یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ایک سال کے وقفہ کے بعد بانہال ۔بارہمولہ ریل سروس دوبارہ شروع کی گئی ہے ۔گوکہ ابھی دو ہی ریل گاڑیاں چل رہی ہیں تاہم آنے والے دنوں میں ریل گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کرکے اس کو معمول پر لاجائے گاجس سے یقینی طور پر لوگوں کو راحت ملے گی تاہم ریل سفر کا اصل فایدہ کشمیری عوام کو تب ملے گا جب کشمیر ریل پروجیکٹ مکمل ہوگا اور بارہمولہ کا ریلوے سٹیشن ادہم پور ریلوے سٹیشن سے جُڑ جائے گا۔سابق ریاستی حکومت نے کہاتھا کہ جموں وکشمیرکو بیرون ملک کے ساتھ سال 2017تک ریل سروس کے ذریعے جوڑا جائیگا اور یہ کہ ادھمپور سے سرینگر تک ریلوے لائن 2017میں مکمل ہوگی تاہم یہ ڈیڈلائن بھی ناکام ہوگئی اورپھر2020تک کٹرہ قاضی گنڈ 111کلومیٹر حصے کو مکمل کرنے کا اعلان کیاگیا لیکن وہ ڈیڈلائن بھی پوری نہ ہوسکی جس کے بعد اب15اگست2022کی ایک اور ڈیڈ لائن خود وزیراعظم نریندر مودی نے مقرر کی ہے تاہم اس کی امید نہیں ہے کیونکہ کشمیر ریلوے پروجیکٹ کی تاریخ ناکامیوں سے پُر ہے اور ہر گزرتے سال کے بعد اس پروجیکٹ کی قیمت بڑھتی ہی جارہی ہے لیکن پروجیکٹ ہے کہ کبھی مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ریلوے ،خزانہ ،منصوبہ بندی کمیشن اور محکمہ شماریات کی حالیہ مشترکہ میٹنگ میں مرکزی ریلوے حکام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس پروجیکٹ کی بڑھتی قیمت کیلئے ابتدائی ویری فکیشن میں نقائص کا ہونا ذمہ دار ہے۔اس کیلئے ریلوے محکمہ نے چار وجوہات بیان کئے ہیں۔پہلی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ریلوے کو رابطہ سڑکوں کیلئے957کروڑ دستیاب رکھنا پڑے کیونکہ اس علاقہ میں سڑک رابطوں کا فقدان ہے لہٰذا ٹنلوں اور ٹریک کی تعمیر کیلئے سڑکیں تعمیر کرنا ضروری تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریلوے لائن کی تعمیر کیلئے جتنی سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں یا تعمیر کی جانی ہیں، ان کی لمبائی کل ریل پروجیکٹ کی لمبائی سے دوگنی ہے۔دوسری وجہ یہ ظاہر کی گئی ہے کہ اِرکان اور کون کان ریلوے پروجیکٹ کی قیمت سے دس فیصد زیادہ حصہ کی بنیاد پر کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔قیمتوں میں اضافے کی تیسری وجہ کیلئے سیکورٹی خدشات کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے تدارک کیلئے ریلوے محکمہ کے بقول سیکورٹی پوسٹوں کی کثیر تعداد،بارکیں ،کوارٹر اور سازوسامان کو ترمیمی تخمینہ میں شامل کیا گیا ہے جبکہ ریلوے کے نزدیک چوتھی وجہ ادھم پور سے لیکر بارہمولہ تک پورے ٹریک پر بجلی کا انتظام کرنے کیلئے 301کروڑ روپے مختص رکھنا ہے جو ریلوے حکام کے نزدیک ابتدائی تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ میں نہیں رکھا گیا تھا۔گوکہ بانہال بارہمولہ سیکٹر میں ریل چل رہی ہے لیکن جہاں تک ادھم پوربانہال سیکٹر کا تعلق ہے تو وہ ہنوز کھٹائی میں ہے اور اس سیکٹر میں ریلوے لائن کی تعمیر میں ہوئی کوتاہیوں کے حوالہ سے سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔محکمہ ریلوے کے اندرونی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس حصہ میں منصوبہ بندی میں ناکامی کی وجہ سے پروجیکٹ کی تکمیل میں مسلسل تاخیر ہورہی ہے اور اب خفت سے بچنے کیلئے ریلوے حکام بہانے تراش رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تعمیر کے دوران ہی چار ٹنل دھنس گئے ،کئی ٹنلوں میں پانی آرہا ہے ،گہری کھائیوں میں اونچے پل تعمیر کئے جارہے ہیں ۔یہ اعتراف کس قدر تشویشناک ہے کہ خود متعلقہ حکام نے میٹنگ میں کہا کہ مخصوص منصوبہ بندی کے بغیر ہی انہوں نے پروجیکٹ کی عمل آوری میں جلدبازی کی۔ مقامی ماہر ارضیات کا ماننا ہے کہ ریلوے حکام شرمندگی کی اس صورتحال کیلئے خود ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی بھی ماہرین ارضیات کے خدشات کو خاطر میںنہیں لیا اور نہ ہی ان سے ماہرانہ رائے طلب کی۔ریلوے حکام کو امید ہے کہ کشمیر تک ریل2022میں چلے گی لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ کچھ سیکشنوں میں ابھی بھی سروے اور تکنیکی تحقیق کا عمل جاری ہے ۔واضح رہے کہ جموں سے سرینگر تک ریلوے پروجیکٹ کے تعمیر کی تاریخ 37سال پرانی ہے ۔پہلی دفعہ1983میںاُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ریلوے وزیر غنی خان چودھری کے ہمراہ54کلومیٹر ادھمپور جموں سٹریچ کا سنگ بنیاد رکھا۔اس کے بعد1986میں وزیراعظم راجیو گاندھی نے ریلوے وزیر مدھورا شنڈیا کے ہمراہ ایک بار پھر اسی سٹریچ کا سنگ بنیاد رکھا ۔1997میں دیوی گوڑا کی سربراہی والی مرکزی حکومت میں دیوی گوڑا نے ریلوے وزیررام ولاس پاسوان کے ساتھ مل کے ادھمپور کشمیر لنک کا سنگ بنیاد رکھا۔1997میں ہی وزیراعظم آئی کے گجرال نے رام ولاس پاسوان کے ہمراہ ہی دوبارہ اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا ۔2003میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ریلوے وزیر نتیش کمار کے ہمراہ کشمیر ریل پروجیکٹ کے اہم پل کا سنگ بنیاد رکھا۔2005-09میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سونیا گاندھی اور ریلوے وزرا لالو پرساد یادو اور ممتا بینر جی کے ساتھ مل کردومرتبہ بارہمولہ سے لیکر قاضی گنڈتک ریل لائن کا افتتاح کیا جس کے بعد قاضی گنڈ بانہال سٹریچ بھی تیار ہوا تاہم بانہال سے ادھمپور تک چیلنجوں سے پُر ریلوے ٹریک کی تکمیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے ابھی بھی کوسوں دور ہے اور آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ پروجیکٹ غیر یقینیت سے نکل کر کب حقیقت بن جائے گا تاہم فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں تک جموں سے سرینگر تک ریل چلنے کا تعلق ہے تو ابھی دلّی بہت دور ہے۔