ستمبر 2019 میں پارلیمنٹ کے ذریعے تین زرعی قوانین کی منظوری، پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کی طرف سے ان قوانین کے خلاف ریاست گیر احتجاج، 26 نومبر سے دہلی سے متصل سنگھو، ٹکری اور غازی پوری بارڈرس پر ہزاروں کسانوں کی جانب سے قوانین کے خلاف احتجاج اور دھرنا، حکومت اور کسانوں کے درمیان آٹھ ادوار کی بے نتیجہ بات چیت، ملک کی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ کی قوانین سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران حکومت کے رویے پر سخت ناراضگی، قوانین پر روک لگانے کا اشارہ، اگلے روز کی سماعت میں عدالت کی جانب سے قوانین کے نفاذ پر روک، ایک کمیٹی کی تشکیل اور کسانوں کی جانب سے اس کمیٹی کو مسترد کرکے اس سے بات چیت نہ کرنے کا اعلان۔ اس طرح اس تنازع نے ایک راونڈ مکمل کر لیا یا ایک چکر پورا کر لیا۔ جب سے کسان ان قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں حکومت کی جانب سے ان کو زیر کرنے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت مختلف ذرائع سے کسان تحریک کو کمزور کرنے اور اسے بدنام کرنے میں کوشاں ہے۔ حالانکہ کسانوں کا بس ایک ہی مطالبہ ہے۔ یعنی حکومت تینوں قوانین واپس لے لے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت ان کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کرے گی وہ اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے اور اپنے گھروں کو نہیں جائیں گے۔
کسانوں کا موقف بالکل صاف اور واضح ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ کوئی ایچ پیچ نہیں ہے۔ کوئی شش و پنج نہیں ہے۔ چالیس کسان تنظیمیں اس دھرنے میں شامل ہیں اور ان تنظیموں کے نمائندے حکومت سے بات کر رہے ہیں۔ حکومت سے گفتگو ہو یا میڈیا کے سامنے بیان بازی۔ کسان ایک ہی سُر میں بول رہے ہیں۔ میڈیا کے نمائندے جس کسان لیڈر سے بھی بات کرتے ہیں وہ یہی کہتا ہے کہ جب تک قوانین کی واپسی نہیں ہوگی تب تک ان کی گھر واپسی نہیں ہوگی۔ کسان رہنما تو کسان رہنما دھرنے میں شامل عام آدمی، خواتین یا بچوں تک سے بات کیجیے تو وہ یہ یہی کہتے ہیں کہ حکو مت قوانین واپس لے لے ہم گھر چلے جائیں گے۔ انھوں نے انتہائی یخ بستہ سردی میں بھی اپنا حوصلہ نہیں چھوڑا۔ کئی روز کی بارش اور خون کو منجمد کر دینے والی سردی کو بھی انھوں نے جھیل لیا۔ ان کے ٹینٹو ںمیں پانی کی نہریں جاری ہو گئیں اور ان کے لحاف گدے سب پانی پانی ہو گئے۔ لیکن ان کے جوش و ولولے کی گرمی میں کوئی کمی نہیں آئی۔
لیکن اگر حکومت کے رویے پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوگا کہ وہ شہ اور مات کا کھیل کھیل رہی ہے۔ اس نے بارہا کوشش کی کہ گیند کسانوں کے پالے میں ڈال دے۔ لیکن کسان اتنی چابکدستی سے اپنا گیم کھیل رہے ہیں کہ وہ گیند کو اپنے پالے میں آنے ہی نہیں دے رہے ہیں۔ حکومت داؤ پر داؤ چل رہی ہے لیکن ا س کا ہر داؤ الٹا پڑتا جا رہا ہے۔ حکومت شروع سے ہی اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ اگر کسانوں کو مذکورہ قوانین میں خامیاں نظر آتی ہیں تو ہم ان قوانین کی ایک ایک دفعہ پر گفتگو کر لیتے ہیں اور اگر کوئی دفعہ ان کو منظور نہیں ہے تو اس میں ترمیم کر دیتے ہیں۔ لیکن جب بھی کسان حکومت سے بات کرکے باہر نکلتے ہیں تو ان کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ ہم دفعہ وار گفتگو نہیں کریں گے۔ ہم ان قوانین کو ہی نہیں چاہتے۔ انھیں ختم کیجیے سارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ تقریباً تمام ادوار کی گفتگو میں حکومت نے کمیٹی بنانے پر بھی زور دیا اور کسانوں نے ہر بار اس تجویز کو سرے سے مسترد کر دیا۔
اسی درمیان مختلف گروپوں اور تنظیموں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور دھرنا ختم کرانے کی اپیل کی۔ کچھ نے ان قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ سپریم کورٹ نے گیارہ جنوری کو ان درخواستوں پر سماعت شروع کی اور حکومت کی خوب سرزنش کی۔ اس نے کہا کہ حکومت کا جو رویہ ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت مسئلے کا حصہ ہے یا اسے حل کرنے کا۔ جتنے سخت الفاظ ہو سکتے تھے اتنے سخت الفاظ استعمال کیے گئے۔ عدالت نے کہا کہ یا تو حکومت ان قوانین پر عمل درآمد روک دے ورنہ ہم روک دیں گے۔ چیف جسٹس نے گیارہ تاریخ کی سماعت کے دوران جو رخ اختیار کیا اس کو دیکھتے ہوئے تمام میڈیا ہاوسز نے کہا کہ حکومت کٹہرے میں آگئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت ان قوانین پر عمل درآمد روکنے جا رہی ہے۔ اس نے حکومت کو خوب جھاڑ پلائی ہے۔ حکومت کے رویے پر اس نے ناراضگی کا زبردست اظہار کیا ہے۔ کچھ کسان رہنماؤں نے عدالت کے رویے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ لیکن اس کی اس بات سے عدم اتفاق بھی ظاہر کیا کہ وہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائے گی۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ کمیٹی بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب قوانین واپس لے لیے جائیں۔
