اربازبچپن سے ہی پڑھائی میں بہت ذہین تھااور بچپن سے ہی میتھ میں اسکی خا ص دلچسپی دیکھنے کو ملتی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ B.com اول درجے میں پاس کر گیا۔پھر جلد ہی اسے بینک میں نوکری بھی مل گئی۔
ارباز پوری کی پوری تنخواہ اپنی اماں سائرہ خاتون کے ہاتھ میں رکھ دیتا تھا۔اماں اسے صرف جیب خرچ دیتی تھیں۔ارباز اب لون سیکشن میں آگیا تھا۔بقایا قرضہ اور نئے نئے قرضے کے معاملے وہی سنبھالتا تھا۔ایک دن ارباز اپنے کام میں بہت مصروف تھا کہ تبھی السلام علیکم ! کی نہا یت شیریں آواز کی باز گشت ہوئی۔
ارباز نے چونک کر دیکھا ،سامنے برقع پوش ایک خاتون کھڑی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارباز کے دیکھنے پر اس نے اپنے رخ روشن سے پردہ ہٹا دیا۔چہرے پر ہلکا سا میک اپ تھا۔کانوں میںڈائمنڈ کی چھوٹی سی بالی تھی۔گلے میں ڈایمنڈ کی نفیس سی چین چمک رہی تھی۔چہرہ ایک دم صاف و شفا ف بالکل چاند کا ٹکڑا تھا۔
اس لڑکی کو دیکھتے ہی ارباز کو اپنے باس کے چیمبر میں ٹنگی مدھو بالا کی تصویر یاد آ گئی۔پھر وہ اس سے مخاطب ہوا ،آپ کھڑی کیوں ہیں محترمہ بیٹھ جائیں۔۔۔۔۔۔!"
لڑکی ایک ادا سے شکریہ کہتے ہوئے چیئر کھسکا کر ارباز کے سامنے بیٹھ گئی۔پھر اپنا نام امشال بتا کر اپنا تعارف پیش کیا۔وہ ( B.s.c) پاس تھی۔اسکے والد کا ایکسپورٹ کا بز نس تھا۔اچھی خا صی رو یل فیملی سے تھی۔اس نے بیوٹیشن کا کورس کیا تھااور خود کا بیوٹی پالر کھولنے کے لئے ہی بینک سے لون لینے کے سلسلے میں بینک آئی تھی۔
"لیکن آپ کو قرض لینے کی ضرورت کیوں پیش آگئی محترمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟بقول آپ کے ،آپ کے فادر اس شہر کے رئیس آدمی ہیں‘‘۔ارباز بولا۔
امشال مسکراتے ہوئے بولی…"آپ ٹھیک کہ رہے ہیں میرے فادر جتنا چاہیں کیش دے سکتے ہیں ،لیکن میں اپنا بیوٹی پار لر اپنے قو ت بازو سے چلانا چاہتی ہوں،میں خود کمائونگی اور قرضہ بھی چکائوںگی۔"
یہ سن کر ارباز بہت خوش ہوا۔اس نے فو راً قرضے کا فارم اسے دے دیا۔ساتھ ہی ساری انفارمیشن بھی دے دی۔اور اسکے لئے چائے بھی منگوائی ۔
چائے پینے کے بعد فارم کو بیگ میں رکھ کر امشال ارباز کا شکریہ ادا کرکے چلی گئی۔
دوسرے دن امشال فارم بھر کر لے آئی ۔جس جگہ بیوٹی پا لر کھولنا تھا ،وہ جگہ دیکھنا ارباز کے لئے ضروری تھا۔اس بارے میں امشال کو بینک کے قاعد ے قانون سے واقف کرایا۔امشال نے فوراً موبائل سے رابطہ کر کے ابّا جان کو ارباز کے ویلکم کی تیاری کرنے کو کہا۔پھر وہ دونوں کار سے امشال کی کوٹھی پہنچ گئے۔
امشال نے ارباز کو جس کمرے میں بٹھایا ،اس حویلی نما کمرے کی سجاوٹ دیکھتے ہوئے ارباز کی آنکھیں دنگ رہ گئیں۔پرشئن قالین، سٹین گلاس کی کھڑکیاں، شو کیس میں سجی بیش قیمتی اشیا ء، دیواروں کی پینٹنگ، خوبصورت ڈیزائنر پردے ،ان ڈور سرامک پارٹ میں سجے خوبصورت پودے ،یہ سب ارباز بڑے اشتیاق سے دیکھتا رہا۔
تبھی امشال ہاتھ میں ٹرے لیکر روم میں داخل ہوئی۔ ٹرے میں لگی پرچ مختلف انواع و اقسام سے سجی تھی۔
"لیجئے نا سر…،امشال ارباز کی طرف پرچ بڑھا تے ہوئے کہی۔
اسی درمیان امشال کے ابا جان وہاں آگئے۔انکی شخصیت سے ہی انکی رئیسی جھلک رہی تھی۔ہلکے چاک لیٹی کلر کا سلک کا پٹھانی سوٹ پہنے ہوئے تھے۔گلے میں سونے کی موٹی چین تھی۔بالوں میں مہندی کی لالی، کسی مغل بادشاہ کی طرح لگ رہے تھے۔
