زبان قوم کی شناخت کے طور پر اقوامِ عالم میں شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔کسی قوم کی بقا اس قوم کی زبان کی قوت اور وسعت پر مبنی ہوتی ہے لہٰذا جس قوم کی زبان جتنی قوی اور وسیع ہوگی ،اْس قوم کی جڑیں بھی اْتنی ہی مضبوط ہوں گی۔اللہ تعالی نے آدم علیہ سلام کو کم و بیش چار لاکھ زبانوں کیساتھ دنیا میں بھیجا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہر زبان الہامی (Divine) ہے اور اپنی اپنی زبان کو دوام بخشنے کے لئے کوشاں رہنا نہ صرف ہمارا قومی بلکہ فطری فریضہ ہے۔ جس خطہ عرض پر ہم رہتے ہیں، یہ اپنی خوبصورتی کے سبب مقبول تریں جگہ ہے ۔یہاں بہت ساری علاقائی زبانیں بولی جاتی ہے جن میں پہاڑی، پشتو ،گوجری اور کہیں کہیں پر پنجابی بھی بولی جاتی ہے مگر جو مقام کشمیری زبان کو حاصل ہے وہ شاید کسی اور زبان کو حاصل نہیں۔ کشمیر کی یہ میٹھی زبان اپنے اندر ایک گہری تاریخ رکھتی ہے ۔لسانی تغیر کے باوجود دن بہ دن اس کی قوت اور وسعت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو کشمیری قوم کے لئے نہ صرف شہرت بلکہ بقا کی بھی ضمانت اور علامت ہے۔ دوسری طرف ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس زبان کو وسعت دینے والے اور محبت کرنے والے صرف اْدبا ہیں۔ عام لوگوں کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ ہماری زبان کی صورت حال کیا ہے۔ عوام اپنے بچوں کو کشمیری زبان سے دور کرکے نہ صرف اپنی زبان بلکہ اپنی قومی شناخت ختم کر رہی ہے جس کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی ہر فرد کو ضرورت ہے۔ کشمیری زبان بولتے وقت عوام کو جیسے عار محسوس ہوتی ہے جبکہ کشمیری زبان و ادب بھی اپنے اندر ایک عظیم ادبی سرمایہ بسائی ہوئی ہے۔ کشمیری زبان کے ادب کو با وسعت بنانے کے لئے صدیوں سے کام جاری ہے ۔ آج کی صدی میں کشمیری زبان پر بہت سی تحقیق ہوئی اور ہو رہی ہے جس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ ایک طرف اگر چہ کشمیری زبان عوام کے ہاتھوں بے توجہی کا شکار ہورہی ہے وہیں دوسری طرف اْدبا کشمیری زبان کو فروغ دینے کے لئے کافی کوشاں اور سرگرم ہیں ۔
کشمیری زبان وادب کا ادبی سفر کافی طویل ہے ۔چودھویں صدی عیسوی میں کشمیری ادب کی شروعات لل دید سے ہوئی ۔اْن کے واکھ سنسکرِت اور عربی کا بھرپور اثر رکھتی تھی جو ادب کی اول ابتدا مانی جاتی ہے۔ شاعری کی اس قسم میں اگر چہ کشمیری زبان کا آسان اسلوب نہ تھا مگر پھر بھی اس قسم کی شاعری اپنے ایک خاص طرز کے لئے اْس صدی میں کشمیری ادب کی شاہکار تھی جس نے نہ صرف کشمیری ادب کو جنم دیا بلکہ اس کی ترویج کے لئے ایک اہم کردار ادا کیا۔ چودھویں صدی ہی کی ایک اور مایہ ناز شخصیت جسے دنیا شیخ العالمؒ کے نام سے جانتی ہے،نے شروکیٔ کی صورت میں ایک اور ادبی صنف کی بنیاد ڈالی۔ اْنھوں نے سنسکرت کے اثر کو کم کرکے کشمیری زبان کو ایک نئی شکل اور ساخت دینے میں وہ کردار نبھایا جو کوئی بھی ادا نہیں کر سکتا۔ اْن کے کلام نے کشمیری ادب کو براہِ راست ایک نئے رجحان کی طرف مائل کیا اور نئی اصناف کے لئے راہیں ہموار کیں۔ شیخ العالم رحمت اللہ علیہ کا اسلوب زیادہ سادہ تو نہیں بلکہ آسان اور ایک نئی منزل اور نئی راہ کی طرف ہمارا آغاز تھا۔ اْن کا کلام کشمیری ادب کی پہچان کے ساتھ ساتھ ہماری ساخت اور زبان کی بھی پہچان ہے۔
پندرھویں صدی میں باقاعدہ کشمیری غزلیات کا آغاز ہوا جو صوفیا نے اپنے اپنے رنگ میں پیش کیں۔سوچھ کرال سے لے آج کے صوفیا تک یہ نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رہا ۔شمس فقیر، وازء محمود، نعمہ صاب، رحمان ڈار، رحمان داریل ، رحیم صوب سوپور، احد زرگر اور بھی سینکڑوں صوفی شعرا ء آئے اور ادب اور زبان کی اپنے اپنے انداز میں آبیاری کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب کی ایک اور شاخ یعنی ادبی یا مجازی اور با اصول شاعری نے بھی اپنی جگہ بنا لی جو تقریباً رسول میر کے زمانے سے باقاعدہ طور پر وجود میں آئی۔ اس دوران غزل کے علاوہ نظم، مرثیہ رباعی اور کئی اصناف براہ راست اردو سے ہوتے ہوئے کشمیری زبان کی ہوگئیں۔ کشمیری ادب کے سینکڑوں شعراء ہیں جنہوں نے کشمیری ادب کو دوام بخشنے کے لئے کام کیا۔
کشمیری زبان وادب میں نثر پر بھی بہت اچھا اور قابلِ داد کام ہو رہا ہے ۔اْنیس ویں صدی کے آخر میں کشمیری زبان میں اصولِ زبان کی ترتیب کے لئے بھی کام ہورہا ہے۔ کاشر زبان تہ ادبْک تاریخ، کاشُر شاعِری انتخاب، کاشْر زَبان تہ شاعِری صوفیت کی اصطلاح پر نورِ عرفان افلاطون، ارستو جیسی اورکئی کتابیں آج کے دور کی مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ رحمان راہی ،پروفیسر شوق یا اورسینکڑوں ادیب ایسے ہیں جنھوں نے کشمیری زبان اور ادب میں ایک نئی جہت پیدا کی ہے جو ہماری زبان کے لئے تحسین کی بات ہے ۔
دن بہ دن ادب بڑھ رہا ہے۔ زبان کی بقا کو مدِ نظر رکھتے ہوے اس بات کی طرف توجہ لازمی ہے کہ ہماری خامیاں ہمیں ڈبونہ دیں ۔ادبی حلقوں میں بڑھتا تعصب اور لابی ازم کہیں ہمیں کمزور نہ کردے ۔ہمارے ادیب ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا شعور نہیں رکھتے۔آنے والے وقت میں اگر صورت حال یہی رہی تو آنے والی چند دہائیوں میں کشمیری زبان و ادب کا نام تک نہ رہے گا۔ زبان تو زبان پھر نہ جانے کتنے دکان بند ہوںگے اور نہ جانے کتنے ہی لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔
(مضمون نگار کا تعلق ٹنگمرگ سے ہے اور اًن سے [email protected]پر رابطہ کیاجاسکتا ہے)