مندرجہ ذیل چند سوالات عرض ہیں، بمہربانی مختصر وضاحت فرمائیں؟؟
(۱) ایک مسلمان کے لئے لباس کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے؟
(۲) مردے کےہاتھ باندھ کے رکھنے اور غسل کے بعد کفن باندھنے اور پھر چہارم کی رسم کے بارے میں کیا احکامات ہیں؟
(۳) قرض کے لین دین ، جسکا سود ایک اہم حصہ ہوتا ہے ، کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
(۴) لڑکے اور لڑکی کے درمیان رشتہ طے کرنے سے پہلے یہ شرط رکھی جائے کہ دونوں پہلے ایک دوسرے سے مل لیں، پھر فیصلہ کرینگے، کیا ایسا کرنا جائزہے؟
عبدالرحمان ملک
فاروق احمد ملک
لباس کے بارے میں شرعی ہدایت
جواب:۔ لباس کے متعلق شرعی اصول یہ ہے کہ ہر وہ لباس جو انسان کے ستر کو پوری طرح نہ چھپائے وہ غیر شرعی لباس ہے لہٰذا جو لباس بدن پر اس طرح تنگ اور چست ہو کہ جسم کے اعضائے مستورہ کا حجم اور نشیب وفراز نمایاں ہو جائےوہ لباس غیر شرعی ہوگا ۔لہٰذاچست’’Skin Tight‘‘جس کا آج چہار سو فیشن ہے، شرعی لباس نہیں ہے۔
یہ جسم سے چپکا ہوا تنگ لباس مرد استعمال کریں یا خواتین دونوں کے لئے منع ہے۔ لباس کے متعلق دوسرا اصول یہ ہے کہ یہ لباس کسی دوسری قوم کا علامتی لباس نہ ہو ۔جس لباس میں کسی اور قوم کی مشابہت ہو یا جو فاسق و فاجر لوگوں کا شعار ہو وہ غیر شرعی لباس ہوگا ۔حضرت نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے جو مسلمان کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ اُنہی میں ہے۔ ابودائود۔ ایک حدیث میں ہے کہ وہ ہم میں سےنہیں ہے۔
تیسر ااصول یہ ہے کہ مردو عورتوںکا لباس اور عورتیں مردوں کا لباس نہ استعمال کریں ،نہ اپنے بچوں کو ایسا لباس پہنائیں ۔اس کے متعلق احادیث میں لعنت بیان فرمائی گئی ہے۔ (بخاری ومسلم)
خلاصہ یہ کہ لباس کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انبیاء، صحابہ ؓ ، صلحا ء، مشائخ ، اولیاء اور خصوصاً حضرت سید المرسلین علیہ الصلواۃ و السلام کا اختیار کردہ لباس ہی شرعی لباس ہے۔
کفن کےکپڑوں کی سلائی
جواب: مردے کے ہاتھ اس طرح رکھے جائیں جیسے انسان نماز میں قومہ میں کھڑا ہوتا ہے مردے کےہاتھوں کو سینے یا ناف پر باندھ کرر کھنا خلاف سنت ہے۔ مرد کے لئے تین چادریں کفن ہیں۔ یہ بغیر سیلے ہوے تین کپڑے لفافہ ، قمیص اور ازار بندہیں۔ کفن کی سلائی کرکے قمیص اور ازار بنانا خلاف سنت ہے۔ حضرت رحمتہ للعالمین علیہ الصلواۃ والسلام کا کفن مبارک بغیر سلا ہوا تھا،یہی سنت ہے۔ کسی میت کے لئے چہارم، چہلم وغیر کرنا ایک رسم ہے۔ چنانچہ اس کو رسم چہارم ہی کہا جاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں ایصال ثواب کرنے کی ترغیب و تحریص ہے۔ مگر اس عمل کےلئے کوئی دن مخصوص ہے نہ ہیت ہی مقرر ہے۔
سود ی قرض لینے کی کن حالات میں اجازت ہے