آپ ارباز صاحب ہیں نا…امشال آپکی بہت تعریف کرتی ہے ۔
ابا جان آپ بھی نا۔یہ کہہ کر امشال کچھ شرما سی گئی۔پھر باپ بیٹی نے ضد کر کے ارباز کو خوب کھلایا پلایا۔ساتھ ہی ادھر ادھر کی باتیں بھی ہوتی رہیں۔چائے پلا نے کے بعد امشال نے ارباز کو بیوٹی پار لر کی وہ جگہ دکھائی جو کہ سارا سامان رکھنے کے لئے درکار تھی۔نل،بجلی وغیرہ کی بھی اچھی سہولت تھی۔جگہ بھی امشال کے نام پرہی تھی۔اپنے والدین کی وہ اکلوتی اولاد تھی۔بڑے نازوں سے پلی تھی۔ویسے روپے پیسے کی کوئی کمی نا تھی۔پر امشال اپنی ضد پر قائم تھی کہ اُس نے اپنا کچھ کرنا ہے۔
جب ارباز جانے کے لئے اٹھا تو امشال بولی…"ایسے کیسے جانے دونگی ارباز صاحب ،ایک منٹ روکیں ۔ " یہ کہکر وہ اندر چلی گئی اور پھر تھوڑی دیر بعد باہر آئی۔اسکے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی خوبصورت ڈ بیہ تھی اور دوسرے ہاتھ میں مٹھائی کا ایک ڈبہ تھا۔ پھر ارباز کو یہ سب پیش کرتے ہوئے بولی…"ہمارا تحفہ قبول کیجئے۔ارباز صاحب ذرا کھول کر تو دیکھئے کہ آپ کو ہمارا تحفہ پسند آیا یا نہیں "۔
ارباز نے ڈبیہ کھولی تو اس میں مہنگے مختلف رنگوں کے کفلنکس رکھے تھے۔
"پسند آیا آپ کو ہمارا تحفہ۔۔۔۔؟"امشال نے ارباز کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے ہوئے پوچھا۔
کجرے سے سجی امشال کی آنکھوں سے مانو ارباز دل ہی دل گھا ئل ہوئے جا رہا تھا۔
"ماشااللہ بہت خوبصورت ہے "بہت بہت شکریہ محترمہ !!ارباز خوش باش ہو کر بولا۔
پھر امشال نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ ارباز صاحب کو انکے گھر چھوڑ آئے۔
آج اپنے دو کمروں پر مشتمل اس چھوٹے سے گھر میں ارباز کو پہلی بار اپنے گھر سے نفرت سی ہوئی۔رات کے کھانے میں ہمیشہ کی طرح وہی دال چاول کددو چنے کی سبزی ،پاپڑ چٹنی ۔ویسے روز یہی کھانا ارباز بڑے ہی چاؤ سے کھاتا تھا۔پر اس دن نجانے کیوں اسے وہ کھانا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
اسکی تنہا زندگی میں امشال نامی شہزادی ہوا کے تیز جھونکے کی مانند وارد ہوئی تھی ۔
ارباز مٹھائی کا ڈبہ اماں سائرہ خاتون کو پکڑا کر ڈبیہ میں سے کفلنیکس نکال کر دیکھنے لگااور باقی افراد خانہ مٹھائی کھاتے ہوئے اسکی تعریف کرتے رہے۔
ارباز دل ہی دل میں امشال کے خواب دیکھتے ہوئے کب نیند کی وادیوں میں سو گیا ،اسے پتہ ہی نہیں چلا۔خوابوں میں کجرے سے سجی امشال کی بڑی بڑی روشن آنکھیں اُسے اپنی طرف مائل کر رہی تھیں۔کسی لڑکی کی چاہت سے محروم ارباز کی زندگی میں آئی یہ خوبصورت لڑکی اسکے دل کے سوئے ہوئے جذبات کو جگا گئی۔
کچھ ہی دنوں میں ارباز نے امشال کے قرضے کا معا ملہ اپنی طرف سے O.K کر کے بڑے افسر کے پاس بھیج دیا۔
بڑے افسرنے ارباز کو بلا کر تھوڑی پوچھ تا چھ کی۔ایک بار وہ امشال سے ملے بھی۔امشال کا جادو ان پر بھی چل گیا۔امشال نے ان دونوں کو ایک مشہور ریستوران میں دعوت بھی دی۔دوسرے دن امشال کو 2 لاکھ روپئے کا چیک بھی مل گیا۔
ارباز پر شکریہ ،مہربانی وغیرہ وغیرہ کی رم جھم پھوہار کر کے امشال نے اسکے دل کے اندر سوئے جذبات و پیار کے خوبصورت احساس کو جگا دیا۔
