مطالعہعربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ توجہ، دھیان اور غور کرنے کے ہیں۔ عام طور پر کتاب پڑھنے اور کتاب سے معلومات اخذ کرنے کے عمل کو مطالعہ کہاجاتا ہے مگر مطالعہ صرف معلومات میں اضافے کا نام نہیں ہے بلکہ مطالعہ ایک ایسا منفرد عمل ہے جو ذوق میں بالیدگی، طبیعت میں نشاط، نگاہ میں تیزی اور ذہن و دماغ کو تازگی بخشتا ہے۔ مطالعہ نہ صرف فکری تربیت میں معاون ہوتا ہے بلکہ گفتگو میں پختگی، یقین میں اضافے اور شخصیت میں اعتماد کا باعث بھی بنتا ہے۔ مطالعہ انسان کا امتیاز ہی نہیں بلکہ اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ معاشرے کی صحیح اخلاقی تعمیر و ترقی کے فریضہ کے لیے مطالعۂ کتب ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا مطالعہ ایک اہم سماجی ضرورت ہے۔ صحافی اور قلم کار حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ ایک شہسوار قلم کے لیے مطالعہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کے لئے دانا اور پانی کی ضرورت ہے۔ شورشؔ نے کہا کہ کسی مقرر کا بلامطالعہ تقریر کرنا ایسا ہی ہے جیسا بہار کے بغیر بسنت منانا اور یالُو میں پتنگ اُڑانا۔ اسی طرح ایک صاحب کا قابل قبول دعویٰ ہے کہ آج لوگ لکھنے والے زیادہ اور پڑھنے والے کم ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں تحریر کی اثر آفرینی ختم ہوگئی، تحریر کو موثر بنانے کے لئے پہلی ضرورت ہوتی ہے کہ ایک صفحہ لکھنے کے لئے تقریباًسو صفحات کا مطا لعہ لکھنے والے کو حاصل ہو۔
امام فخر الدین رازیؒ کو اس بات کا افسوس ہوتا تھا کہ کھانے پینے کا وقت مطالعہ کے بغیر گزرجاتا ہے۔ چنانچہ اکثر فرمایا کرتے تھے اللہ کی قسم مجھے کھانے پینے کے وقت علمی مشاغل چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے کیونکہ وقت بہت ہی قیمتی چیز ہے۔ خلیفہ عباسی کے مشہور وزیر فتح بن خاقان کے متعلق صفحات ِقرطاس گواہ ہیں کہ وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب ضرور رکھتے تھے اور جب انہیں اپنی ذمہ داریوں سے فرصت ملتی تھی، فوراً کتاب نکل کر پڑھتے تھے۔ آج مطالعے یا کتب بینی کے تعلق سے الگ ہے۔ آج ہم موبائل، فیس بک اور دیگر میڈیائی ذرائع پر گھنٹوں مصروف رہ کر اپنا قیمتی وقت نہایت ہی ظالمانہ اندر سے ضائع کرتے ہیں اور مطالعہ کتب کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں رہتا۔البیرونی کا کتابوں سے عشق کا عالم یہ تھا کہ ایک ایک کتاب کی تلاش میں کئی کئی برس سرگرداں رہتے تھے۔امام محمدؒ رات بھر بے قرار رہتے اور فرما یا کرتے تھے :''میں کیسے سوسکتا ہوں جب کہ عام مسلمان ہم پر یہ تکیہ کرکے سوجاتے ہیں اور اپنے مسائل و معاملات کی گرہ کشائی اور دینی و شرعی رہنمائی کے لئے ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر میں سوجاؤں تو دین کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے ''۔ امام مسلم کو دیکھئے، امام مسلم مطالعے کے دوران حالت ِاستغراق میں ہوتے ۔ ایک دفعہ مطالعہ کررہے تھے اور پاس میں کھجور کی ٹوکری رکھی ہوئی تھی، مطالعے میں اتنے مست تھے کہ بے خبری کے عالم میں سارے کھجور کھالئے، اُدھر مسئلے کا حل مل گیا، اِدھر ٹوکرخالی ہوگئی۔ ذرا سوچئے اگر ایک شخص روزانہ صرف ایک گھنٹہ مطالعہ کرے تو ایک ماہ میں 600 ؍صفحات کی کتاب پڑھ سکتا ہے اور ایک سال میں 7200؍ صفحات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایک شخص کی عمر 65 سال ہو اور وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر 25 کی عمر میں مطالعہ شروع کرے، وہ 40؍ سال تک مطالعہ کرپائے گا اور اس مدت میں 288000؍ صفحات پڑھ ڈالے گا۔ اوسطاً اگر ایک کتاب 80؍ صفحات کی ہو تو اس دوران 3600؍ کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ تصور میں لایئے کہ اتنی کتابوں کے مطالعے کے بعد آپ کے علم وآگہی کی کیفیت کیا ہوگی؟ اس علم سے آپ کا کتنا فائدہ ہوگا؟ معاشرے کا کتنا فائدہ ہوگا؟ اگر آپ مطالعہ ہی نہیں کرتے تو کتنا بڑا ذاتی و سماجی نقصان ہوگا ؟ کیا اس خسارے کی تلافی ممکن ہے ۔ الغرض ہر فرد اپنے اندر علم کی پیاس پیدا کرے اور حاصل شدہ علم کے مطابق اپنے عمل و کردار کی اصلاح کر ے ۔ آپ کامطالعہ برائے مطالعہ نہ ہو بلکہ اس کام کی حاصل شدہ چیزوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ ۔ امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ کتابیں انسان کو حیات ِفانی میں عزت اور حیات دوامی میں ابدی سکون بخشتی ہیں۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب مطالعہ نام و نمود بٹورنے کے بجائے ہدایت پانے کے لئے کیا گیا ہو۔بہترین مطالعہ کے لئے چند قابل عمل تجاویز پیش خدمت ہے:
1۔ مطالعہ کے لئے خاص وقت متعین ہو ۔2۔ مطالعہ کا نصاب متعین ہو۔ قرآن مجید مع تفسیر، سیرت پاک اور تاریخ اسلامی کو ضرور شامل کریں۔ اس کے بعد حسبِ ضرورت و صلاحیت مزید مطالعہ کریں۔ 3۔شروعات میں ایسی کتابوں کا مطالعہ جن سے آپ کو براہ راست دلچسپی ہو تاکہ آپکی کتب بینی و مطالعہ کی عادت بنے۔ 4۔کسی بھی کتاب کو چھان پھٹک کر ذائقہ نہ چکھا جائے بلکہ نیت باندھ کر آغاز ہی سے شروع کیا جائے۔5 ۔مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصلِ مطالعہ کو رقم کریں تاکہ حاصل شدہ معلومات اچھی طرح یاد رہیں۔ امام شافعی ؒ کا مقولہ ہے کہ معلومات ایک شہ کار کی طرح ہے اور کتابت کے زریعے اسے قید کرلو۔ اسی لئے دوران مطالعہ کتابت کا خاص اہتمام کریں۔
6۔کوشش کریں کہ جو کتاب مطالعہ کرنا ہے اسے خرید لیں۔ اسطرح سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپکی اپنی ایک ذاتی لائبریری قائم ہوجائے گی۔7۔ اپنی فکر اور من پسند جماعت کے ساتھ ساتھ دوسرے افکار اور دیگرجماعتوں کے علماء کو بھی پڑھے اور بغیر کوئی مخالفانہ رائے قائم کئے کچھ سیکھنے کا ذہن لئے ان کا مطالعہ کر یں پڑھیں ۔ یہی کتب بینی کے اعتبار سے مناسب طرزِعمل ہے۔8۔مطالعہ کے زیر اثر کسی بھی نظریے یا فکر کی جانچ پرکھ قرآن و سنت کی کسوٹی پر کریں تاکہ مطالعے کی تان کسی خلاف اسلام کام یا سوچ پر نہ ٹوٹے ۔ تاہم اس کے لئے لازم ہے کہ آدمی وسیع المطالعہ بھی ہو اور وسیع المشرب بھی ہو۔