سوال:۔ قرآن کریم کے حقوق کیا کیا ہیں اور کیا ہم مسلمان اُن حقوق کو ادا کررہے ہیں یا نہیں ۔تفصیلی جواب ، اُمید ہے کہ ،بیداری اور بصیرت کا ذریعہ ہوگا اور اپنی کوتاہی کا احساس بیدار کرنے کا سبب بنے گا۔
محمد فاروق،سرینگر
مسلمان پر قرآنِ کریم کے حقوق
جواب:۔ قرآن کریم کے کچھ حقوق تو فکری و ایمانی ہیں اور کچھ حقوق عملی ہیں۔ ایمانی حقوق مختصراً یہ ہیں: اس پر ایمان لانا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اوراس پر یقین رکھنا کہ مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اس کی عظمت دل میں رکھنا۔ اس پر یقین رکھنا کہ یہ حضرت محمد ﷺ پر حضرت جبرائیل ؑکے ذریعہ نازل ہوئی ہے۔ یہ یقین رکھنا اب انسانیت کے لئے صرف یہی ایک صحیفۂ ہدایت ہے اور قرآن کریم کے عملی حقوق یہ ہیں ۔
اس کی تعلیم حاصل کرنا ،یعنی اس کو اس کے عربی میں پڑھنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ یہ پڑھنے کی صلاحیت چاہئے صحیفۂ مبارک ہاتھ میں لے کر اور کتاب مقدس کی حروف شناسی کے ساتھ حاصل کی جائے یا زبانی یاد کر لیا جائے۔
دوسرا حق اس کی تلاوت کرنے کا ہے۔پھر اس تلاوت کی مقدار کم از کم ایک رکوع روزانہ ، یا چار رکوع یومیہ یعنی چار یوم میں ایک پارہ یا نصف پارہ یومیہ ، یا پورا ایک پارہ یومیہ، یاتین پارے یومیہ،یا ایک منزل روزانہ کی مقدار سے ہو ۔ غرض کہ تلاوت ِکتاب قرآن کریم کا ایک اہم ترین دوسرا حق ہے۔ یہ بھی عملی حقوق میں سے ہیں۔
تیسرا حق قرآن کریم پر عمل ہے ۔ یعنی اس کے وہ امور جن کا ادا کرنا لازم کیا گیا ہے ۔اس کےلئے عملاً ہر وقت تیار رہنا۔ وہ امور چاہئے از قبیل عبادت ہوں یا از قبیل اخلاقیات ، ان تمام امور کو عملا ًزندگی میں جاری کرنا جو امور قرآن کریم میں حرام کر دیئے گئے ہیں اُن سے مکمل طور پر اجتناب کرنا ۔پھر اگر کرنے والے امور میں کوتاہی ہو جائے تو فوراً توبہ کرنا اور ان کی قضا کرنا اورجن امور سےبچنے کی ضرورت ہے اُن امور کا ارتکاب ہو جائے تو فوراً توبہ کرنا اور آئندہ بچنے کا اہتمام کرنا،یہ عملی حق ہے اور اس کو عمل با لکتاب کہا جاتا ہے۔
چوتھا حق فہمِ کتاب:۔ یعنی قرآن کریم سمجھنے کی کوشش کرنا۔ا س فہم کتاب میں ایمانیات بھی ہیں۔ عبادات بھی، اخلاقیات بھی ہیں اور امور ما بعد الطبعیات بھی ۔ حقائق دقیقہ بھی ہیں اور انبیا علیہم السلام و اقوامِ ماضیہ کے احوال بھی۔
فہم قرآن کے درجات مختلف افراد و اشخاص کے اعتبار سے مختلف ہونگے ۔کم از کم درجہ فرائض و محرکات کا فہم ہے ۔
پانچواں حق تبلیغ قرآن ہے۔ یقینی قرآن کریم کے احکامات و تعلیمات دوسروں تک پہنچانا ، دوسروں میں مسلمان بھی ہیں اور دیگر اقوام بھی!
