اس وقت پوری دنیا سخت ترین حالات سے دوچارہے، پورے عالم پرماتمی سکوت چھایا ہوا ہے ہر طرف ہو کاعالم ہے، وبا کی شکل اختیار کرنے والے اس کورونا وائرس نے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک تک کو زیر کردیا ہے، اس جان لیوا وائرس کا مرجع اور مصدر چین ہے جہاں کی ٹیکنالوجی کا لوہا پوری دنیا مانتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیامیں سر فہرست ملکِ چین کو اس وائرس نے گھٹنوں کے بل جھکا دیا ہے۔وہاں کی انتظامیہ کو اس ناگہانی وباء نے مایوس اور عاجز کردیا۔ اٹلی جوایک یورپی ملک ہے جہاں کا محکمہ طب ترقی میں اتنا ایڈوانس ہے کہ اسے طب کے معاملے میں یورپ کے بیشتر ممالک پر فوقیت حاصل ہے، اس کے باوجود اس وائرس نے ان کی کمرتوڑدی ہےاور رات دن کی انتھک کوششوں کےباوجود ان کے تجربات کو ناکام کردیا ہے۔ امریکہ ،دنیا جسے سپر پاور مان رہی ہیںآ?ج وہاں بھی یہ مرض اپنے پر پھیلا چکا ہے اور وہ بھی اس وبائی مرض سےشکست خوردہ نظر آ رہا ہے۔ اس وحشت ناک مرض کی وجہ سے زیادہ تر اموات ترقی یافتہ ممالک میں ہوچکی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ ا?ٓرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق متاثرین کی تعداد 8 لاکھ 90 ہزارہوگئی ہیں اور اموات 45000 تک پہنچ چکی ہیں۔ چین میں مرنے والوں کی تعداد 3305 پہنچ چکی ہیںجبکہ اٹلی جو ہیلتھ کیر میں صف اول کے ممالک میں شمار ہوتا ہے، میں مرنے والوں کی تعداد 12428 سے تجاوز کر چکی ہیں۔وہیں دوسری طرف کچھ سوقیانہ مزاج رکھنے والے لوگ اس آ?فت سماویہ کومزاحیہ انداز میں لے کر اس پر لطیفے اور چٹکلے بنا رہے ہیں اور کچھ اس کو پھیلا بھی رہےہیں۔ ایسے حالات اور تکلیف دہ مناظر کےپیش نظر عالم انسانیت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے توبہ و استغفار میںرہ کر آخرت کے سفر کی فکر اور تیاری میں مشغول ہونا چاہئے۔ یہ وبائی بیماری جہاں دن بدن زور پکڑتی جارہی ہے اور اس بیماری سے جس قدر خوف اور دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے ،اس نے بعض لوگوںکو اخلاقیات سے دور کردیا ہے۔جہاں اس وقت انسان ہونے کے ناطے ہر کسی کومکمل طور پر احتیاطی تدابیر اختیارکرنا لازمی ہے اور ایک دوسرے کی بھرپور مددبھی کرنی ہےاورعالمِ انسانیت کو اس غم و الم اور مصیبت و پریشانی کے دور سے نجات دلانے کے لئے بھرپور تعاون دینے کی بھی ضرورت ہے۔ وہاں ہم نےجذبہء ایثار و قربانی کوبالائے طاق رکھ کر ، اخلاقیات کی ساری تعلیمات کو بھلا کر، اس طرح بھاگ کھڑے ہوئے ہیں جیسے ہمارے پیچھے کوئی جنگلی جانور لگا ہو۔جواں ہمت سبق لیتے ہیں دنیا میں حوادث سے۔زبوں ہمت جو ہوتے ہیں وہ پچھتایا ہی کرتے ہیں۔ایسے کشیدہ ماحول اور بُرے حالات میں ہمارے لئے بہترین راہ نمائی حضور اقدس?ؐکااعلیٰ اسوہ ہے۔ ہمیں اْس دور کی طرف پلٹ کردیکھنا ہے کہ آ?یا اگرایسی صورت حال اْس دور میں پیش آ?ئی ہے تو حضور ?صلی اللہ علیہ وسلم اور ا?ٓپ کے صحابہ?ؓنےایسے حالات میں ان سب چیزوں کا کس طرح سے مقابلہ کیا ہے، کیسی احتیاطی تدابیر اور حکمتِ عملی اختیار کی گئی اور کن دعاؤں اور کس طرح سےرجوع الی اللہ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جب ہم نے تاریخ کامطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ علامہ ابن کثیر اپنی کتاب تاریخ ابن کثیر:( ج12، ص240 )میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ سنہ 18ھ میں طاعون عمواسؔ کا واقعہ پیش آ?یا ہے،جب خلیفہ راشد ثانی حضرت عمر بن خطاب ؓ کا دور تھا، جس میں بڑے بڑے کبارصحابہ?ؓشہید ہوئے ہیں، جن میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح ، حضرت معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان اور اشراف صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین بھی شامل تھے۔