کشمیر کی صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ بے حد مخدوش اور سنگین سے سنگین ترہوتی چلی جارہی ہے ۔اسی فضا میں23مئی 2017 بھارت میں پہلی بار میجر سطح کے ایک فوجی افسر نے پریس کانفرنس کی۔اس پریس کانفرنس میں متنازعہ آر آر میجر گوگوئی نے بھرپورطریقے سے اپنے اس جرم پرپردہ ڈالنے کی کوشش کی جو ۹؍ اپریل کو انہوں نے بیروہ بڈگام میں ایک نوجوان فاروق احمدڈار کو انسانی ڈھال بناکر کیا ۔ادھر28؍مئی کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دئے گئے اپنے انٹرویو میں بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کاکہناتھاکہ کشمیر میں لوگ پتھر پھینکنے کے بدلے گولیاں چلاتے تو ہمارے لیے اچھا رہتا، پھر ہم بھی وہ کر پاتے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔اس سے چند روز قبل بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نکالیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جس مستقل حل کی وہ بات کر رہے تھے وہ جنرل راوت کے کشمیر کے تعلق نظریہ کے تابع ہوگا ؟بھارتی فوجی چیف کی دلی خواہش کیاہے، وہ جنرل صاحب خودبتاسکتے ہیں، البتہ قرائن بتاتے ہیں کہ ایساکرنے پروہ اپنے دل میں شایدکشمیریوں پربمبارمنٹ کرنے کی تمنارکھتے ہیں ۔کیوں کہ کشمیر میں لوگوں کی آواز کچلنے میں ظلم کی صرف یہ ایک نوعیت ہی باقی رہ چکی ہے ، جب کہ اس کے علاوہ وردی پوش فورسز اپنے ترکش سے زہرمیں بجھے ہوئے تمام تیر یکے بعد دیگرے عوام الناس پر آزماچکی ہیں ، حریت خواہ کشمیری مسلمانوں پرظلم وجبرکے انواع واقسام ہتھکنڈے استعمال کئے جاچکے ہیں اورمسلسل کئے جار ہے ہیں۔ ادھربھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی کا حالیہ بیان کہ کشمیرکی جنگی صورتحال میں فوج کو کھلی چھوٹ دینے کی ضرورت ہے اور اب ان کے بعد بھارتی آرمی چیف جنرل بپن روات کا بیان اورکس طرز فکرو عمل کا مظاہرہ کر رہا ہے، وہ کسی توضیح وتشریح کا محتاج نہیں ۔ ایسے بیانات اوراس طرح زہراگلنے والی زبانیں بلاشبہ بھارت کی سول اورفوجی قیادت کی اصل ذہنیت اور کشمیریوں کے خلاف اس کی مخاصمانہ اورحربی سوچ کی واضح عکاس ہیں ۔
بھارتی آرمی چیف کی اس قسم کی سوچ وفکراوراس طرح کے انتہا پسندانہ نظریات کا علی الاعلان اظہارکرناکوئی معمولی بات نہیں۔ اسے بڑاسنجیدگی سے لیناچاہئے لیکن ایک بات طے ہے کہ اس طرح کی دھمکیوں سے گرچہ آنے والے ماہ و ایام لازماََ کشمیر اور کشمیریوں کیلئے مشکل ترین ثابت ہوں گے لیکن بھارت کے لئے بھی یہ غیر متوقع طور گلے کی ہڈی ثابت ہوسکتے ہیں۔جب تمام دلائل مخالف فریق سے بات منوانے میں ناکام ہوجائیں اورذہن کو مطمئن کر نے والی منطق نامراد ہو ں تو پٹارے سے آخر کاربوکھلاہٹ ، انتباہ اور وارننگ ہی نکلتی ہے کہ جس کاکھلم کھلا اظہار اپنے غصیلے لہجے میں بھارت کے آرمی چیف نے کیا ہے۔ یہ آخری دفاعی مورچہ ہوتا ہے جس کو اس بار استعمال کیا گیا۔ چلئے فرض کرتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی زبان پھسل گئی ہو، لیکن پروین شاکر کی زبان میں۔۔۔ ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘۔سوال یہ ہے کہ کشمیریوں سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے؟ یہی کہ وہ بین الاقوامی قراردادوں میں جائز ٹھہرائے جانے والے حصول حق خود ارادیت کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ وہ حق خود ارادیت کے حوالے سے عالمی رائے عامہ کو دلی کے حکمران کی مبینہ غفلت اوران کی مجرمانہ خاموشی پر توجہ مبذول کرارہے ہیں۔ انہوںنے اپنے بچوں کالہوپیش کرتے ہوئے اپنا کیس زندہ رکھا ہے۔ ان کی پیہم قربانیوں کی وجہ سے ہی معاملہ آخر کارچاردانگ عالم پہنچ گیا، ورنہ اسے ہمارے کرم فرماؤں نے اقتدار کے عوض طاقِ نسیاں کی نذر کر نے میں کوئی کسر نہ رکھ چھوڑی تھی اور اس وجہ سے دنیامیں بھی مسئلہ کشمیر کے حل سے کوئی دلچسپی موجودنہ تھی۔بھارت کے لیے یہ کوئی ایشو تھا ہی نہیں،امریکہ اوریورپ مسئلہ کشمیرپر ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے کہ جس سے دلی کو ندامت کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ ان کے معاشی مفادات دلی سے جڑے ہوئے ہیں مگر خودکشمیریوںکے پاک لہو اور ایثار وقربانیوںنے اس ایشو کو از سرنو زندہ رکھا۔مسئلہ کشمیرکی اہمیت کودوبالاکرنے کے لئے انہیں انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی طرف سے کچھ زبانی کلامی مدد بھی ملی اور کچھ رنگ برنگے بیانات سے پاکستان نے بھی اس مسئلے کو عالمی سیاست میں گرم رکھالیکن اس کے تن مردہ میں نئی روح پھینکنے کا کریڈٹ صرف کشمیریوں اوران کے ہمدردعرب وعجم کے مسلم نوجوانوں کو جاتاہے جنہوں نے دیوانہ و اراپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر نے میں کوئی دریغ نہ کیا ۔ اس لئے جنرل صاحب سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا اپناوہ پیدائشی حق جسے عالمی ادارے کے سامنے خودبھارت کی قدآور تسلیم کرچکی ہے ، اسے طلب کرنا کو ئی ایساجرم ٹھہرتاہے کہ جس پربھارت کے آرمی چیف اپنے رتبہ کو فراموش کرکے دھمکیوں پراترآئیں ؟ دنیاکے سب سے بڑے بین الاقوامی ادارے اقوام متحدہ کے چارٹر میںمسئلہ کشمیرکی متنازعہ حیثیت مسلمہ ہے اور اس معقول وٹھوس دلیل کی بنیاد اپنا قومی کاز اجاگر کرنے کا یہ مطلب نہیںہے کہ دلی آپے سے باہرہوکریہ کہہ دے کہ ہم سے مسئلہ کشمیرکے حوالے سے کوئی سوال نہ پوچھا جائے کیونکہ جس وقت آپ بھارت کو اپنے وعدے یاد دلائیں یاحکومت ہند کی طرف سے بشری حقو کی پامالیوں پراس کی جانب اُنگلی اٹھاتے ہیں تو آپ بھارتی’’ جمہوریت اور انصاف ‘‘کے خلاف سازش کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ دلی کے لئے ناقابل قبول ہے جس کے لئے اینٹ کاجواب پتھر سے دینا ہماری دیش بھگتی کا کرتویہ ہے۔ بہرصورت اس وقت جب اہل کشمیر مظالم اور خون آشامیوں کے گرداب میں ہیں ،انہیں سیاسی طور ڈیل کر نے کی بجائے فورسز کی دھمکیوں پرمشتمل نیا بیانیہ سنایا جا رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ مسئلہ کشمیرکی متنازعہ حیثیت کسی شخص یا فورم کی کوئی ذہنی اختراع نہیں بلکہ پوری دنیااس مسئلے کی متنازعہ حیثیت پرگواہ اورشاہدعادل ہے، ورنہ جوکچھ وردی پوشوں کی اعلیٰ کمان سے ہمارے کان کشمیر اور اہل کشمیر کے بارے میں روز سن رہے ہیں ،اس سے تاثر یہی ملتا ہے کہ دلی نے کشمیرکوشام ،عراق اورافغانستان بنانے کی پوری تیاری کررکھی ہے بلکہ اس سلسلے میں کام بھی شروع کیا گیا ہے ۔