جواب: سودی قرض لیناشریعت میں ہر گز جائز نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں اپنی حلال کمائی سود میں دینی پڑتی ہے۔جبکہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے سود لینے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے اور سود دینےو الے پر بھی لعنت فرمائی ہے۔البتہ اگر کوئی شخص اضطرار کے اس درجہ کو پہنچ جائے جس میں حرام چیز استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں بینک سے سودی قرض لینے کی گنجائش ہے۔ مثلاًفاقہ کو نوبت آے اور کوئی شخص قرض بھی نہ دے یا مثلاً نکاح کی شدید ضرورت ہے مگر نکاح کے جائز اور ضروری اخراجات کےلئے بھی رقم نہ ہو۔ اس طرح بے روزگاری کی وجہ سے گھر کی لازمی ضروریات بھی پوری نہ ہوتی ہوں اور سوائے سودی قرض لئے کو ئی سبیل نہ ہو تو اس طرح کی صورت میں سودی قرض لینے کی اس طرح گنجائش ہے جیسے کسی خاتون کا وضع حمل فطری طور پر نہ ہو اور اجنبی نا محرم ڈاکٹروں کے ذریعہ سرجری کرانی پڑے اور اس سرجری کےلئے بے پردگی کا ارتکاب کرنا پڑے تو شریعت اس اضطرار کی حالت میں اجنبی مردوں کے سامنے بے پردہ ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ اس لئے محض تجارت کی ترقی کےلئے یا رسم ورواج کی شادیوں کےلئے، یا ضرورت سے زائد مکان کےلئے سودی قرض لینا جائز نہیں ہے۔
نکاح سے پہلے لڑکا لڑکی کا ایک دوسرے کو دیکھنا
جواب: شریعت اسلامیہ کی نظر میں رشتہ نکاح کو پائیداراور مستحکم بنانے کےلئے چند اقدامات کرنے کی ترغیب ہے ۔ا ن میں سے دینداری کو بنیاد بنانا، کفو کی رعایت کرنا اور دونوںخاندانوں کا ایک دوسرے کے احوال کو اچھی طرح سمجھنا اور جاننا بھی شامل ہے۔
ان اقدامات میں سے ایک اہم امریہ ہے کہ اسلام نے لڑکی دیکھنے کی اجازت دی ہے بلکہ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی کسی خاتون سے نکاح کرنے کا پیغام بھیجے تو اگر اس سے ہو پائے تو اس خاتون میں وہ چیز دیکھے جس کی وجہ سے وہ اس سے رشتہ کرناچاہتا ہے۔ یہ حدیث سنن ابو دائود میں ہے۔
اس حدیث کی بنا پر مسئلہ یہ ہے کہ جس لڑکی لڑکے کا آپس میں نکاح کرنا مطلوب ہو اُن کو آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت ہے۔ اس کےلئے یہ بھی ملحوظ رہے کہ اگر پہلے سے یہ ایک دوسرے کو دیکھ چکے ہوں تو پھر نہ دیکھ لیں ۔ رشتہ نکاح سے پہلے دیکھنے کی یہ اجازت شریعت اسلامیہ نے دی ہے تاکہ آئندہ رشتہ کامیاب ہو نے کے امکانات پختہ ہو جائیں اور نادیدہ رشتہ کرنے کی وجہ سے اس رشتہ میں رخنہ پیدا نہ ہو پائے۔ خلاصہ یہ ہےکہ نکاح سے پہلے لڑکے اور لڑکی
کاایک دوسرے کو دیکھنا اور ایک دوسرے سے مختصر بات چیت کرنا جائزہے۔
س: – قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا اور وہ سراسر معجزہ ہے ۔ جو لوگ عربی زبان سے ناآشنا ہیں ان کے لئے قرآن کریم کیسے معجزہ ہوسکتاہے ۔ اسی طرح غیر مسلم کے لئے قرآن کریم کیسے معجز ہو سکتاہے ؟
ماسٹر محمد یوسف شیخ
قرآن: سراسر معجزہ
جواب:-قرآن کریم صرف زبان کے اعتباسے ہی معجزہ نہیں بلکہ دوسرے مختلف ومتنوع پہلو ہیں جن کے اعتبار سے یہ معجزہ ہے ۔ چند پہلو یہ ہیں :
۱-اللہ کی ذات ،صفات ، اس کی ربوبیت وحکمت اور اس کی قدرت ومشیت کا مکمل ، جامع اور افراط وتفریظ سے محفوظ تعارف قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب نہیں کراسکتی۔ اس لئے کہ کسی کے پاس اللہ کی ذات کا براہِ راست علم ہی نہیں ہے۔یہ صرف قرآن کا اعجازہے۔
۲-موت کے بعد کی دائمی زندگی ایک پختہ حقیقت ہے مگر اُس زندگی کی تمام تر تفصیلات صرف قرآن نے بیان کی۔دُنیا کی اور کوئی کتاب یا کوئی شخصیت اس زندگی بعد الموت کا مکمل تعارف اور تفصیلات اس طرح بیان نہیں کرسکی ہے ۔یہ بھی قرآن کا معجزہ ہے ۔
