہی نہیں جا سکتی کیونکہ مودی جی نے پاکستان کو کنارے لگا دینے میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے،اس لئے اسلام آباد سے دوستی ہو ہی نہیں سکتی۔چین سے ہمارے رشتے اب تک کی سیاسی تاریخ میں سب سے نچلی سطح پر ہیں۔امریکہ سے رشتے بنانے کے چکر میں ہم نے روس جیسا فطری اتحادی بھی کھو دیا اور امریکہ بھی ہم سے کم و بیش دور ہو گیاہے ع یعنی نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ۔ یوں ملک کو ایک عجیب دوراہے پر لاکر چھوڑ دیا گیاہے۔اگرچہ مودی جی اپنی کالر ٹائٹ کرتے رہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہندوستان کا دنیا بھر میں نام ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ’’مودی میڈنام ‘‘سے ملک کوکچھ بھی حاصل نہ ہوا ۔ اس کے برعکس یہ خیالی’’نام‘‘ بنانے میں ٹیکس دہندگان کا اربوں روپے غیر ملکی اسفار میں ضائع ہوئے۔
ملک کی داخلی صورت حال حددرجہ افراتفری کا شکار ہے۔یوپی،بہار،مہاراشٹر،راجستھان،ایم پی، ہریانہ ، آسام و تریپورہ نظم و نسق کے معاملے میں پوری طرح ناکام ہیں اور یہ وہ صوبے ہیں جہاں پر بی جے پی حکومت میں ہے ۔کشمیر میں گورنر راج ہے۔بڑے ہی طمطراق سے بی جے پی نے یہاں حکومت سازی کی تھی لیکن اپنے فائدے کے لئے اس نے ملک سے کشمیر اور کشمیریوں کو دورکر دیا۔ حال ہی میںکانگریس کی جو کشمیر کے بارے میں پالیسیاں رہیں ،وہ کم وبیش ملک کیلئے ٹھیک ٹھاک رہیں۔کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ کانگریس کی وجہ ہی سے کشمیر ہندوستان کا حصہ رہ پایا، ورنہ مودی برانڈ پالیٹِکس کشمیر کو ملک سے الگ کر دے گی ۔ بہرحال اگر بالفرض ۲۰۱۹ء میں مودی جی دوبارہ آگئے تو کشمیر ہمارے ہاتھ سے ہی نکل جائے گا۔مودی نے ملک کے دیگر حصوں میں تو مسلمانوں کی معیشت( جسے وہ شاید ملک کی معیشت نہیں سمجھتے) کو ٹارگیٹ کرکے تباہ و برباد کردیا ہے، مثلاً ہینڈلوم ،پاور لوم،گوشت اور چمڑے سے جڑے کاروبار وغیرہ ۴؍ برسوں میں زمین بوس ہو گئے ۔بھیونڈی، مالیگاؤں،بنارس جو مودی کا ہی حلقۂ انتخاب ہے،علی گڑھ،فیروزآباد،کانپوروغیرہ میں مسلمانوں کی کمریں ٹوٹ گئی ہیں۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار الگ سے ہے۔ان کے علاوہ کشمیر ایک واحد ریاست ہے جہاں مسلمان اکثریت میںہیں اوراس کی معیشت ’’سیاحت‘ ‘پر ٹکی ہوئی ہے۔وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی بار ۲۰۱۴ء ہی میں جب مودی جی کشمیر کے دورے پر گئے تو اپنی تقریر میں کہا ’’کشمیریو!تم کو ٹیررزم چاہئے کہ ٹورزم؟‘‘۔ کیا ایک جمہوری ملک کے پی ایم کو یہ شوبھا دیتا ہے کہ وہ اس طرح کا بیان دے؟وہ دن اور آج کا دن! کشمیر بُری طرح مجروح ہے۔اس سے قبل منموہن سنگھ کی حکومت نے کشمیر کو بحسن و خوبی سنبھالا کہ بہت حد تک جنگجوئیت کم ہو گئی تھی۔کشمیری بھی مین اسٹریم سے جُڑنے لگے تھے لیکن لگتا ہے کہ مودی جی نے ووٹ بنک سیاست کے تحت یہ ڈائیلاگ مارا تاکہ کشمیر اور اس کی مسلم آبادی پریشان ہو جائے۔ مبینہ طورمنطق یہ ہے کہ جب کشمیری عوام کسمپرسی اور بھکمری کا شکار ہوں گے ،تبھی وہ گھٹنے ٹیک دیں گے۔آج کشمیر جنت نظیر میں شعبہ ٔ سیاحت صفر ہے اور مودی حکومت نے دور افتادہ لیہہ-لداخ کو پرموٹ کرنا شروع کر دیا ہے جہاں پر سچ پوچھئے تو دیکھنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔وہاں آکسیجن بھی کم ہے جس کی وجہ سے سیاحوں کا دم گھٹنے لگتا ہے،لیکن سیاح کشمیر ہزار بار جانے دل سے جانا چاہتے ہیں کیونکہ کشمیر کا جغرافیہ ہی اللہ نے خوب بنایا ہے!میڈیا بھی لیہہ لداخ کو پروموٹ کرنے کے ساتھ ہی کشمیر کی شبیہ داغ دار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا۔سرینگر سے کوئی ۲۰۰؍کلومیٹر دور کوئی ناخوشگوار واردات ہو تو میڈیا صرف کشمیر بتاتا ہے جس سے لوگ باگ یہ سمجھتے ہیں کہ سرینگر میں حالات ٹھیک نہیں ۔ملک کے بعض موقر انگریزی اخبار اس میں پیش پیش رہتے ہیں اور صفحۂ اول پر ایسی خبریںچھاپتے ہیں تاکہ کشمیر کی سیاحت ختم ہو جائے۔ اس جھوٹے پروپگنڈے سے کشمیر کو معیشی طور خستہ حال بنا یا جارہا ہے۔ مزیدبرآںیہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ قانون ساز اسمبلی کو معطل رکھ کراوراننت ناگ کی پارلیمنٹری سیٹ کے ضمنی انتخاب کو موخر کرکے مرکز جموں کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کرا رہاہے تاکہ جموں اور لداخ ریجن میں اپنی حکومتیں بنا سکیں جس سے بھاجپا کوبوسٹ اَپ ملے ۔ وادیٔ کشمیر میں تو بہانے اور بھی ہیں تاکہ الیکشن ہی نہ ہوسکے اور بلدیاتی حکومتیں قائم نہ ہو ں۔یہ ایک سوچی سمجھی منفی حکمت عملی ہے جس پر سنگھ عمل کروا رہا ہے اور بی جے پی اس کے نفاذ کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ اس لئے آنے والے دنوں میں وادی میں حالات مزید بگڑنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں کشمیر کے درد کو سمجھنے والے اور کشمیریت ، جمہوریت اور انسانیت کا نعرہ دینے والے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی یاد آتی ہے ۔