کشمیریوں کے خلاف خود بھارتی آرمی چیف کاتازہ بیان کوئی ہنسی مذاق نہیں۔ یہ سنجیدہ ترین معاملہ ہے جس کے اثرات ومضمرات پر گہرائی اور گیرائی کے ساتھ غور وخوض کر نے کی ضرورت ہے ۔ مبصرین کے مطابق بھارتی آرمی چیف کشمیر پر تبصرے کر کے اپنے کیرئر کو چار چاند لگانے کی دوڑ میں ہے ۔ معاملہ جب یہ ہو توپھر ان کی گل افشانی اور سنگھ پریوارمیں مماثلت ہونے پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔اسی پس منظرمیں ناقدین کہتے ہیں وہی آرمی چیف کامیاب رہتے ہیں جوسنگھ پریوار کے ایجنڈے سے بالکل متفق ہوں اورکشمیر میں کسی سیاسی عمل کی پشت پناہی کی بجائے وہاں زیادہ سے زیادہ موت بانٹنے اورلوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے کا دم خم دکھائیں ۔ اب کی بار فوج نے بلاوجہ بیروہ کے فاروق ڈار کو اپنی جیپ سے باندھ کر گاؤں گاؤں زندہ لاش کی مانند نہ گھمایا بلکہ اس کے پیچھے ایک پیغام ہے کشمیر کے نہتے اور محکوم عوام کے نام کہ کشمیرکاز سے دستبردار ہوجاؤ ورنہ تمہار ااجتماعی طور فاروق ڈار جیسا حشر ہوگا ۔ چشم فلک نے ۹ ؍ مئی کو یہ نظارہ دیکھا کہ ایک فاروق عوام کے سروں پرسوار ہونے کے لئے زبردست بائیکاٹ کے باوجود ووٹ بٹورنے میں لگا تھا اور ودسرا فاروق آرمی کی جیپ کے بانٹ سے بندھا اپنی کسمپرسی اور بے نوائی کی مارکھارہاتھا۔ اس پر پوری دنیا میں فوج ہدف تنقید بنی تو جنرل صاحب نے جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اس افسوس ناک حرکت میں ملوث فوجی افسر کے نام سندستائش جاری کرکے آئین وقانون کوہی نظرانداز نہ کیا بلکہ انسانیت کی بھی توہین کی ۔ بھارتی آرمی چیف کھلم کھلا کہتے ہیں کہ فاروق ڈارکے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں ہوایعنی اس پر کوئی تھرڈ ڈگری تشدد نہیں کیا گیا ۔ اس ایک بیان سے اہل کشمیر کو واضح طور پیغام ملا کہ دلی کی نگاہ میں ان کی کیا حیثیت ہے ۔ ذہن اس سوچ میں پریشان ہے کہ یہ سب کچھ کشمیر یوں کے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے پاس کشمیریوں کے سوالات پر کوئی جائز موقف اور صحیح لائحہ ٔعمل نہیں۔ اگر اس کے پاس کوئی جائز ومعقول موقف ہوتا توپھراس کے وزراء سے لے کر آرمی چیف تک دھمکیوں اورترش کلامیوںکایہ نہ تھمنے والاسلسلہ سامنے نہ آتا۔ جب فریق مخالف میںسچ سننے کی اخلاقی جرأت کا فقدان ہوتوپھرکڑوی باتیں میٹھی لگتی ہیں اوران کے سوازبا ن سے کوئی بات نہیں نکلتی ۔ یہ لن ترانیاں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ کشمیری عوام نہایت سنجیدگی اور جرأت مندی سے اپنے قومی کازکوآگے بڑھارہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بھارتی آرمی چیف کاانتباہ سے دلی کے موڈ کی غمازی ہوتی ہے۔ اگر انہیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھروں کے بجائے بندوقیں ہوتیں تو ہم وہ کرتے جوہماری خواہش ہے، اس سے یہ امر ظاہر وباہرہوتا ہے کہ کشمیرکی عوامی تحریک کس قدر ان کے ذہنوں اور اعصاب پر سوار ہے۔ انہیں خوف ہے کہ دیرسویردنیا مظلوم کشمیریوںکے شانہ بشانہ کھڑاہوجائے گی ۔ یہ خوف اپنی جگہ بجا ہے مگر اس کا توڑدھمکیاں نہیں کرسکتی ہیں بلکہ دانشمندی اسی میں ہے کہ ٹال مٹول کی پالیسی ترک کرکے فوراًسے پیش تر کامل یکسوئی سے مسئلہ کشمیرکاایساٹھوس، متفقہ اور منصفانہ حل جوکشمیریوں کی قربانیوں سے مطابقت رکھتاہو،نکال کر برصغیر کو سکھ چین سے زندہ رہنے دیاجائے ۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ 70برسوں سے جب داخلی و خارجی سطح پر جنگ و جدل قتل و غارت اور محاذ آرائی کے باوجود مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور حیثیت کو ختم نہیں کیا جاسکا تو آج فوجی قوت (Military Might)سے ہمالیائی اہمیت کایہ مسئلہ کیسے ختم کیا جا سکتاہے ؟ یادرکھناچاہئے کہ کشمیرگذشتہ سات عشروں سے اپنی آزادی کے لئے ہرقسم کا ظلم و جبرسہتے ہوئے برسر مزاحمت ہیں ،ایسی دلیراوربہادرقوم کو دھمکیوں یا دباؤ سے خوف زدہ نہیں کیا جاسکتا۔بھارتی آرمی چیف اورحکمران بی جے پی کے وزراء کی جانب سے کشمیر کے حالات پر جس انداز اور عنوان سے تیکھے اور تیز طرار بیانات سامنے آرہے ہیں، اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خطے میںحکومت ہند ایک ایسے حربیانہ ماحول کو بھر پور انداز سے فروغ دینے میں مصروف ہے جوپہلے لازماََبھارت سمیت برصغیر کے لئے بربادی کاسبب بنے گا۔ قابل غور امر ہے کہ29مئی بروزسوموارکوبھارتی آرمی چیف کاکہناتھاکہ کشمیر میں بھارتی فوج کو غلیظ جنگ کا سامنا ہے جو اس امر کی طرف بلیغ اشارہ ہے کہ فوجی طاقت کے بل پر کشمیر کوشام ،عراق یاافغانستان بنادینے کے لئے پرتولے جارہے ہیں۔اگر دلی کے حاکم ووٹ بنک سیاست سے ہٹ کر تنازعہ کشمیرکی تاریخ کوپڑھ لیں گے تو شایدیہ بات ان کے پلے پڑے گی کہ کشمیرہرگزکوئی شام ،کوئی عراق یاافغانستان نہیں کہ جن پرامریکہ نیٹواورروس نے جارحیت کی بلکہ یہ ایسامتنازعہ خطہ ہے کہ جو ابھی تک یونائٹڈ نیشنزکے چارٹر پر ہے اوربرصغیر کے دونوں جوہری ملکوں کو پابند بناتا ہے کہ وہ اس کی زیرنگرانی کشمیریوں سے یہ رائے لینے کا بندوبست کریں کہ آیاوہ اپنامستقبل بھارت یاپاکستان کے ساتھ استوارکرناچاہتے ہیں۔
تنگ نظری اورتعصب کی حد یہ ہے کہ ایک نہتے کشمیری نوجوان کو انسانی ڈھال بنانے کے عمل کوجائزقراردے کر اور نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کی پذیرائی کر کے فورسز کشمیراورکشمیریوں کوملیامیٹ کرنے کی اپنی خواہش کاکھلم کھلااظہارکررہی ہیں اور دنیائے انسانیت خاموش بیٹھی ہے ۔ بھارت کی سول اورفوجی قیادت کویہ نوشتۂ دیوارپڑھ لینی چاہئے کہ بیلٹ ،پیلٹ ، خوف و دہشت،دھمکیاں،پکڑدھکڑ،گرفتاریاں، قید و بند،زندان خانے اور دوسرے مظالم اہالیان کشمیرکو اپنی سیاسی جدوجہد سے باز رکھ سکتے ہیں اورنہ ہی انہیں جموں وکشمیرمیں اپنی جائز مزاحمت سے دور رکھ سکتے ہیں ۔ برسوں سے جاری بھارتی ظلم وجبرکی چھاپ ان کے احساسات اورانفعالات کے ہرگوشہ میں موجودہیں اور اگر کشمیریوں کے جذبہ آزادی اور قوت مزاحمت کو کچلنافوجی دبدبے کے بس کی بات ہوتی توآ ج کشمیر کاز نام کی کوئی چیز دنیائے ہست و بود میں نہ ہوتی،اس سے مترشح ہوتا ہے کہ کشمیرکاکوئی فوجی حل نہیں بلکہ یہ سیاسی تصفیہ سے ہی اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکتاہے۔ بھارت کے کئی وفا شعار اور احساسِ ذمہ داری سے لیس سابق فوجی جرنیل بھی بالآخریہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ مسئلہ کشمیرکاکوئی فوجی حل نہیں ہے،ا س سے سیاسی طور پنڈ چھڑائی جائے۔اس حق گوئی کوسامنے رکھتے ہوئے موجودہ بھارتی آرمی چیف کو دیرسویر یہی نغمہ خوانی کرناپڑے گی کہ بھارت کے لئے بہتری اور برتری کا راز اسی میں مضمر ہے کہ کشمیریوں کے حقو ق البشر پامال کرنے سے،انہیںمارکٹائی کا شکار بنانے سے ،ان کی چادراورچاردیواری کا تقدس پامال کر نے سے بھارت کا بھلا نہ ہوگا کیونکہ ان اوچھے حربوں اور ہتھکنڈوں میں مسئلہ کشمیر کاحل مضمر نہیں بلکہ یہ بھارت کی اپنی خرابیوں اور تباہیوںپر منتج ہوگا۔