طارق بن شہاب الجبلی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابو موسیٰ کے پاس ان سےگفتگو کرنے کے لئےاُن کے گھر کوفہ آئے اور جب ہم بیٹھ گئے تو ا?ٓپؓ نے کہا گھیراؤ?نہ کرو، اس گھر میں ایک شخص وبائی بیماری سےمرگیا ہے،اس لئے تم پر اس بستی سے دور چلے جانے میں کوئی حرج نہیں ۔پس تم اپنے شہروں کی وسعت اور صحت افزا جگہ میں چلے جاو?۔حتیٰ کہ یہ مصیبت دورہوجائے۔ میں تمہیں بتاو?ں گا کہ جس چیز کو ناپسند کیا جاتا ہے ،اس سےبچا جاتا ہے اور باہر نکل جانے والے کے متعلق ایک خیال یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر وہ ٹھہرتا تو مرجاتا اور قیام کرنے والے کے متعلق خیال ہوتا ہے کہ اس کو ٹھہرنے کی وجہ سے بیماری لگ گئی ہے۔ اگر وہ باہر چلا جاتا تو اسےبیماری نہ لگتی اور جب مسلمان ا?ٓدمی یہ خیال نہ کرے تو باہر چلے جانے اوراس سے دور ہوجانے پر اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ آگے لکھتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ اسی سال شام کی طرف ا?ٓئے اور جب سرؔع کے مقام پر پہنچے تو فوج کےامراء حضرت ابو عبیدہ بن جراح، حضرت یزید بن ابی سفیان اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنھم اجمعین نے آپ سے سرؔع آکر ملاقات کی اور آ?پ کوبتایا کہ شام میں وباء پھوٹ پڑی ہے، تو حضرت عمر ؓ نے حضرات انصار و مہاجرین سے مشورہ لیا اور پھر حضرت عمر ?نے دوسرے دن لوگوں کو واپس جانےکا حکم دے دیا جس پر حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا ، کیا آ?پ اللہ کی تقدیر سےبھاگتے ہیں؟۔ آ?پ نے فرمایا ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ اتنے میں حضرت عبد الرحمن بن عوف آ?گئے جو کہیں گئے ہوئےتھے ،کہنے لگے اس کے متعلق میرے پاس ایک علم کی بات ہے: میں نے رسول اللہؐ ?کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم سنو کہ فلاں قوم کے علاقہ میں وباء ہے تووہاں نہ جاو اور جب وہ کسی علاقے میں نمودار ہوجائے اور تم وہاں موجودہو تو اس سے بھاگ کر نہ نکلو، تو پھر وہ لوگ واپس لوٹے۔دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ سنہ 357ھ میں قشرین (کاتک) کے مہینے میں لوگوںمیں ایک بیماری پھیلی، جس سے بہت سے لوگ مرگئے ۔ اونٹ سوار اکثر حاجی،حج کے لئے جاتے ہوئے راستہ ہی میں پیاس کی زیادتی کی وجہ سےجان بحق ہوگئے، صرف تھوڑے سے حاجی مکہ معظمہ تک زندہ پہنچ سکے اور ان پہنچنے والوں میں بیشترلوگ حج کے بعد انتقال کر گئے۔تاریخ ابن کثیر:( ج11،ص616-617)تیسری جگہ نقل کرتے ہیں کہ 478ھ میں حجاز، عراق اور شام میں بخار اورطاعون کا مرض پھیلاجس نتیجہ میں بےشمار چوپائے اور یہاں تک کہ جنگلی جانور بھی ہلاک ہوگئے ،جس کی وجہ سے دودھ اور گوشت کی شدید قلت ہوگئی تھی۔(البدای?والنھای: ج12، ص127)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ماضی کے کچھ واقعات کا ذکر کرتے ہیں، جوسنہ 749ھ اور 833ھ میں واقع ہوئے ہیں جن میں لوگ طاعون سے نجات پانے کے لئے اجتماعی دعا کے لئے جمع ہوئے، اور یہ عمل بجائے بیماری کے خاتمے کے اس میں سینکڑوں گنا اضافے کا موجب بن گیا۔ قاہرہ میں جب پہلی بار وبا پھیلی تو اس سے روزانہ چالیس سے بھی کم افراد کی موت ہوتی تھی لیکن پھر لوگوں نے صحراءکا رخ کیا اور وہاں پر جمع ہوکر اجتماعی دعا ئیں کیں اور تین دن کے روزے رکھے،پھر جب واپس لوٹ تو چند دن بعد شہر میں فی دن ہلاکتیں ایک ہزار سے بھی تجاوز کر گئیں۔ جس کی وجہ مریض لوگوں کا اختلاط تھا۔ بذل الماعون فی فضل الطاعون۔(ص 378. )ان واقعات کو حافظ ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔(ج 14. ص 912-917.)
یہ طاعون کیا ہے ،کیوں ہوتا ہے ، اس کے اسباب کیا ہیں؟ اس کی رہنمائی فرماتے ہوئے رسول اللہ ?صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ طاعون بلا شبہ ایک عذاب اور عذاب کا بقیہ ہے، جس سے تم سے پہلے ایک قوم کو عذاب دیا گیا۔ پس جب یہ کسی علاقے میں نمودار ہو اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے فرار ہوکر نہ نکلو اور جب تم کسی علاقے میں طاعون کے متعلق سنو تووہاں نہ جاو۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے، جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے،بھیجتا ہے اور اللہ نے اس کو مؤمنوں کے لئے رحمت بنایا ہے، پس جو بندہ جب کہ طاعون پڑے اور وہ اسی اپنے شہر میں صبر کرتا رہے اس علم و یقین کے ساتھ کہ اُسے وہی (بیماری و مصیبت) پہنچتی ہے ،جو اللہ نے اس کے حق میں لکھا ہے تو ایسے شخص کو شہید کے مثل اجر دیا جائے گا۔۔ (بخاری 5403)ان باتوں کے پیش نظر ہماری ریاست جموں و کشمیر میں اس حوالے سے بڑی بے احتیاطی برتنے اورطفلانہ رویہ اختیار کرنے کی خبریں آ?رہی ہیں کہ باہر سے آ?ئے ہوئے افراداپنی سفری تفصیلات چھپا رہے ہیں اور ہنگامہ ا?ٓرائی کرکے بھاگ جاتے ہیںاور کہیں چھپ جاتے ہیں، جس سے وہ اپنے آپ کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیںاور دوسروں کو بھی ہلاکت کی دہلیز پر لے آ?تے ہیں۔ان لوگوں میں ذمہ دارانہ رویہ مفقود ہے، ہسپتالوں اور قرنطینہ سے راہ فرار اختیار کرکےگلی، کوچوں اور محلوں میں یہ مہلک بیماری بانٹتے پھرتے ہیں اور اس طرح سے یہ فرمان نبویؐ کی بھی صریح مخالفت کرتے ہیں۔سنن ابن ماجہ میں ہےکہ آپ ?صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا ضرر ولا ضرار نہ نقصان اٹھاو، نہ نقصان پہنچاو،دوسری جگہ فرمایا: ایذاءِ مسلم حرام ہے۔ گویا ان کا یہ عمل دونوں دین ودنیا کے اعتبار سے ان کے لئے خسارے کا سامان ہے۔جب کہ اس وبائی مرض کےایام میں گھروں میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا گیا ہے،لیکن ؎
مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
چنانچہ امام احمد بن حنبل ?نے اپنی مسند احمد میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ جو شخص بھی طاعون پھیلنے کے بعد اپنے گھر میں ثواب کی نیت سے صبر کرتا رہے، یہ جانتے ہوئےکہ اسے وہی کچھ ہوگا جو اللہ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے تو اس کے لئے شہید جیسا اجر ہوگا۔ طاعون زدہ علاقے میں رہ کر صبر اور اللہ پر توکل کرنارحمت و برکت کا سبب اور شہادت کے حصول کا ذریعہ ہے اور ایسے علاقے سےبھاگنا سخت وعید کا باعث ہے۔ حضرت انس ؓرسول اللہ ?صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتےہیں کہ طاعون ہر مسلم کے لئے شہادت ہے۔( بخاری 2675. ) نیز حافظ ابن حجر اپنی کتاب بذل الماعون فی فضل الطاعون کے صفحہ نمبر 378 پر وبائی بیماری کی حکمت کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ’’ اس سے لوگوں کی لمبی اور عارضی امیدوںمیں کمی آجاتی ہے اور وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجاتے ہیں اور ان کو آخرت اور ابدی زندگی کے لئے کچھ کر گزرنے اور تیار رہنے پر اُبھار دیتی ہیں‘‘۔اس وبائی مرض کی وجہ سے جو خوفناک اور بھیانک حالات عالم انسانیت کودرپیش ہیں، اس نے پوری دنیا کو لاک ڈاؤن اور محصور کرکے رکھا ہوا ہے۔ ایسےبرے حالات میں لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے سارے دنیاوی کام کاج بھول کراللہ رب العزت کی طرف متوجہ ہوں، اپنے خالق و مالک کو منانے کی کوشش کریں، توبہ و استغفار میں اپنا وقت گذاریں، اسی کے ساتھ ساتھ اپنے خالی اوقات کو مفید، کار آمد اور نفع بخش بنائے۔ جو لوگ مطالعہ کتب کا ذوق رکھتے ہوں وہ اپنا وقت اسی میں صرف کریں اور والدین اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کی اصلاح و تربیت احسن طریقے سے سرانجام دیں اور جن کےوالدین بزرگ ہوں اور ان کی خدمت کرنے سے ان کے بچے محروم رہ چکے ہوں تووہ یہ وقت غنیمت سمجھ کر ان کی خدمت میں لگ جائیں ،ساتھ ہی ساتھ ان سےزندگی کے تجربات حاصل کریں۔ الغرض جن لوگوں کا جس مفید کام سے دلچسپی ہےوہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اپنے اوقات کو نفع بخش بنا سکتا ہے۔گزر جائے گا یہ وقت بھی ذرا اطمینان تو رکھ۔
�����
الٰہی باغ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9469033846,