سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں چند نقاب پوش نوجوانوں نے منبر پر چڑھ کر داعش کا پرچم لہرایا اور دولت ا لا سلامیہ کے حق میں نعرے بلند کئے تو وادی میں ہر جانب سنسنی پھیل گئی۔ لوگ مختلف سوشل میڈیا پر دم بخود ہوکر اس واقعہ کا ویڈیو دیکھتے رہے اور صرف سرگوشیوں میں ہی اس پر تبصرہ کرتے رہے۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا، اس دن کسی نے کھل کر اس واقع پر کسی طرح کا تبصرہ نہیں کیا۔ ہاں، جب دوسرے دن اوقاف جامع نے اس واقعے کی مذمت کی اور مزاحمتی قیادت نے بھی لب کشائی کی، تو لوگ بھی اس پر بات کرنے لگے۔
عام لوگ اس واقعہ کو لے کر تذبذب کا شکار ہیں۔جامع مسجد سرینگر کے ساتھ کشمیر وادی کے ہر شخص کی بہت ہی گہری روحانی وابستگی ہے۔کرناہ سے قاضی گنڈ تک اور پہلگام سے پوشکر تک، وادی کے ہر مسلمان کے لئے سرینگر کی جامع مسجد اُمت مسلمہ کی وحدت کی ایک ایسی نشانی ہے جو صدیوں سے خوشگوار اور تکلیف دہ، پُر امن اور پُر تشدد، دوستانہ و دشمنا نہ موسموں کو سہتی ہوئی مسلمانوں کے روحانی سکون کا ایک مرکز رہی ہے۔ 1394 میں تعمیر کی گئی یہ مسجد فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور صدیوں پہ محیط کشمیر کی تاریخ کا ایک ایسا گواہ ہے جس نے کشمیر پر ہوئی زیادتیوں کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ خود بھی سہا ہے۔
29 دسمبر2018، نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد میں جو کچھ ہوا،یہ مسجد کے تقدس کو پامال کرنے کی ایک گھنائونی سازش تھی اور اس سا زش کو بے نقاب کرنے کی ذمہ داری سرکار اور مزاحمتی قیادت پر ہی نہیں بلکہ اُن سب لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کی اس تاریخی مسجد کے ساتھ روحانی و جذ باتی وابستگی ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ اس گھنائو نے واقعے نے کچھ ایسے سوالوں کو بھی جنم دیا ہے جن کا جواب اگر جلدی نہیں تلاشا گیا تو مستقبل میں نہ جانے ایسے واقعات کہاں کہاں پیش آئیں گے اور کونسا رُخ اختیار کریں گے۔
جامع مسجد میں جو جھنڈے لہرائے گئے وہ کشمیر کی سر زمین پر پہلی بار نہیں دیکھے گئے۔گذشتہ ایک دو سال سے یہ جھنڈے وادی کے طول وارض میں لہرائے جارہے ہیں۔ احتجاجی مظاہرے ہوں یا ہلاک شدہ جنگجوئوں کے جنازوں کے جلوس، یہ سیاہ پرچم ہر موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ جلسوں اور جلوسوں میں پرچم لہرانا ایک بات ہے لیکن مسجد میں ایسا کرنا قطعی جائزنہیں لیکن اس جھنڈے کے پیچھے چھپے نظرئے اور سیاست کیلئے کیا کشمیر میں کوئی گنجایش ہے؟ اگر مزاحمتی قیادت کا یہ ماننا ہے کہ ایسے نظریات کی کوئی گنجائش نہیں تو ان قائیدین سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ آج تک وہ خاموش کیوں بیٹھے۔جس دن پہلی بار اس جھنڈے کی نمائش کی گئی تھی، اگر مزاحمتی قیادت اُسی دن دو ٹوک الفاظ میں اس بات کا اعلان کرتی کہ کشمیر کی تحریک کا ایسے نظریات اور پر چموں سے کوئی لینا دینا نہیں، تو شاید آج جامع مسجد کا واقعہ پیش نہیں آتا۔
