کشمیری نمدہ سازی کی قدیم صنعت دم توڑ بیٹھی | اون سے بنائے جانے والے نمدوں کی جگہ پنجابی قالینوں نے لی،سرینگر میں اب صرف ایک نمدہ ساز موجود

سرینگر // نمدہ سازی وادی کی ایسی منفرد گھریو صنعت ہے، جس میں کاریگری اور ہنر مندی کا رنگ جھلکتا ہے۔80کی دہائی سے قبل نمدہ سازی ایک منافع بخش صنعت رہی ہے کیونکہ وادی میں زیادہ تر سردی کا موسم رہنے کی وجہ سے گھروں میںنمدہ کا استعمال لازمی کیا جاتا تھا کیونکہ نمدہ بھیڑوں کے اون سے بنایا جاتا تھا جو شدید سردی کے مہینوں میں گرم فرش کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔ لیکن جوں جوں وقت گذرتا گیاتو دہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے بھیڑ بکریاں پالنے کا کام چھوڑ دیا ، یوں نمدہ بنانے کیلئے درکار میٹرئیل نایاب ہوتا گیا تو نمدوں کی جگہ قالینوں نے لے لی۔ یوں کئی صدیوں سے موجود نمدہ سازی کی گھریلو صنعت دم توڑنے لگی۔نمدہ ساز زیادہ تر سرینگر میں ہی پائے جاتے تھے اورخالصتاً اون سے بنائے جانے والے نمدے گھروں کی زینت ہوا کرتے تھے۔سرینگر کے کائوڈارہ ، ڈانگر پورہ اور تجگری محلہ نوہٹہ میں 11ویںصدی سے لیکر سال 1998تک روز ی روٹی کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ نمدہ سازی ہوا کرتا تھا ۔لیکن اب نمدہ سازی کی منڈی کہلانے والے تجگری محلہ میں صرف ایک ہی کاریگر بچا ہے۔ سال 2008میں کشمیر میں نمدہ سازوں کی تعداد 1700تھی جو کم ہوکر صرف 213رہ گئی ہے۔ محکمہ ہنڈی کرافٹس کے اعداد و شمار کے مطابق کشمیر صوبے میں213نمدہ ساز رجسٹر ہیں، لیکن ان میں بھی کئی دستکار نمدہ سازی کا کام چھوڑ چکے ہیں۔ تجگری محلہ نوہٹہ میں 1985میں ہر گھر میں نمدہ سازی کا کام ہوتا تھا لیکن اب یہاں ایک کارخانہ موجود ہے۔ تجگری محلہ کے واحد نمدہ ساز بشیر احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ نمدہ ساز آج کے دور میں کچھ بھی نہیں کماپاتے ہیں، 4فٹ چھوڑے اور 6فٹ لمبے نمدہ بنانے کی مزدوری صرف 200روپے ہے اور اس نمدہ کو بنانے میں پورا دن لگتا ہے‘‘۔بشیر احمد نے بتایا ’’ اس نمدہ کی کو تیار کرنے میں 600روپے کی اون اور دیگر اشیاء صرف ہوتی ہے اور مارکیٹ میں اسکی قیمت صرف 800روپے ہے‘‘۔انکا کہنا ہے کہ نمدہ بنانے والا دن میں صرف 200روپے کماتا ہے اور یہ ایک مہینے کا 6000روپے بنتے ہیں جبکہ سرکاری نوکری کرنے والا شخص دن میں 1000سے 5000روپے تک کماتا ہے۔بشیر احمد نے بتایا ’’ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے میرے چھوٹے بھائی نے بھی یہ کام چھوڑ دیا ہے اوراب ایک نجی فیکٹری میں 10ہزا روپے کی نوکری کرتا ہے‘‘۔بشیر احمد نے بتایا ’’ میری تین بیٹیاں ہیں، کیسے روزانہ 2سو روپے کما کر انہیں تعلیم دے سکتا ہوں یا انکی پرورش کرسکتا ہوں۔تجگری محلہ میں کئی نمدہ ساز سرکاری کاغذات میں رجسٹر ہیں لیکن اب وہ اس پیشے سے وابستہ نہیں ہیں، بلکہ انہوںنے کارخانے بند کر کے دوسرے کام تلاش کئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ محکمہ ہنڈی کرافٹس کے چند اساتذہ نمدہ سازی کی تربیت کیلئے میرے پاس آئے ہیں،وہ بعد میں دوسرے لوگوں کو نمدہ سازی کی ہنر سکھا سکتے ہیں۔سہیل احمد نامی ایک ر نوجوان نے بتایا ’’ میرے دادا نمدہ ساز تھے اور بعد میں میرے والد بھی یہی کام کرتے تھے لیکن اب ہم چین سٹچ اور کریول کا کام کرتے ہیں کیونکہ نمدہ سازی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا‘‘۔سہیل کہتے ہیں کہ تجگری محلہ میں 60سے 70 ہنر مند نمدہ سازتھے لیکن اب اس کشمیری گھریلو صنعت کو آگے بڑھانے کیلئے کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے۔سہیل نے بتایا ’’ نمدوں کازیادہ تر استعمال مقامی سطح پر ہوتا تھا لیکن اب مقامی لوگ مختلف رنگوں کے پنجابی قالین استعمال کرتے ہیں جو  نمدوں سے سستے ہوتے ہیں‘‘۔غلام محمد نامی ایک اور نمدہ ساز نے بتایا ’’ مجھے نہیں لگتا کہ نمدہ سازی دوبارہ زندہ ہوگی کیونکہ کسی بھی ہنر کو دوبارہ زندہ رکھنے کیلئے اس کو ایک نئی شکل دینے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔غلام محمد نے بتایا ’’ ہم 21ویں صدی میں بھی پرانے طرز پر کندھوں پر اٹھا کر نمدے فروخت کرنے پر مجبور ہیں، کیونکہ مقامی لوگوں تک نمدے پہنچانے کیلئے یہی سستا راستہ موجود ہے‘‘۔ محکمہ ہنڈی کرافٹس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شارق اقبال نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’آمدنی کی کمی کی وجہ سے نمدہ سازوں کی تعداد بہت زیادہ کم ہورہی ہے لیکن اس ہنر کو بحال کرنے کی سرکاری کوششیں جاری ہیں‘‘۔  انہوں نے کہا کہ نمدہ سازوں کی تربیت بھی مختلف ہنڈی کرافٹس سینٹروں میں دی جارہی ہے اور یہ تربیتی پروگرام ایک سال تک جاری رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نمدہ سازی سے جڑے افراد کیلئے سستے شرح سود پر قرضے بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