۳-قرآن نہ تاریخ کی کتاب ہے ، نہ قانون کی ، نہ سائنس کی، نہ سماجیات کی ، نہ نفسیات کی ، نہ فلکیات نہ ارضیات کی۔ نہ بحریات کی نہ حیوانیات کی ۔ یہ کتاب ہدایت ہے ۔مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن میں تاریخ بھی ہے ۔سائنس بھی ، قانونی بھی ہے اور فلسفہ بھی۔اس سائنسی علوم کے موضوعات مثلاً فلکیات ، بحریات ، موسم اور دن رات کے تغیرات ،ارضیات بھی اورنفسیات بھی ۔ دنیا کی اور کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ جس میں یہ سارے علوم ہوں ۔خصوصاً وہ علوم جو نزول قرآن کے صدیوں بعد انسانی تحقیقات سے سامنے آئے ۔ اُن کے متعلق قرآن نے پہلے ہی قطعی حقائق پر مشتمل اشارے کردیئے تھے ۔ مثلاً علم الجنین وغیرہ ۔
اس جیسے دوسرے مختلف پہلوئوں کے اعتبار سے قرآن معجزہ ہے ۔ لہٰذا تمام وہ انسان جوعربی زبان سے نابلد ہوں جیسے غیر مسلم یا عربی زبان پرصرف پڑھنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر اس کے ادبی حلاوت فصاحت وبلاغت کے رموز سے ناواقف ہو جیسے عام مسلمااُن کے قرآنی معجزہ ہے اور ان مختلف وجوہات کے اعتبار سے معجزہ ہے ۔
سوال: اگر بیوی کسی بھی طور رشتہ توڑنے کی ضد پر ہو تو کیا بلاکسی وجہ کے طلاق دی جاسکتی ہے ، جب کہ سمجھانے کے باوجود بھی کوئی راستہ نہ نکلے۔ تو اسلام اس کے متعلق کیا کہتا ہے؟
خلع کا فیصلہ تلخ مگر جائز
جواب :۔ نکاح ایک ایسا رشتہ ہے جو تمام دوسرے رشتوں سے منفرد بھی ہے اور زندگی کے تمام پہلوئوں کو ہر طرح سے متاثر کرنے والا رشتہ بھی۔ ا سلئے جب یہ رشتہ قائم ہو جائے تو شریعت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ رشتہ قائم رکھنے کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کا رویہ اپنا یا جائے۔ اور عقل بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ قابل برداشت اختلافات کی بنا پر رشتہ ختم کرنے کا قدم نہ اٹھایا جائے۔ اس سلسلے میں دونوں میاں بیوی کو تفصیل سے ہدایات دی گئی ہیں۔ اگر عورت بلا وج رشتہ ختم کرنے پر مصر ہوتو اس کے متعلق چند احادیث ملاخط ہوں ۔
سوال :۔ نما ز ظہر سے پہلے جو چار رکعت سنت ادا کی جاتی ہے یا یہ لازماً ضروری ہے۔ قران و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیے۔ جن حدیثوں میں چار سنتیں بیان ہوئی ہوں وہ بیان کریں؟
(بلال احمد بجبہاڑہ)
ظہر میں سنتوں کی تعداد
جواب : ۔نماز ظہر میں فرض سے پہلے چار رکعت سنت موکدہ ہیں ۔ اس کے متعلق چند احادیث یہ ہیں۔ حضرت عائشہ ؓکا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ ظہر سے پہلے چار رکعت سنتیںنہیں چھوڑا کرتے تھے۔ بخاری۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد دو رکعت ادا فرماتے تھے۔ ترمذی۔ حضرت ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعات کی پابندی کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جہنم کو حرام کریں گے۔ ترمذی، ابو دائود۔
ایک حدیث میں ظہر سے پہلے چار رکعات سنت چار رکعات تہجد کے برابر ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ
ان احادیث کے علاوہ اور بھی احادیث ہیں جن سے ان سنتوں کی فضلیت اور تاکید معلوم ہوتی ہے یہ احادیث ترمذی، ابو دائود، ابن ماجہ میں ہیں۔