دوسری بات،22 دسمبر2018 کو انصار غز و ۃ ا لہند کے چھ جنگجو ترال علاقے میں ایک انکا ئو نٹر کے دوران ہلاک ہوگئے ۔ انصار غز و ۃ الہندگروپ کشمیر میں داعش (ISIS) کے چیپٹر کے طور کام کرتا ہے اور اس کا با ضابطہ اعلان گروپ کے لیڈر ذاکر موسیٰ نے کیا ہوا ہے۔ اور یہی وہ گروپ ہے جس کا جھنڈا جامع مسجد میں لہرایا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس گروپ کے نظریات اور سیاست کی کشمیری تحریک کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں تو مزاحمتی قیادت نے ہلاک شدہ جنگجوئوں کو ’شاندار الفاظ میں ‘ خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اُن کیلئے غائبانہ جنازہ پڑھنے کی اپیل کیوں کی ۔ اگر مزاحمتی قیادت اس جھنڈے کے نظریات اور سیاست کو تسلیم نہیں کرتی اوراسے کشمیری تحریک کے لئے سود مند نہیں سمجھتی، تو اس پرچم کے نظریات میں ایمان اور یقین رکھنے والوں کے ساتھ یہ قیادت اظہار یکجہتی کیسے کر سکتی ہے۔ کہیں نہ کہیں کچھ کنفیوژن ہے اور مزاحمتی قیادت پر لازم ہے کہ وہ بغیر کسی لگی لپٹی کے واضح کریں کہ اس پرچم کے حوالے سے اُن کا اسٹینڈ کیا ہے۔
آخری بات،کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کے سیاسی مسئلہ ہونے کی گواہی اقوام متحدہ کی قرار دادیں دیتی ہیں جن کو بنیاد بناکر مزاحمتی قیادت مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر تحریک چلا رہی ہے۔اس تحریک کو مذہبی تحریک کا رنگ کس نے دیا؟ ’ہم کیا چاہتے ۔ آزادی‘ کا نعرہ مکمل طور اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے میل کھاتا ہے۔ لیکن ’آزادی کا مطلب کیا ۔ لا الہ الاللہ‘ کا ان قرادادوں کے ساتھ کوئی نا طہ نہیں اور ہم جب یہ نعرہ لگاتے ہیں تو ہم مسئلہ کشمیر کی سیا سی ہیئت کو تبدیل کرکے اسے ایک مذہبی مسئلہ بناتے ہیں۔ہم اس بات کا بر ملا اعتراف کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم خود مسئلہ کشمیر کو ایک مذہبی مسئلے کے طورپر پیش کر رہے ہیں اور جونہی ہم نے اسے مذہبی رنگت دی، ہم اپنے آپ داعش جیسی تنظیموں کے لئے راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ ہم داعش کے نظریات کے ساتھ بھلے ہی اختلاف کریں لیکن یہ تنظیم بھی لا الہ الاللہ کا نعرہ لگا رہی ہے۔ اگر ہم نے اپنی سیاست کو فقط ’آزادی‘ تک ہی محدود رکھا ہوتا تو شاید آج کوئی نقاب پوش جامع مسجد کے منبرپر داعش کا جھنڈہ لے کر نہیں آ چڑھتا۔ لیکن آزادی کے ساتھ لا الہ الاللہ کو جوڑ کر ہم نے داعش، طالبان، القاعدہ جیسی اُن ساری تنظیموں کو کشمیر آنے کی نا دانستہ طوردعوت دے دی ہے، جو اپنے اپنے نظریات کی گتھیوں میں قید یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں اسلام کی بالا دستی کا ٹھیکہ اُنہوں نے ہی لے رکھا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم مصلحت پسندی کا چولہ اتار کر کھری کھری بات کریں۔ ہمیں واضح کردینا ہو گا کہ ہم مسئلہ کشمیر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے کس نظریے کی حد میں حل کرنے کے متمنی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ وقت دور نہیں جب یہاں کی ہر مسجد اور ہر گھر میں یہی جھنڈے لہرائیں گے۔ ہر کسی ایسی ویسی حرکت کی ذمہ داری ’بھارتی ایجنسیوں‘ کے سر تھوپ کر اگر ہم نے حقیقت سے ایسے ہی چشم پوشی کرنے کی روایت بر قرار رکھی تو مستقبل میں کہیں کوئی بہتری کی امید فقط خیال است و محال است۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر