سال 2019میں چین کے وہان شہر سے نکلنے والے کرونا وائرس کی وجہ سے تمام ممالک پر ایک قیامت برپا کردی۔کوویڈ۔ 19 نے ایسی دستک دی کہ تمام ممالک کی معاشی حالت تباہ ہو چکی ہے۔ اسی کے ساتھ ہندوستان میں بھی اس وائرس نے قہر مچا دیا۔پہلی لہر میںلاک ڈائون کے بعد دوسری لہر نے جو قیامت برپا کیا تھا، اس بھیانک منظر کو کوئی بھول نہیں سکتا ہے۔ ملک میں ایک بار پھر سے کرونا کیسیز میں دن بدن اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس وبا کا ملک کے ہر چھوٹے بڑے اورامیر غریب پرگہرا اثر پڑا ہے۔ گزشتہ سال بھی چند ماہ لاک ڈائون رہا اور اس سال بھی کچھ ماہ لاک ڈائون ہونے کی وجہ سے عام عوام کی معمولات زندگی متاثرہو رہی ہے۔گذشتہ سال کی طرح اس بار بھی تمام شہریوں کو گھرپرہی رہنے کی ہدایت دی گئی ہے اور احتیاتی تدابیروں پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی جا رہی ہے۔اومیکرون کے بڑھتے خطروںکے مدّنظرایک بار پھر سے لاک ڈائون لگا دی گئی ہے۔ جس کے پیش نظر تمام تعلیمی ادارے اور کاروباری نظام ایک کے بعد ایک معطل کی جا رہی ہے۔
لاک ڈائون کی وجہ سے ان تمام شعبہ جات کے ساتھ ساتھ مزدورں کی معمولات زندگی پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔ مزدوراس کے پیش نظر مختلف مشکلات کا سامنہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ دو سالو ں میں اس کرونا نامی وبائی بیماری سے مزدور طبقہ کو جو نقصان ہوا ہے اسکی بھرپائی ہونا بہت مشکل ہے۔ملک کے سب سے حساس علاقہ یوٹی جموں اور کشمیر کے مزدور طبقہ کا بھی یہی حال ہے۔ جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کے مزدور بھی کویڈ۔19کی وجہ سے لگنے والی لاک ڈائون سے پریشان ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی آمدنی بلکل ختم سی ہو گئی ہے۔کئی مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔ایسے میں اب اومیکرون کی وجہ سے ایک بار پھر سے لگنے والے لا ک ڈائون نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
اس تعلق سے ضلع پونچھ کے متعدد مزدوروں سے جب بات کی گئی توان میں سے عبدالمجید عمر 32سکنہ منڈی کا کہنا ہے کہ’’ ہمارے سر پر ہر وقت غربت کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے۔ لیکن گزشتہ دو سالوں سے اس وبائی بیماری نے جتنا ہمیں نقصان پہنچایا ،ہم اس کی بھرپائی آنے والے کئی سالوں میں نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیںکہ ہم اپنے اہل خانہ کو گھر بیٹھ کر نوالہ کھلا سکیں۔ ہمیں سردی کے چھ ماہ میں ملک کے دیگر حصوں میں جا کر کام کرنا پڑتا ہے اور تب جا کر ہمارے گھر میں اہل خانہ کے افراد اپنے منہ میں نوالہ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے تین بچے ہیں اور ہم گھر کے تمام افراد بمشکل زندگی کے دن گزارتے ہیں۔ گاؤںبائیلہ کے ایک مزدور مختار احمدعمر 29 کا کہنا ہے کہ ’’ کرونا وائرس نے ہماراروزگار چھین لیاہے ۔ ہم گزشتہ دو سالوں سے اس وبائی بیماری سے جھوج رہےہیں ۔ہمارے بچوں کو شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔وہ حیرت سے سوال کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کو گھر بیٹھے نہ جانے حکومت کس بات کی تنخواہ دے رہی ہے ؟ اور بغیر کام کئے انہیں انکی اُجرت مل رہی ہے۔ جبکہ ہم مزدور انہیں ملازمین اور امراء کے گھروں میں کام کرتے ہیں اور اپنا پسینہ بہانے کے باوجود بھی ہماری اُجرت نہیں ملتی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ وہ رہنما جو انتخابات سے قبل ہمارے حق میں نہ جانے کیا کیا قصیدے پڑھ دیتے ہیں اور ہم سے ووٹ حاصل کرنے کے بعد جب اقتدار ان کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو ہمارے لئے نہ تو ان لیڈران کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ ہی ہمارے مسائل ان سے حل ہوسکتے ہیں۔ کرونا کے دوران ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے لیکن کسی بھی رہنما نے جرأت نہیں کی کہ وہ ان مزدوروں کے حالات کا مشاہدہ کرکے انکی مفلسی کے لئے کوئی آواز اٹھاتے۔نہ ہی حکومت کی جانب سے اس مزدور طبقہ کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی قدم اٹھایا گیا۔دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ بیماری ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اگرچہ ہم مشاہدہ کریں تو یہ بات قطعی طور پر بے جا نہ ہوگی کہ جہاں کرونا وائرس سے ہمارے ملک میں لوگوں کی اموات ہوئی ہیں، وہیں جانے انجانے میں ہزاورں لوگ بھک مری کا بھی شکار ہوئے ہیںکیونکہ جب مزدور اور نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آمدنی کے ذرائع بند ہوگئے تو ان کے گھروں میں چولہا بجھ گیا۔ مزدور طبقہ کو آج بھی اتنی مزدوری نہیں مل رہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پیٹ بھر کھانا کھلا سکیںکیونکہ جہاں کہیں مزدور کام کرکے اپنا گھر چلاتے تھے ،وہاں پرلاک ڈائون کی وجہ سے کام کاج بند ہوگئے ہیںاور مزدوروں کا روزگار چھن گیا ہے ۔ وہ بے یار و مددگار ہوگئے ہیں۔اس تعلق سے بات کرتے ہوئے گاؤں لورن کے ایک مزدور نعیم احمدتانترے عمر 26 سال کا کہنا ہے کہ ’’ ہم مزدور ہیں اور ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم دن رات محنت کرکے اپنے بچوں کو اس قابل بنائیں تاکہ وہ مستقبل میں مزدوری کرنے کے بجائے کسی منصب پر فائض ہوں ۔لیکن گزشتہ دو سالوں سے ہمارے بچے تعلیم سے کوسوں دورہو چکے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ ہماری طرح ہمارے بچے بھی بے کار ہو چکے ہیں۔ ہمارے آمدنی کے وسائل ختم ہوچکے ہیں ۔حکومت ہماری طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔
مزدور طبقہ کے حال و احوال کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ انتہائی کرب و لاچارگی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ملک میں کویڈ۔19کی تیسری لہر کو روکنے کے لئے لگائے جانے والے کسی بھی طرح کے لاک ڈائون یابندی خوش آئند بات ہے، کیونکہ ایسی کسی بھی طرح کی پالیسی عوام کے حق میں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی ایسی کسی بھی پہل میں پورا ملک ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن حکومت کوبھی چاہیے کہ وہ مزدوروں کے حق میں خصوصی فنڈز واگزار کریں، جس سے مزدور طبقےکے نقصانات کی کچھ بھرپائی ہو سکے اور کرونا سے ان کی معمولات جس طرح زندگی مفلوج ہو گئی ہے وہ کسی حد تک پھر سے پٹری پر واپس آسکے۔
منڈی،پونچھ