گزشتہ ایام میں لاہور میں ایسےا بر آلودہ موسم میں جب لوگ پارکوں اور میدانوں کا رُخ کرتے ہیں ، پاک بھارت مذاکرات کی ایک بیٹھک ہوئی۔اس میں دونوں ممالک کے درمیان کرتارپور راہداری کے حوالے سے مذاکرات ہوئے ۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم اس کے لئے شاباشی کے مستحق ہیں ۔ یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اپنے دورۂ امریکہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔کر تارپور پر ہوئے مذاکرات میں مثبت پیش رفت کے اشارے مل چکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ طرفین میں اسی فی صد معاملات طے پا چکے ہیں جب کہ اسلام آبادکی طرف سے راہداری پر اسی فیصد کام بھی مکمل ہو چکا ہے ۔کرتار پور راہداری پر مذاکرات کا یہ دوسرا دور تھا، جس میں بھارت کے آٹھ رُکنی وفد نے شرکت کی جب کہ پاکستان کی جانب سے تیرہ رُکنی وفدنے مذاکرات میں حصہ لیا۔ مذاکرات کے اس تازہ دور میں سکھ یاتریوں کی رجسٹریشن اور داخلے کے طریقہ کار ، کسٹم اور امیگریشن ، کرنسی کی نوعیت اور حد ، ٹرانسپورٹ اور قیام کی مدت کے حوالے سے بات چیت کی گئی ۔ کرتارپور راہداری کے قیام کے لیے بھارتی سکھ رہنما اور عمران خان کے سابق کرکٹر دوست نجوت سنگھ سدھو بارش کا پہلا قطرہ بنے ۔ گزشتہ سال عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد حلف برداری کی تقریب میں ان کی شرکت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نئی راہیں کھول گیا ۔ 28؍نومبر 2018کو وزیر اعظم عمران خان نے اس منصوبے کا افتتاح کیا جو نہ صرف دونوں ممالک کے رہنے والوں کے دل جوڑنے کا باعث بن رہا ہے بلکہ دونوں اطراف میں رہنے والے افراد کے لیے سُکھ شانتی اور ترقی کا باعث بننے کا مژدہ بھی سنا رہا ہے ۔ایک طرف لاہور میں جب یہ مذاکرات ہورہے تھے، اس سے دوروز قبل اسلام آبادمیں غیر رسمی سفارت کاری کا دوروزہ اجلاس شروع ہوا جس میں دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں ، صحافیوں ، دانش وروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بات چیت ہی تمام پیچیدہ مسائل کے حل کا واحد ذریعہ ہیں۔ اگرچہ سرکاری سطح پر ایسے اجلاسوں کی رسماًسرپرستی نہیں کی جاتی، اس کے باوجود ان کا اثر پالیسیوں میں کسی نہ کسی صورت دکھائی ضرور دیتا ہے ۔
بھارت پاک کے درمیان امن مساعی کا سلسلہ ۴۷ سے ہی نشیب و فراز کا شکار ہے ، کبھی ان سے برف پگھل گئی اورکبھی سر د مہری جوں کی توں قائم رہی لیکن موجودہ دورِ پُر آشوب میں ان کاوشوں کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ عالمی اور علاقائی طاقتیں بھی خطے میں امن کی بحالی میں براہ ِراست دلچسپی لے رہی ہیں ۔ بہر حال ا س وقت ڈائیلاگ میں ڈیڈلاک اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوصف سکھ برادری کو ان کے مذہبی رسومات کے لیے ہر ممکنہ سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہواہے ، اس سے نہ صرف دنیا بھر میں پھیلی ہوئی سکھ برادری میں ایک مثبت پیغام گیا بلکہ عالمی سطح پر اس قدام کو سراہا بھی گیا۔بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے ضمن میں ایک اور اہم اقدام گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غیر مستقل اراکین کے انتخاب میں پاکستان کی جانب سے بھارت کو ووٹ دینا بھی ماناجاتا ہے ۔