موجودہ دور میں انسان جتناٹیکنالوجی سے قریب ہوتا جارہا ہے، کتب بینی کا شوق بھی دم توڑتادکھائی دے رہاہے ۔کتابیںصرف لائبریریوں اور چند اہل ذوق تک محدود رہ گئی ہے۔کچھ لوگ انٹرنیٹ کو اس صورتحال کا قصور وار ٹھہراتے ہیںلیکن یہ کہنا درست نہیں کیونکہ انٹرنیٹ ایک میڈیم ہے، جس نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ہے۔آج کل مختلف موضوعات پر برقی کتابیں آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں یعنی اس ایجاد نے دنیا بھر میں پھیلے علوم تک رسائی آسان بنائی ہے۔ اگرچہ ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کر لیا ہے لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ نوجوان طبقے کو مطالعہ کی طرف راغب کرنا کٹھن کام بن چکا ہے حالانکہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے کیلئے ماہرین مطالعہ کو لازمی قرار دیتے ہیں کیونکہ اچھی کتابیں شعور کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سے فضول مشغلوں سے بھی بچاتی ہیں۔
کیا نسل نووقت کی کمی کے باعث اس لا تعلقی کا شکارہے یا کتابوں سے دوری بھی اقدار سے دوری کی طرح ہمارا رویہ بنتا جا رہا ہے۔کچھ نوجوان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وقت کی کمی کے باعث ہم مطالعہ نہیں کر پاتے۔اگر ہم بحیثیت قوم کسی چیز میں خود کفیل ہیں تو وہ وقت ہی ہے۔ہم وقت کی دولت سے مالامال ہیں ۔گھنٹوں انٹرنیٹ، موبائل فون اور سماجی ویب سائٹوں پر برباد کرنے کے بعد بھی وقت کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔دنیا کی ترقی یافتہ اور مصروف ترین اقوام نے کتابوں سے رشتہ نہیں توڑاہے۔ بس اسٹاپ،ریلوے اسٹیشن اور ہوائی اڈوں پر بک اسٹال لگے ہوتے ہیں جہاں کتابوں کے شیدائی مطالعے میں مصروف نظر آتے ہیں۔علم کی روشنی کو جب تک سماج میں پھیلا یا ہی نہیں جائے گا، جہالت کے اندھیرے کیسے ختم ہوں گے۔کتاب کو انسان کا سب سے اچھا دوست قرار دیا جاتا ہے مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ خود اس دوست سے دشمنی کی جارہی ہے۔کسی پڑھے لکھے شخص سے پوچھیں کہ اس نے آخری کتاب کب خریدی تھی یا اس نے آخری کتاب کب پڑھی تھی۔حال یہ ہے کہ طالب علم کتاب خریدنے یا لائبریری جانے تک کی تکلیف ہی نہیں کرتے۔یہاں تک کہ نصابی کتابوں کے بجائے نوٹس پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے۔کتابیں کسی بھی قوم کا ورثہ ہوتی ہیں،یہ نسل نو کونئے خیالات سے روشناس کراتی ہیں۔ کتابوں میں علوم وفنون کے لازوال خزانے ہیں، بلا امتیاز رنگ و نسل ، مذہب و ملت ہر انسان کی زندگی کے نشیب و فراز میں ساتھ دیتی ہیں۔کتابیں معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیںاور ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔
نپولین بونا پارٹ کتب بینی کے متعلق کہتے ہیں کہ جو لوگ مطالعہ کتب کرتے ہیں وہ ذہنی طور پر اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ دنیا کی باگ دوڑ سنبھال سکیں۔ کتاب نے علم کے فروغ اور سوچ کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہوئی تو انسان نے چٹانوں، درختوں کی چھالوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں، کھجور کے پتوں ، ہاتھی دانت، کاغذ غرض ہر وہ شے لکھنے کے لئے استعمال کیا، جس سے وہ اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا سکے۔ کتابوں کی داستان بھی عجب ہے۔ کبھی انہیں آگ لگائی گئی تو کبھی دریا برد کیاگیا ، کبھی چرا لیا گیاتو کبھی دفنا دیا گیا۔ کبھی یہ شاہی دربار کی زینت بنیں تو کبھی فٹ پاتھ پر کوڑیوں کے دام فروخت ہوئیں۔ لیکن کتاب اور علم دوستی معاشی خوشحالی اور معاشرتی امن کی ضامن ہے۔
