’’فیصلہ ہوچکا ہے کہ جموں اورکشمیر کو بھی ایک دوسرے سے الگ کرلیا جائیگا۔ اور جموں کو علیحد ہ کرکے ریاست کا درجہ دیا جائے گا جبکہ کشمیر کو بدستور یونین ٹیریٹری رکھا جائے گا ۔‘‘نامعلوم لوگوں کا یہ سنسنی خیز انکشاف12جولائی کو اس وقت ہوا کے دوش پر پھیل گیا جب سرینگر میں نئے لاک ڈائون کا اعلان کردیا گیا اور اس انکشاف میں وزن پیدا کرنے کیلئے یہ دلیل موجود تھی کہ اسی وجہ سے لاک ڈائون کیا گیا ہے تاکہ لوگ گھروں سے باہر آکر احتجاج نہ کریں ۔یہ بھی بتایا جارہا تھاکہ کرونا وائرس محض ایک بہانہ ہے اصل مقصد تو لوگوں کے ردعمل کو روکنا ہے ورنہ دنیا میں لاک ڈائون ختم کئے جارہے ہیں ،یہاں پھر سے لاک ڈائون کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ایک اورانکشاف یہ بھی تھا کہ مرکزی سرکار کو خدشہ ہے کہ یوم شہداء پر لوگ تیرہ جولائی کے شہیدوں کو خراج عقیدت ادا کرنے کے لئے سڑکو ں پر آئیں گے، اس لئے لاک ڈائون کا اعلان کردیا گیا ۔انہی انکشافات پر لوگ سڑکو ں پر ، دکانوں کے تھڑوں پر ،محفلوں اور مجلسو ں میں بغیر ماسک کے اور سماجی دوری کے اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مباحث میں مصروف تھے اور ان مباحث کا دائرہ چین ، امریکہ سے ہوتے ہوئے سرائیل تک پھیل جاتا تھا ۔ کوئی ایک بھی ماں کا لال نہیں تھا جو ہلاکت خیز کرونا وائرس کی وسیع ہوتی ہوئی تباہ کاریوں کی بات کرتا حالانکہ جس روز یہ مباحث ہورہے تھے، اس روز جموں کشمیر میں وائرس کے شکار افراد کی روزانہ تعداد چار سو تک پہنچ گئی تھی اور جمعرات کے روز یہ تعداد پانچ سو کے قریب پہنچی جبکہ ہلاکتوں کی روزانہ تعدا د بھی اب دس سے زیادہ ہوچکی ہے ۔نہ جانے اپنے اوپر منڈلاتے ہوئے یہ موت کے سائے خاص طور پر کشمیر کے مسلمانوں کو کیوں نظر نہیں آتے؟ ۔وہ کیوں اس قہر کو کوئی اہمیت دینے کے بجائے افسانوں ، افواہوں اور اندیشوں پر بحث کررہے ہیں؟ ۔ وہ یہ بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جموں میں کرونا متاثرین اور اموات کی تعداد کشمیر کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر کیوں ہے۔؟وہ یہ دیکھ کر بھی نہیں دیکھ رہے ہیں کہ کرونا مریض کی موت کتنی بھیانک موت ہوتی ہے اور اس بات کی بھی کوئی سمجھ نہیں کہ اگر کرونا متاثرین کی تعداد میں اسی طرح سے اضافہ ہوتا رہا تو لاشیں سڑکوں پر پڑی رہیں گی اور کوئی اٹھانے والا بھی نہیں ہوگا ۔ اس قہر الٰہی کے بجائے سوشل میڈیا کے احمقانہ پوسٹ کیوں انہیں متوجہ کررہے ہیں ۔کیا ہمیں کوئی اجتماعی مرض لاحق ہوچکا ہے جو ہمیں زمینی حقیقت کو سمجھنے سے روک رہا ہے ۔
کرونا وائرس نے اس وقت عالم انسانی پر جو قہر نازل کردیا ہے اس کی وجہ سے انسانی وجود کو ہی خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔اب سے پہلے انسانی وجود کو ایسا خطرہ کبھی بھی لاحق نہیں ہوا تھا۔نہ طوفان نوح کے وقت ،نہ عظیم عالمی جنگجوں کے وقت ،نہ زلزلوں ، طوفانوں اور سیلابوں کے وقت اور نہ ہی بڑی بڑی وبائوں کے وقت ۔ان تمام آفتوں نے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کا خاتمہ کردیا لیکن وجود انسانی کو خطرہ لاحق نہیں ہوا ۔آج یقینی طور پر یہ خطرہ وہ سائنس داں بھی محسوس کررہے ہیں جو جان توڑ کوششوں کے باوجود بھی اب تک یہ معلوم نہیں کرسکے کہ اس وبا کی اصلیت کیا ہے ۔یہ کیسے پیدا ہوتا ہے اور کیسے پھیل جاتا ہے ۔کیسے انسانی جسم کے اندر اس کی افزائش ہوتی ہے اور کیسے یہ ہر اہم عضو کو کھوکھلا اور ناکارہ بنا کر رکھ دیتا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت شام کو جو بات کہتا ہے، صبح اس کے الٹ بات کرتا ہے ۔ کبھی یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وائرس ہوا میں نہیں ہوتا تو کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ ہوا کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے ۔کبھی کہا جاتا ہے کہ مردہ جسم اس وائرس کو زندہ انسانوں میں منتقل نہیں کرسکتا اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ ابھی اس وائرس کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں جارہا ہے ۔سائنس کا عظیم علم بے بس ہوچکا ہے ۔ یہ وہ علم ہے جس نے انسان کا ڈی این ا ے بھی معلوم کرلیا ہے جو نسلوں کی حقیقت کا پتا دیتا ہے۔جس علم نے ایٹم دریافت کرلیا جو ہر شئے میں موجود ہے اور ہر شئے کو بدل دیتا ہے ۔اس علم نے قدرت کے وہ راز افشاء کردئیے کہ اس کے وجود سے انکا ر کرنے والے بھی پکار اٹھے بے شک اللہ کے سوا کوئی نہیں جس کی ہر تخلیق اس قدر مکمل ہوسکتی ہے اور اس علم نے علامہ اقبال کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ؎
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہہ کامل نہ ہوجائے
آج یہ مہہ کامل جو ہوائوں میں اڑتا تھا اور سمندروں کی تہوں میںتیرتا تھا ،چار دیواریوں میں بند ہوکر اپنے وجود کو بچانا چاہتا ہے ۔ یہ چار دیوار ی اسے کرونا سے بچاتو سکتی ہے مگر ڈپریشن کا شکار بناکر خود کشی کرنے پر بھی آمادہ کرسکتی ہے ۔اس لئے انسان نہ چار دیواری کے اندر محفوظ ہے نہ چار دیواری کے باہر۔ اسی لئے وہ لاک ڈائون کی حمایت بھی کرتا ہے اور اس کی مخالفت کرکے اس کی خلاف ورزی بھی کررہا ہے ۔کروڑوں برسوں کی اپنی تاریخ میں انسان کبھی اتنا لاچار نہیں ہوا تھا اور اتنا بڑا قہر اس پر کبھی نازل نہیں ہوا تھا لیکن اب بھی دنیا میں ایسی قومیں اور ایسے لوگ افراط کے ساتھ موجود ہیں جنہیں اس قہر کا کوئی احساس اور ادراک نہیں ہے ۔اس وقت جبکہ پوری دنیا میں ایک کروڑ کے قریب لوگوں کی موت واقع ہوچکی ہے اور کروڑوں دیگر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اسے یہودیوں کی سازش قرار دے رہے ہیں ۔کوئی اسے عیسائیوں کی سازش کہہ رہا ہے تو کوئی امریکہ یا چین کی ۔کوئی اسے مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش سے تعبیر کررہا ہے تو کوئی اسے چین کے استعماری منصوبوں کا حصہ کہہ رہا ہے حالانکہ یہ سب قومیں اس وائرس کی وجہ سے بربادی کے دہانے پر کھڑی ہوچکی ہیں ۔یہ ساری قومیں عالم انسانی کو بچانے کے لئے ویکسین بنانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ابھی تک انہیں کامیابی کی کوئی رمق بھی نظر نہیں آرہی ہیں ۔ کھربوں ڈالر خرچ ہوچکے ہیں ،کئی ویکسین انسانی تجربوں سے بھی گزررہے ہیں لیکن یہ صرف انسانوں کے اندر وائرس کی ٹوٹ پھوٹ روکنے کی کوششیں ہیں ،وائرس کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کیونکہ وائرس کی اصلیت دریافت کئے بغیر اس کو ختم کرنا ممکن ہی نہیں اوراس کی اصلیت دریافت کرنے کی ہر کوشش ابھی تک ناکام ہے ۔
اس حالت میں بھی بچائو کی تدبیریں موجود ہیں ۔ ماسک اورسماجی دوری سے نہ صرف فرد اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے بلکہ اپنے خاندان ، اپنے سماج ، اپنی ملت اور اپنی قوم کو بھی محفوظ رکھ سکتا ہے ۔بیدار اور صحیح سوچ رکھنے والی قومیں اور افراد ایسا کررہے ہیں لیکن دنیا میں ایسی قوموں کا غلبہ ہے جو علی بابا کی مانند اس چراغ کی تلاش کررہے ہیں جس کو رگڑنے سے جن باہر آئے گا اور وہ پلک جھپکنے میں ہی ان تمام دشمنوں کا خاتمہ کردے گا جو اس وائرس کو ان کے خلاف پیدا کررہے ہیں ۔ہماری قوم انہی قوموں میں شامل ہے ۔ہم وائرس کو سازش کہتے ہیں ۔ لاک ڈائون کو بھی سازش کہتے ہیں ۔ لاک ڈائون نہ ہونے کوبھی سازش کہتے ہیں ۔کورنٹائن کو بھی سازش کہتے ہیں ۔کورنٹائن نہ کرنے کوبھی سازش کہتے ہیں ۔موت کے بعد ٹسٹ پازیٹیو آنے کو بھی سازش کہتے ہیں اور نہ آنے کو بھی ۔کوئی سازش ہندوستان کی ہے ۔ کوئی انتظامیہ کی ، کوئی ہسپتالوں کی انتظامیہ کی ، کوئی ڈاکٹروں کی تو کوئی بیروکریٹوں کی۔ ماسک نہ پہن کر ہم ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں ۔سماجی دوری کی دھجیاں اڑا کر ہم ان سازشوں کیخلاف صف آراء ہیں ۔ہم نہ ڈاکٹروں سے تعاون کررہے ہیں نہ میڈیکل سٹاف سے حالانکہ ہمارے کئی ڈاکٹروں نے اس جنگ میں قایدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کردیں ۔
جب بھی کسی قوم کا ذہن بیمار ہوجاتا ہے تو اس کی پہلی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ حقائق سے نظریں پھیر کر افسانوں ، توہموں اور خدشات پر توجہ مرکوز کردیتا ہے۔اسے وہ خطرہ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے جو اس کے بالکل سامنے ہوتا ہے بلکہ اسے وہی خطرہ دکھائی دیتا ہے جواس کے لاشعور کے کسی خانے میں کسی اور وجہ سے پیدا ہوا ہوتا ہے ۔ہماری اسی بیماری کی وجہ سے اس وائرس نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔اگر آبادی کے لحاظ سے متاثرین کی تعداد کو دیکھا جائے تو کشمیر ہندوستان کی بڑی ریاستوں کے مقابلے میں بہت زیادہ متاثر ہے اور جس تیزی کے ساتھ متاثرین اور اموات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے وہ کچھ اور عرصہ اگر اسی طرح بھی جاری رہتا ہے تو کشمیر کی آبادی اس قدر گھٹ جائے گی کہ جس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ابھی وقت ہے لوگ اگر سنبھل جائیں تو ہلاکت خیزی کے اس طوفان کو کسی حد تک روکا جاسکتا ہے ۔ یہ بات عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے بھی بتادی ہے کہ اگر صرف ماسک اور سماجی دوری پر عمل کیا جائے تو ہلاکت خیز وبا کو روکا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔اگر ہم اس قہر سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو باقی جو بھی لڑائیاں ہیں ہم لڑسکتے ہیں ورنہ جب ہم ہی نہیں رہیں گے تو ہماری لڑائیاں بھی باقی نہیں رہیں گی ۔ اس موقعے پر افسوس اس بات کا بھی ہے کہ حکومت بھی نہ درست فیصلے کرپارہی ہے اور نہ ہی فیصلوں پر عمل کروانے میں کامیاب ہورہی ہے ۔اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بھی دیکھے کہ ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو کام کرنے کے لئے مجبور ہے تاکہ اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکے ۔ لاک ڈائون پر سختی کے ساتھ عمل درآمد اس طبقے کو ختم کررہا ہے ۔دوبارہ لاک ڈائون سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہئے تھا ۔ بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ماسک پہننے اور سماجی دوری برقرار رکھنے پر لوگوں کو آمادہ یا مجبور کرنے کے لئے ایک ٹھوس حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ کاروبار بھی بند نہ ہو اور کرونا کا پھیلائو بھی روکا جاسکے ۔ دوبارہ لاک ڈائون کرانے میں خود تاجروں نے ہی اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اب اس کے نتائج دیکھ کر وہ پھر اس کی مخالفت کررہے ہیں ۔حکومت کو بڑے تاجروں سے مشورہ کرنے اور ان کی تجاویز پر عمل درآمد کرنے سے زیادہ ماہرین سے مشورہ کرنا چاہئے اور انہی کی تجاویز پر عمل درآمد بھی کرنا چاہئے ۔ہر زاوئیے سے حالات کو دیکھنا چاہئے اور ہر بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہر اقدام ناکام ثابت ہوگا ۔