پاکستان کے ووٹ کے باعث بھارت آئندہ دوسال کے لیے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رُکن بن چکا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ باہمی تنازعات کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کسی بھی عالمی فورم پر ایک دوسرے کی مخالفت کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ اس کی تازہ مثال ایف اے ٹی ایف میں نئی دلی کی جانب سے پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کے لیے مسلسل لابنگ ہے، جس پر اسلام آباد نے کہیں دبے اور کہیں کھلے لفظوں میں بھارت کے خلاف احتجاج بھی کیا ۔ بایں ہمہ دونوں ممالک کے درمیان اُمید کی ایک کرن اس وقت بھی پیدا ہوئی تھی جب بشکیک میں شنگھائی تعاون کی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاک بھارت کے وزرائے اعظم شریک ہوئے ۔افسوس کہ اس موقع پر بھی برف پگھلتی نظر نہ آئی ۔ اسے ہم جھلستی دھوپ میںتازہ ہو اکا جھونکاہی کہہ سکتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان یہ واضح پیغام دے چکی ہے کہ اگرامن کے لیے بھارت ایک قدم آگے آئے گا تو پاکستان دوقدم اٹھائے گا ۔
بھارت کے پارلیمانی انتخابات اب دوماہ قبل ہو چکے ہیں، اس لیے وقت آچکا ہے کہ آر پار کی حکومتیں اپنی ترجیحات میں علاقائی امن اور تعمیری تعلقات کوسرفہرست رکھیں ۔ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں ،اس لیے یہ تو پاگل پن ہی ہو گا کہ ان کے درمیان کسی قسم کی جنگ کا سوچا جائے ۔ نیز بہتر یہ ہوگا کہ عمران خان اپنےدورہ ٔامریکہ میںجہاں صدر ٹرمپ سے افغان امن کے حوالے سے بات چیت کریں گے ،وہیں پاک بھارت تنازعات کے حوالے سے کسی متفقہ حل پر سوچ وچار ہونا بھی ضروری ہو گا ۔ جنوبی ایشیا میں ان تنازعات کی موجودگی کے باعث امن ، ترقی اور پائیدار دوستی ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ اصولی طور پاک بھارت تعلقات میں اس وقت تک کوئی پیش رفت ممکن العمل ہی نہیں جب تک آر پار کشمیر حل کے لئے کو ئی نتیجہ خیز بات چیت نہیں کر تے کیونکہ خطے میں دوستانہ تعلقات کی ڈور اسی مسئلہ سے بندھی ہوئی ہے ۔ اس مسئلے کا حل پاک بھارت تعلقات کی عمارت کی بنیاد ہے ، اگر یہ بنیاد ہی کمزور رہی تو اس پر کھڑی ہونے والی عمارت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی اوروہ کسی بھی وقت دوبارہ سے گر سکتی ہے ۔ یہ ایک قابل صد ستائش امر ہے کہ کرتارپور راہداری کے اختتام پر واہگہ بارڈر پر ’’امن کا پودا‘‘ بھی لگایا گیا ۔ اسے ہم ایک اچھی پیش رفت سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ امن کےا س پودے کو ایک تناور درخت بنانے کے واسطےانڈو پاک قیادتوں کے علاوہ امریکہ سمیت خطے کی دیگر قوتوں کو مثبت انداز ِ فکر سے سوچ لینا چاہیے۔واضح رہے کہ جنوبی ایشیا کی تعمیر وترقی اور بقاوامن کے لیے جس قدر ضروری ہے کہ افغانستان میں دائمی امن بحال ہو، اُسی قدر مسئلہ کشمیر کا پُر امن حل ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس مسئلہ کی موجودگی میں جنوبی ایشیا کا مستقبل کسی صورت پرامن نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے دونوں ملکوںکو اپنے اپنے موقف کے خول سے باہر نکل آنا چاہیے تاکہ جنوبی ایشیا میں پھر ایک بار تعمیر وترقی ، بھائی چارے اور معاشی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو سکے ۔