دانشور طبقے کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی یلغار کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔کچھ لوگ مطالعہ میں کمی کی بڑی وجہ کتابوں کی قیمتوں میں اضافہ قرار دیتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مطالعہ کا اشتیاق تو ہے مگر کتاب اب عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہے۔کہتے ہیں کہ کتاب کا انسان سے تعلق بہت پرانا ہے اور یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور خود آگاہی اور اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کا ادراک پیدا کرتی ہے۔ کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے، جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں، اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقا ء اور ارتقاء محال ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے علم و تحقیق کا دامن چھوڑ دیا، وہ پستی میں گر گئی۔کتابوں سے دوستی رکھنے والا شخص کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ کتاب اس وقت بھی ساتھ رہتی ہے جب تمام دوست اور پیار کرنے والے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
کتاب اور انسانی تہذیب و تمدن کا شروع سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ انسان نے اس دنیا میں اپنا سفر بے سر وسامانی کے عالم میں شروع کیا اور اپنی بقاء کی جنگ لڑتا رہا۔ بقاء کے اس سفر میں انسان نے صدیوں تک ایک کٹھن اور کسمپرسی کی زندگی گزاری۔صدیوں گمنام رہنے کے بعد انسان کو ایک ایسی کلید ملی جس نے انسانی ذہن میں علم و آگہی کا انقلاب پرپا کر دیا۔ اس کلید نے جب انسانی ذہن کے تاریک دریچوں کو کھولا تو انسان نے علم و آگہی کا چمکتا ہوا سورج دیکھا۔ انسان نے کتاب کی صورت میں اس کلید کو اپنے سینے سے لگایا اور تحقیق و مشاہدے کے ایک نئے سفر پر نکل پڑا۔کتاب نہ صرف شخصیت سازی کا اہم ذریعہ ہے بلکہ ایک با تہذیب اور زندہ معاشرے کے قیام کا بھی ایک کلیدی عنصر ہے۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ جن قوموں نے کتاب سے اپنا رشتہ مضبوط کیا وہی قومیں ترقی اور عروج حاصل کر سکیں۔
جس معاشرے میں مطالعہ اور تحقیق رک جائے وہ معاشرہ ذہنی و عقلی طور پر ساکن ہو جاتا ہے جبکہ جس معاشرے میں مطالعہ اور مشاہدہ کی روش ہو وہ علم و آگہی کی خوشگوار تبدیلیوں سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ اس بات سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ قوموں کی ترقی و عروج کتاب دوستی اور علم سے وابستہ ہے۔ کتب بینی کی عادت کو نسلِ نو میں پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ابتداہی سے بچوں میں مطالعہ کی عادت پروان چڑھائیں تاکہ بڑے ہوکر یہ عادت پختگی اختیار کر جائے۔بلاشبہ کتابیں انسانی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں اور ادب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے۔ آج بچوں اور نوجوان نسل میں مطالعہ کا شوق پیدا کرکے اور کتابوں کو فروغ دے کر معاشرے کے شدت پسندی کے جذبات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
امریکی ناول نگار جارج مارٹن لکھتے ہیں’’جو شخص کتابیں پڑھتا ہے وہ ہزاروں زندگیاں جیتا ہے جبکہ نہ پڑھنے والا شخص صرف ایک زندگی جیتا ہے‘‘۔اگر ہم نے دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام اور عزت واپس چاہئے تو ہمیں بالخصوص نوجوان طبقے کو کتاب اور علم وآگہی کا دامن مضبوطی سے تھامنا ہوگااور کتاب بینی کو اپنی مصروفیت کا ایک اہم جزو بنانا ہو گا۔