امشال کے کھاتے میں چیک جمع ہو گیا۔90فیصد رقم اسے خریداری کے بلوں کے ساتھ ملنے والی تھی۔پر امشال کے لئے اس پروسیس میں تھوڑی رعایت دی گئی ۔ارباز سے میٹھی میٹھی باتیں کر کے کیش ڈسکائو نٹ ملے گا۔ ایسا ویسا بتا کر اس نے 90 ہزار روپے کا چیک ارباز کے سائن کے ساتھ لے لیا۔لیکن پھر روپئے ملنے میں بھی کوئی دقت نہیں ہوئی۔کیش ملتے ہی وہ شان سے خوشی خوشی گھر لوٹ گئی۔
ارباز پھر سے اپنے کام میں بزی ہو گیا۔امشال کا کام ہو جانے پر وہ بھی بہت خوش تھا۔کیش ملنے پر خوشی سے چمکتا اسکا چاند سا چہرہ بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا۔
امشال اب اپنا بیوٹی پار لر شروع کریگی۔ اناگریشن پر میںمجھے بلائے گی۔میں بھی اسکے لئے خاص تحفہ لیکر جاؤنگا۔اسکا پار لر ٹھیک چلی گا۔جلد سے جلد وہ اپنے قرض بھی چکا دیگی۔ تب بینک کے منیجر صاحب فوراً قرض واپسی پر خوش ہو کر اسے شاباشی دینگے۔ارباز ! یونہی بیٹھے بیٹھے خواب و خیال کی دنیا میں منہمک تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہفتہ گزر گیالیکن امشال کا بینک میں آنا نہیں ہوا،نہ ہی فون پر گفتگو ہوئی۔اب ارباز کے دل میں کچھ ہلچل سی مچی۔ایک دن لنچ اُوور میں وہ امشال کی کوٹھی پہنچا…ارے یہ کیا!……مین گیٹ پر بڑا سا تالا لٹکا ہوا ہے۔امشال نے جو کمرہ بیوٹی پالر کے لئے دکھایا تھا وہ بھی بند ہے۔
ارباز یہ دیکھ کر کافی شوکڈ تھا۔امشال اور اسکے ابا جان کی اطلاح دینے والا کوئی نہیں تھا۔
"ارے صاحب کہاں پھنس گئے آپ۔۔۔۔۔۔۔؟
"آخر ایک دکان والے سے ارباز نے پوچھا۔۔۔۔۔۔"
پہلے تو اس نے کچھ بتانے سے انکار کر دیامگر پھر ارباز کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا ،ارے صاحب کہاں پھنس گئے آپ ان لوگوں کے چنگل میں۔۔۔۔۔۔؟
ارے اس عمارت کے مالک خورشید صاحب ڈان ہیں ڈان۔۔۔؟ لیکن جب لڑکے نے دوبئی میں سارا بز نس اپنے قبضے میں کر لیا تو یہ کوٹھی بیچنی پڑی انہیں۔ ابھی کچھ روز پہلے انکی وہ چنٹ لڑکی جو خوبصورت بلا ہے ۔پتہ نہیںبنک پرکیا چکّر چلایا اس نے کہ اچھا خاصا ہاتھ مار کر باپ بیٹی دونوں دوبئی چلے گئے۔
اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے ،کجرارے نینوں کا جادو چلا کر ارباز کو شیشے میں اتار کر امشال اسے دو لاکھ کا چونا لگا کر فرار ہو گئی۔ارباز کو یہ ساری باتیں جان کر زبر دست جھٹکا لگا۔
پاس ہی کے پا ن شاپ میں پرانا گانا بج رہا تھا۔"کجرا محبت والا، انکھیوں میں ایسا ڈالا ،کجرے نے لے لی جان۔۔۔۔ہا ئے میں قربان۔۔۔۔۔۔!!
اچانک ایسا لگا کہ مانو جیسے یہ نغمہ ارباز کے لئے جلے پر نمک کا کام کر رہا تھا۔
غمزدہ ہو کر ارباز آفس لوٹ آیا۔لنچ باکس یونہی میز پر رکھا تھا۔آج اسے لنچ کی جگہ باس کی ڈانٹ پھٹکار کھانی تھی۔
"ارباز سر "تبھی آواز آئی ،ارباز نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو سامنے صائمہ کھڑی تھی۔
"بولو۔۔۔ ؟"ارباز بولا۔
سر میں امشال میڈم کے بیوٹی پار لر میں آئی بروٹھیک کرانا چاہتی ہوں۔"
یہ سنتے ہی ارباز کا پا را ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔
وہ غصّے سے بولا ،دیکھو تم اس وقت یہاں سے چپ چاپ چلی جاؤ ۔
صائمہ ہنستے ہوئے وہاں سے ہٹ گئی۔
تبھی ارباز نے باس کے پیون کو اپنی طرف آتے دیکھا۔باس نے اس سے امشال کے قرضے کی رپورٹ منگوائی تھی۔ارباز کا دل پانی پانی ہو رہا تھا واقعی ۔محبت والے اس کجرے نے اسکی جان لے لی۔۔۔۔۔۔۔!!
رابطہ :آ رہ ،بہار،برقی پتہ[email protected]