پہلے دن اور دوسرے دن بھی سماعت کے دوران عدالت کے رخ کو دیکھ کر جہاں بہت سے لوگوں کو امید کی کرن نظر آئی کہ اب یہ مسئلہ حل ہو جائے گا وہیں بہت سے لوگ شکوک و شبہات میں بھی گرفتار ہو گئے۔ مختلف ایشوز پر چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کا جو رویہ اب تک رہا ہے اس کے پیش نظر بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ حکومت کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان کو کوئی امید نہیں تھی۔ عدالتی طریقہ کار پر نظر رکھنے والے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جب عدالت کسی معاملے میں بہت اچھی اچھی باتیں کرے تو سمجھ لینا چاہیے کہ فیصلہ اس کے برعکس آنے والا ہے۔ لہٰذا وہی ہوا۔ بظاہر یہ بڑی اچھی بات ہے کہ عدالت نے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا دی اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ کسانوں کو چاہیے کہ وہ اس کمیٹی کے سامنے جائیں او راپنا موقف رکھیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عدالت میں جو درخواستیں داخل کی گئی ہیں وہ احتجاج میں شامل کسی بھی تنظیم کی جانب سے نہیں داحل کی گئیں بلکہ دوسرے لوگوں نے داخل کی ہیں۔ اسی لیے جب گیارہ تاریخ کو کمیٹی بنانے کی بات آئی تو کسانو ںکا کہنا تھا کہ وہ عدالت کے فیصلے کو نہیں مانیں گے کیونکہ وہ عدالت میں نہیں گئے ہیں۔
اس کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جب آٹھویں دور کی بات چیت ناکام ہونے لگی تو حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ آپ لوگ چاہیں تو عدالت جا سکتے ہیں، وہاں سے اس مسئلے کو حل کروالیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا تھا کہ ہم عدالت نہیں جائیں گے۔ ان کے بقول حکومت عدالت بھیج کر ان کو پھنسانا چاہتی ہے اور جو کام وہ خود نہیں کر پا رہی ہے وہ کام عدالت سے کروانا چاہتی ہے۔ اسی لیے جب عدالت نے کمیٹی بنا دی تو ان کسانوں کا کہنا ہے کہ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ یعنی حکومت نے وہی کام جو اس سے نہیں ہو سکا عدالت سے کروایا ہے۔ لہٰذا کسان اس کو نہیں مانیں گے۔ ادھر جب کمیٹی کے ممبران کے نام سامنے آئے تو کسانوں کے شکوک و شبہات یقین میں بدل گئے۔ کیونکہ جن چار افراد پر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ چاروں متنازعہ قوانین کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے حکومت کے وزرا سے ملاقات بھی کی اور ان سے کہا کہ یہ قوانین بہت اچھے ہیں بس ان میں ذرا سی ترمیم کر دی جائے۔ ان کو واپس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسانوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ ہمیں اگر کمیٹی سے ہی بات کرنی تھی تو ہم وزیر زراعت سے ہی کیوں نہیں بات کریں گے۔ یہ کمیٹی سرکاری ہے جو عدالت کے ذریعے بنوائی گئی ہے۔ لہٰذا ہم اس کے سامنے نہیں جائیں گے اور اس سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ اس طرح عدالت نے پہلے تو حکومت کو خوب برا بھلا کہا اور پھر قوانین کے حامی افراد کی کمیٹی بنا دی۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے عدالت کی جانب سے حکومت کی سرزنش ایک حکمت عملی کے تحت تھی تاکہ عدالت پر کسان بھروسہ کر لیں اور وہ جو کمیٹی بنائے اس کو مان لیں۔
بہر حال حکومت نے عدالت کے توسط سے گیند کسانوں کے پالے میں ڈال دی لیکن انھوں نے بلاتاخیر گیند کو لات مار کر اپنے پالے سے باہر پھینک دیا بلکہ حکومت کے پالے میں ڈال دیا۔ اگر کسان تنظیمیں عدالت گئی ہوتیں اور تب وہ عدالتی کمیٹی کو نہیں مانتیں تو ان پر الزامات عاید کیے جا سکتے تھے اور انھیں اپنے موقف پر قائم نہ رہنے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا تھا۔ لیکن چونکہ وہ عدالت گئے نہیں اس لیے عدالتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا کوئی اخلاقی دباؤ بھی ان کے اوپر نہیں ہے۔ بہر کیف شہ اور مات کا کھیل جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پندرہ جنوری کی بات چیت میں کیا ہوتا ہے۔ بات چیت کی ناکامی کی صورت میں 26 جنوری کو کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ کا کیا ہوتا ہے اور کسان کب تک سڑکوں پر بیٹھے رہتے ہیں ،یہ بھی دیکھنے والی بات ہوگی۔
ای میل۔[email protected]
فون نمبر۔9818195929