اب ہر مسلمان خود غور کرے کہ وہ ان میں سےکتنے حقوق ادا کر رہا ہے۔
سوال:۔ آج کل لوگوں کا عقیدہ طرح طرح سے خراب ہوتاجا رہا ہے۔ اس لئے تو چند باتوں کے متعلق سوالات پیش خدمت ہیں۔
(۱) بہت سارے لوگ درویشی کے دعویدار لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم طرح طرح سے پریشان ہیں ہمارے معاملے پر نظر کریں ۔ کتاب دیکھ کر ہم کو بتائیں کہ ہم کو یہ سب پریشانیاں، تنگدستیاں، بیماریاں کیوں ہیں؟
(۳) اسی طرح کچھ لوگ دوسرے فقیر نما لوگوں کو ہاتھ دکھاتے ہیں ،پھر کہتے ہیں کہ ہماری قسمت دیکھیں، وہ کچھ دیکھ کر بتاتے ہیں کہ یہ ہونےو الا ہے ۔اس سب کے متعلق شریعت اسلام کا کیا حکم ہے اس کا جواب عنایت فرمائیں؟
غلام مصطفیٰ خان ، بمنہ سرینگر
اللہ کے حکم کے بغیر کسی اَمر میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا
جواب:۔ اسلام میں بنیادی چیز عقیدہ ہے۔ا س لئے کہ تمام اعمال چاہئے وہ فرائض ہوں یا سنت ہوں اور تمام ممنوعات ،چاہئے وہ حرام ہوں یا مکروہات ، یہ سب کچھ اُس عقیدہ کا نتیجہ ہوتا ہے،جو ایک ایمان والا مسلمان اپنے دل و دماغ میں پختگی کے ساتھ قائم رکھتا ہے۔ ان عقائد میں عقیدہ ٔتوحید، عقیدۂ رسالت، عقدۂ ختم نبوت، عقیدۂ آخرت اور عقیدہ ٔتقدیر اہم عقائد ہیں۔ عقیدہ توحیدکا ثمر ہ یہ ہے کہ مومن اپنے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھا کر رکھتا ہے کہ اس کائنات کا خالق ، مالک، متصرف اور تمام نظام چلانے والا صرف اللہ ہے۔ تمام اختیارات اسی کے دست قدرت میں ہیں اور وہی تمام مخلوقات موجودات اور معدومات کا علم کلی رکھتا ہے۔ اس کی حیثیت کے بغیر کوئی پتہّ بھی نہیں ہل سکتا ہے اور وہی آئندہ ہونے والے تمام امور کا کلی یا جزوی علم رکھتا ہے ۔ غرض کہ قرآن کریم میں اللہ جل شانہ کی ذات عالیٰ کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سب کو بطور عقیدہ اپنے دل میں بساکر رکھے۔ دوسرے عقیدۂ تقدیرکا ثمرہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و قدرت سے پہلے سے طے کر رکھا ہے اور اسی کے امر اور حیثیت سے سب کچھ انجام پاتا ہے کسی امر میں کوئی تغیر یا تبدیل یا تو ہو ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی تغیر ہوتا ہے تو وہ بھی اللہ کے حکم سے۔
اس عقیدہ ٔ توحید اور عقیدۂ تقدیر کے بعد کسی ایمان والے شخص کےلئے اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ کسی کاہن، جیوتشی، ساحر، ہاتھ دیکھنے والے کسی درویش کے پاس جائے اور اس سے اپنے مستقبل کے متعلق معلومات کرے۔ پھر اس کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ مانے۔ اس سلسلے میں واضح اور صاف حدیث ہے حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو کسی (غیب کی خبر یں بتانے والے) کاہن کے پاس گیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی، اس نے اس قرآن کو جھٹلادیا جو مجھ پر نازل ہوا ہے یہ حدیث ترمذی میں ہے۔
اس لئے اس طرح کی تمام ان غلط حرکات، جو شرک اور باطل عقیدہ کا نتیجہ ہیں،سے پرہیز کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔ ایسے تمام لوگ جو مستقبل کے متعلق تو ہماتی بنیاد پر خبریں سنائیں ان کو معاوضہ دینا بھی حرام ہے اور اُن کی یہ کمائی بھی حرام ہے ۔ اخبارات میں فلاں بابا یا کالے شاہ وغیرہ یا اس طرح کے عنوانات سے جو اشتہارات شائع ہوتے ہیں اُن سے عقیدے خراب ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہ غیب کی خبریں سنانے اور لوگوں کی تقدیر بنانے کے جھوٹے دعوے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنے لئے پیسہ جمع کرنا ہے۔ وہ تمام لوگوں کے کمزور عقیدے اور توہم پرستی کے مزاج کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ بہر حال ایسے لوگو کے پاس جانا بھی منع ہے اُن کی بات سننا بھی منع ہے اور اس کے سچ ہونے کا عقیدہ رکھنا ایمان کے لئے خطرہ ہے بلکہ بعض کتابوںمیں یہ لکھا ہے کہ اس قسم کے عقیدہ پر کفر کا حکم لگ جاتا ہے۔