۔3فروری 2019 ء کو وزیر اعظم نریندر مودی نے لداخ، جموں اور کشمیر کا ایک طوفانی دورہ کیا۔ طوفانی اس لئے کہ انہوں نے اتنے ترقیاتی پروجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھا، کہ وہ سب اگر واقعی اُن کے دور اقتدار میں، جس کی معیاد اب کچھ ہی مہینے ہے، مکمل ہوتے ہیں تو میں ایمانداری سے اگلے پارلیمانی انتخاب میں اُنہیں کو ووٹ کروں گا۔ لیکن میں بھی جانتا ہوں اور وہ بھی مجھ سے بہت بہتر جانتے ہیں کہ ایسا ہونے والا نہیں۔
اقتدار کی مدت کے اختتام پر حکمران جن پروجیکٹوں کا افتتاح کرتے ہیں، اُن کی مثال اُس ہو ا ئی پمپ جیسی ہوتی ہے جو دمے کے مریض اکثر استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہوائی پمپ کچھ دیر کیلئے سہولت کا سبب تو بنتے ہیں، لیکن کُلی طور مرض سے نجات نہیں دلاتے۔ہاں اس پمپ سے ایک امید بندھ جاتی ہے کہ کل شاید بہتر ہو۔ اور ایسا لگتا ہے کہ وہی امید جگانے کیلئے مودی جی انتخابات سے قبل جموں و کشمیر تشریف لائے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے دور اقتدار میں بہت بار کشمیر آئے لیکن وہ اٹل بہاری واجپائی کی طرح کوئی ایسی بات نہیں کہہ پائے جو اُنہیں کشمیریوں کے دل کے قریب لے آتی اور شاید اُ ن کے کسی صلح کارنے اُن کو یہ نہیں بتایا تھا کہ کشمیر شہرت کا قبرستان ہے ۔(Kashmir is graveyard of reputations)اور اس شہرت کے قبر ستان میں ان کے ایک ذرا سا ہاتھ ہلانے سے آج پوری دنیا میں میڈیا اور موشل میڈیا پر اُن کی کھلی اُڑائی جارہی ہے۔
مہاتما گاندھی سے لے کر پنڈت جواہر لال نہرو تک اور شیخ محمد عبداللہ سے لے کر محبوبہ مفتی تک کشمیریوں نے ہر لیڈر کے بارے میں اپنا سفاکانہ فیصلہ دے رکھا ہے۔ مودی کو شاید کسی نے نہیں بتایا کہ جب کشمیری گاندھی، نہرو، شیخ عبداللہ، فاروق، عمر، مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کے بارے اتنے سفاک ہو سکتے ہیں، تو وہ بھلا اُنہیں کیسے معاف کر سکتے ہیں۔ لیکن مودی جی مودی جی ہیں۔ وہ تو اپنی کرکے ہی رہیں گے اور اُنہوں نے کوشش بھی وہی کی۔
لداخ گئے، جہاں ان کی پارٹی کے ایم پی پارٹی سے ناراض ہوکر مستعفی ہوگئے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کیں۔ جموں گئے، جہاں ان کی پارٹی کے ایم ایل اے صاحبان کا حال بہت ہی برا ہے، وہاں بھی بڑی بڑی باتیں کیں ۔ کشمیر آئے ، جہاں اُن کی پارٹی کا کوئی ایڈریس نہیں،یہاں بھی بڑی بڑی باتیں کیںاور ہوا میں ہاتھ لہرا کر چلے گئے۔ (در اصل مودی جی فقط بڑی بڑی باتیں ہی کر سکتے ہیں، عام لوگوں کی باتیں کرنا اُن کو آتا نہیں۔یہ صاحب امبانی اور ایڈانی جیسے لوگوں کی محفلوں میں اُٹھتے بیٹھتے ہیں بھائی، عام لوگوں کی بھاشا کیا سمجھیں گے)۔
مودی جی کی ہاتھ ہلانے والی تصویر ہر جگہ مذاق کا مو ضوع بنی ہوئی ہے۔ تصویر دیکھ کے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ لوگوں کو دیکھ کے ہاتھ ہلا رہے ہیںلیکن لوگ تو بیچارے گھروں میں بند تھے۔ اُن پر تو باہر نہ آنے کی پابندی لگا دی تھی مودی کی انتظامیہ اور مزاحمتی قیادت نے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب لوگوں کو باہر آنے سے روکنا ہو، تو سرکاری انتظامیہ اور مزاحمتی قیادت ایک جیسا پروگرام ایشو کرتی ہیں۔ مزاحمتی قیادت ’مکمل ہڑتال‘ کی کال دیتی ہے اور سرکار نقل و حرکت پر پابندی عائد کردیتی ہے۔ کبھی کبھی شک ہوتا ہے کہ ۔
