وادی میں آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا قیام ہنوز ایک خواب بنا ہوا ہے کیونکہ 7سال گزر جانے کے باوجود بھی تاحال اس وقاری ادارہ کا تعمیری کام شروع نہیں کیاجاسکا ہے ۔خیال رہے کہ سات نومبر2015کو وزیراعظم نریندر مودی نے اونتی پورہ میں ایمز کے قیام کا اعلان کیاتھااور مرکزی حکومت نے 1828کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت سے اس پروجیکٹ کو منظوری بھی دی تھی ۔اس طرز کا ایک انسٹی چیوٹ جموں کو بھی دیاگیاتھا جس کیلئے وجے پور سانبہ کا انتخاب عمل میں لایاگیاتھا اور وہاں تعمیری سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیںتاہم افسوس کا مقام ہے کہ کشمیر میں اس انسٹی چیوٹ کے قیام کے سلسلہ میں سرد مہری کا مظاہرہ کیاجارہا ہے اور ابھی ٹیندر نگ کے عمل سے بھی آگے نہیں بڑھ پارہا ہے۔ایمز کے قیام کیلئے اونتی پورہ میں تعمیراتی ایجنسی سینٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو 1886کنال اراضی بھی دستیاب کرائی گئی تاہم حیرت کا مقام ہے کہ ابھی تک اس اراضی کی دیوار بندی تک نہیں کی گئی ہے۔مجوزہ ایمز اونتی پورہ میں750بسترے ہونگے جبکہ روزانہ کی بنیادوںپر 1500مریضوں کا اوپی ڈی میں علاج ہوسکتا ہے ۔اس کے علاوہ ایمز کے ساتھ میڈیکل کالج اور نرسنگ کالج بھی ہوگا جہاں کم ازکم 100ایم بی بی ایس اور60بی ایس سی نرسنگ نشستیں مخصوص رکھی جاسکتی ہیں جن سے طبی شعبہ میں افرادی قوت کی قلت کے مسئلہ پر بھی قابو پایا جاسکتا تھا تاہم فی الوقت زمینی صورتحال یہ ہے کہ اس وقاری پروجیکٹ پر کام تک شروع نہیںہوپارہا ہے جبکہ2025میں اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی ہے۔جموں میں ایمز کی تعمیر میں جس سرعت کا مظاہرہ کیاجارہا ہے ،وہ باعث رشک ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ مقررہ وقت سے قبل ہی اُس کی تعمیر مکمل ہوگی اور ہونی بھی چاہئے تاکہ جموں باسیوں کو اس کا فائدہ مل سکے تاہم حقیقت یہ بھی ہے کہ جموں کی نسبت کشمیر کو اس ادار ے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ کشمیر کے جغرافیائی حالات جموں کی نسبت یکسر مختلف ہونے کے علاوہ جموں کے مقابلے میں ملک کے مختلف علاقوں میں قائم اعلیٰ طبی اداروں تک کشمیر کی رسائی انتہائی کٹھن ہے ۔ویسے دیکھا جائے تو سست روی کشمیر کی روایت ہی رہی ہے ۔سینٹرل یونیورسٹی کے قیام کی جب باری آئی تو وہ کشمیر کو ملی لیکن جموں میں حسب روایت ایجی ٹیشن چلی اور بعد میں سابق یوپی اے سرکار نے جموں میں بھی سینٹرل یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا ۔گوکہ کشمیر میں ابھی گاندربل میں سینٹرل یونیورسٹی کی تعمیر جاری ہی ہے جس کے چلتے یونیورسٹی سرینگر کے مختلف مقامات پر عارضی بنیادوںپر چل رہی ہے ،جموں میں اس یونیورسٹی کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے اور وہاں درس و تدریس کا نظام بھی کب کا شروع ہوچکا ہے ۔اسی طرح جموں کو آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم بھی ملا جبکہ انڈین انسٹی چیوٹ آف ماس کمیو نی کیشن بھی جموں کے حصے میں ہی گیا اور وہاں یہ ادارے قائم بھی ہوچکے ہیںلیکن کشمیر کے کھاتے میں آہوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور کشمیریوں کو بھیک کے چند ٹکڑوں پر اکتفا کرنے پر مجبور کیاجارہا ہے ۔ اس صورتحال میں نہ خدا ہی ملا ،نہ وصال صنم کے مصداق کشمیری عوام اپنے آپ کو بے یارومدد گار محسوس کررہے ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری عوام کی داد رسی نہیں ہوپائی ہے ۔مرکزی اکابرین کو سمجھ لینا چاہئے کہ ترقیاتی عمل میں یہی سست رفتاری اور جوابدہی کا فقدان کشمیرکو مسلسل مین سٹریم سے دور لے جارہاہے اور اگر سست روی کی پالیسی کا سلسلہ جاری رہے تو اس کے نتیجہ میں تلخیاں بڑھ سکتی ہیں۔اس سے پہلے کہ ایسی صورتحال درپیش ہو،ابھی بھی وقت ہے کہ مرکزی ارباب حل و عقد ہوش کے ناخن لیکر کشمیری عوام کے صبر کا مزید امتحان لئے بغیر انہیں وہ سبھی سہولیات بروقت میسر رکھیں جن کے وہ حقدار ہیں۔امید کی جاسکتی ہے کہ دلّی کے اقتدار پر براجماں لوگ معاملات کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے فوری طور اصلاحی اقدامات کریں گے تاکہ نہ صرف ایمز کا قیام مقررہ وقت تک شرمندہ تعبیر ہوسکے بلکہ دیگر وقاری پروجیکٹ بھی بنا کسی مزیدتاخیر کے تکمیل کو پہنچ سکیں جن سے کشمیری لوگ مستفید ہوسکتے ہیں۔