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
خیر، آمدم بر سر مطلب۔ یہ مودی جی کن کیلئے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ وہاں کوئی تھا نہیں۔ لوگوں کو تو سرکار اور مزاحمتی قیادت نے گھروں میں مقید کر دیا تھا۔ پھر یہ ہاتھ ہلانے کا کیا پنگا تھا۔حالانکہ کچھ لوگ مودی جی کا مذاق اُڑارہے ہیں کہ وہ ’ایں،ویں‘ ہوا میں ہاتھ لہرا رہے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں کہیں گے۔ وزیر اعظم ہیں ہمارے۔ کچھ نہ کچھ تو دیکھا ہوگا جس کو دیکھ کے ہاتھ ہلا رہے ہیں۔مودی جی کبھی ’این ویں‘ کچھ نہیں کرتے۔ اُن کی ہر حرکت بڑی نپی تولی ہوتی ہے۔ہو سکتا ہے کہ وہ جو کیمرہ کریو اُن کو شوٹ کر رہا تھا، اُس کو بدھائی دے رہے ہوں، ہوسکتا ہے کہ جو ڈل جھیل کے آس پاس پولیس اور پیرا ملٹری کے لوگ تعینات تھے، اُن کی ڈھارس بندھا رہے ہوں۔ کوئی تو تھاجس کو دیکھ کے وہ ہاتھ ہلا رہے تھے۔
مودی جی صرف ہمارے وزیر اعظم ہی نہیں، یہاں کی مچھلیوں کے بھی وزیر اعظم ہیں،یہاں کے آبی پرندوں کے بھی وزیر اعظم ہیں ۔ تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ ان پرندوں اور مچھلیوں کو دیکھ کے ہاتھ ہلا رہے ہوں۔ اور کیا پتہ جواب میں یہ مچھلیاں اور پرندے ’مودی، مودی‘ کے نعرے بلند کر رہے ہوں۔اور وہ نعرے مودی جی کو صاف سنائی دے رہے ہوں۔
مودی جی کا انسانوں کے علاوہ باقی سبھی کے ساتھ خاصا لگائو ہے۔ اُن کی گائے سے محبت دیکھ لیجئے۔ اُن کے بھگت گائے کے نام پر کتنے اخلاقوں کا خون بہاتے ہیں، کیا کبھی مودی جی کے کان پر جُوں بھی رینگتی ہے۔ ڈل کی مچھلیوں کو اور آبی جانوروں کو شاید مودی جی کی گائو بھگتی کی خبر لگ چکی تھی، اس لئے اپنے آپ کو بھی مودی جی کے پیار میں ساجھے دار بنانے کیلئے اُنہوں نے ڈل میں اُن کو دیکھ کر ’مودی مودیـ ‘ کے نعرے لگانے شروع کر دئے اور مودی جی خوش ہر کر ہاتھ ہلانے لگے۔
ہوا میں ہاتھ ہلانے کا مرض تو ہر سیاست دان کو لگا ہوا ہے۔ پھر بھلے کوئی جواب میں ہاتھ ہلائے یا نہیں۔لیکن یہ کشمیر ہے۔ یہاں موت ہر پل زندگی کا تعاقب کر رہی ہے۔ یہاں ہر روز جنازے اُٹھتے ہیں۔ یہاں بیویاں بیوہ ہو رہی ہیں، والدین اولاد کو کھو رہے ہیں، بچے ماں باپ کے سائے سے محروم ہو رہے ہیں، بہنوں کے بھائی مر رہے ہیں اور بھائیوں کی بہنیں قتل کی جا رہی ہیں۔ یہاں مودی ہاتھ ہلائے یا عمران خان، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
عام کشمیری کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ میر واعظ کو فون کرے یا سید علی گیلانی کو۔دہلی والے عمر عبداللہ کو لیڈر بنانے کی کوشش کریں یا محبوبہ مفتی کو، سجاد لون کو یا کسی اور کو۔ الیکشن وقت پر ہوں یا تاخیر سے، گورنر راج نافذ ہو یا عوامی راج۔ہاں اُسے فرق پڑتا ہے جب ہندوستان والے اپنے فوجیوں، پولیس والوں اور دیگر فورسز کی ہلاکتوں پر واویلا کرتے ہیں اور جب پاکستان اور کشمیر کی علیحدگی پسند تنظیمیں ’اپنے مجاہدین ‘ کی ہلاکت پر سینہ کوبی کرتے ہیں لیکن کوئی بات نہیں کرتا ہے جب ایک نوجوان عورت کو قتل کرکے اُس کے قتل کا ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر