حدیث۔۔۔ اقسام و افہام کی توضیح
سوال: حدیث کیا ہوتی ہے ۔اس حدیث کو سند سے بیان کیا جاتا ہے،یہ سند کیا ہوتی ہے ۔اس سند میں کیا کمیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے ، اس سند میں ضعف ہے۔یہ ضعف کیا ہوتا ہے ،اس کی وجہ سے سے حدیث ضعیف کیسے ہوجاتی ہے۔پھر آگے سوال یہ ہے کہ حدیث ضعیف کیا ہوتی ہے ۔کیا حدیث کی کتابوں میں ضعیف احادیث درج ہوتی ہیں؟ حدیث پر عمل کرنے کے متعلق حکم شریعت کے کن مسائل میں حدیث ضعیف معتبر مانی جاتی ہے اور کن مسائل میں یہ غیر معتبر ہوتی ہے؟اُمید ہے کہ تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں گے۔
جنید احمد قاسمی ،مقیم حال سرینگر
ََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :حدیث حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ سلم کے مبارک قول یا آپ کے کسی عمل کو کہتے ہیں۔ نیز اگر آپ کے سامنے کسی مسلمان نے کوئی کام کیا اور آپ نے سکوت اختیار فرمایا تو وہ بھی حدیث ہے۔اس کو اصولِ حدیث میں تقریر کہتے ہیں۔ تو اب تین چیزیں حدیث ہیں۔قول ،فعل اور تقریر ۔حدیث صحابہؓ نقل فرماتے ہیں ،پھر آگے نقل در نقل ہوتے ہوئے اُس محدث تک یہ حدیث پہنچتی ہے جو اس کو اپنی کتاب میں درج کرتا ہے۔مثلاً مشہور حدیث ہے۔اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ۔یہ بخاری شریف کی پہلی حدیث ہے ۔امام بخاری ؒ نے پہلے وہ پوری سند نقل فرمائی جس سند کے ذریعہ یہ حدیث اُن تک پہنچی ہے پھر مکمل حدیث درج فرمائی ۔محدث سے لے کر کسی صحابی تک درمیان میں جتنی شخصیات آتی ہیں اُن تمام کو نام بنام ذکر کرنا سند کہلاتا ہے۔مثلاً امام بخاری نے کوئی حدیث سُنی مکی بن ابراہیم سے ،اُس نے وہ حدیث سُنی یزید ابن عبید سے، اُس نے وہ حدیث سُنی مسلم بن اکوع سے اور مسلم نے وہ حدیث سُنی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔آگے حدیث کا متن ہوگا ۔اس میں امام بخاری سے لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک تین افراد آئے اور امام بخاری نے ان تین افراد کی سند سے یہ حدیث بیان کی ۔بس یہ افراد کا درمیانی تسلسل سند کہلاتا ہے۔اس سند میں کبھی تو ایسا شخص درمیان میں آتا ہے جس میں کچھ مخصوص خرابیوں میں سے کوئی نہ کوئی ہوتی ہے۔مثلاً قوت ِ یاداشت کمزور ہو ،یا وہ کسی عملی خرابی میں مبتلا رہا ہو ،یا فسق کا شکار رہا ہویا بدعتی ہو تو اس شخص کی وجہ سے وہ حدیث صحیح کے بجائے ضعیف بن جائے گی۔پھر جس قسم کی خرابی اُس شخص میں ہو گی اُسی قسم کا ضعف اُس حدیث میں آجائے گا ۔یہ نقائص دس عدد ہیں جو محدثین نے مقرر کئے ہیں۔اُن میں پانچ خرابیوں کا تعلق دین داری کے ساتھ ہے اور پانچ کا تعلق قوت حفظ کے ساتھ ۔پھر ہر کمی کی بناء پر حدیث میں جو ضعف آتا ہے وہ الگ الگ قسم کا ہوتا ہے،اور اس کی وجہ سے حدیث کا نام بھی بدلتا رہے گا ۔یہاں تک کہ ایک حدیث ایسی بھی ہوتی ہے جو جعلی اور من گھڑت قرار پاتی ہے اُسے حدیث موضوع کہتے ہیں۔
کبھی حدیث میں ضعف اس وجہ سے آتا ہے کہ درمیان میں کوئی راوی منقطع ہوا ہوتا ہے ۔منقطع ہونے کا پتہ راویوں کی عمر ،تاریخ ولادت او ر تاریخ وفات سے ہوجاتا ہے ۔اس انقطاع کی بھی الگ الگ اقسام ہیں۔بہر حال حدیث کی سندمیں جب ان نقائص میں سے کوئی کمی نقص در آئے جو محدثین نے مقرر کی ہیں تو وہ حدیث اُس نقص کی وجہ سے ضعیف بن جاتی ہے ،پھر یہ ضعف کبھی معمولی درجہ کا ہوتا ہے ،کبھی شدید درجہ کا اور اُسی اعتبار سے اُس کا نام اور حکم بھی بدلتا رہتا ہے۔ کبھی یہ ضعف ختم بھی ہوجاتا ہے۔
حدیث کی تقریباً تمام کتابوں میں یقیناً ضعیف احادیث ہوتی ہیں حتی ٰ کہ بخاری شریف میں بھی ضعیف احادیث ہیں،مثلاًبخاری میں سینکڑوں معلّق احادیث ہیںاور ان کو تعلیقات ِ بخاری کہا جاتا ہے پھر ان تعلیقات میں سے کچھ یقینی طور پر ضعیف ہیں۔ اسی طرح ترمذی شریف میں بے شمار احادیث ضعیف ہیں اور امام ترمذی اُن حدیثوں کے متعلق یہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں ،اس پر اُمت کا عمل پایا جاتا ہے جو حضرات ان کتابوں کو پڑھتے پڑھاتے ہیں وہ اس صورت حال سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کتنی حدیثوں کے ذیل میں امام ترمذی نے یہ دونوں باتیں کی ہیں۔
حدیث ضعیف کے متعلق محدثین کا فیصلہ یہ ہے کہ کسی عقیدہ کو ثابت کرنے،کسی عمل کے فرض یا حرام ثابت کرنے کے لئے حدیث ضعیف سے استدلال کرنا درست نہیں،گویا حدیث ضعیف سے نہ کوئی عقیدہ، نہ کوئی عملِ فرض اور نہ کوئی کام حرام ثابت ہوگا ۔
ہاں حدیث ضعیف سے اعمال دینی کی فضیلتِ ثواب یا ناجائز کام کے متعلق وعید ہو تو اُس حدیث سے ترغیب و تر ہیب دونوں کے لئے استدلال کرنا درست ہے ۔حلال و حرام کے مسائل میں حدیث ضعیف کے قبول کرنے میں شدت برتنا اور فضائل کے سلسلے میں حدیث ضعیف سے استدلال کا درست نہ ہونا۔ یہ محدثین کی طویل تحقیقات اور بحثوں کا خلاصہ ہے ،البتہ اگر کوئی حدیث موضوع ہو تو اُس کو بیان کرنا بھی جائز نہیں،اور اگر بیان کیا جائے تو اُس کو موضوع کہنا بھی ضروری ہے۔ذخیرۂ احادیث میں بے شمار احادیث وہ بھی ہیں جو سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں مگر اُمت شروع سے آج تک اُس پر عمل کرتی آئی ہے ۔اب سند کا ضعف کچھ بھی مُضر نہیں ۔یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ حدیث ضعیف الگ ہے اور حدیث موضوع الگ ہے ۔دونوں کا حکم بھی الگ ہے۔تلقی اُمت سے بھی ضعیف حدیث حَسن بن جاتی ہے ۔کیا حدیث ضعیف سے کسی عمل کا سنت ہونا ،مستحب ہونا مکروہ ہونا ثابت ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں بڑی تفصیلات ہیں ۔مختصراً یہ کہ بیوع و مناکحات میں کسی امر مکروہ کے متعلق حدیث ضعیف آئے تو اس پر عمل کیا جائے جو حدیث ضعیف قیاس کے معارض ہو اُس پر عمل کیا جائے ۔جس عمل کا سنت استحباب کسی حدیث ضعیف سے ثابت ہو اُ س پر عمل کیا جائے ۔تفصیل علوم حدیث کی متعلقہ کتابوں میں دیکھئے۔
�������������
مہر اور تحائف منکوحہ کا حق
سوال:آج کل کشمیر میں شادیوں کا سیزن ہے۔نکاح کی مجلسوں میں مہر کے علاوہ تھان کا مسئلہ کثرت سے زیر بحث رہتا ہے ۔میں ایک امام ہوں اس لئے ہم سے بھی تھان کے متعلق پوچھا جاتا ہے ،مگر کچھ واضح جواب بھی نہیں دے پاتے۔شرعی طور پر تھان کے متعلق پوری جانکاری کا انتظار ہے۔میں اِن شاء اللہ جمعہ میں اس پر خطاب بھی کروں گا ،
اویس احمد شاہ ۔امام مسجد شریف جامع ،لال بازار سرینگر
۔۔۔۔۔۔۔
جواب:نکاح میں شریعت اسلامیہ نے صرف مہر لازم کیا ہے۔یہ مہر بھی دونوں خاندانوں کے ذمہ داران کی رضا مندی سے طے ہونا چاہئے ۔مہر کے علاوہ تحائف اور ہدایالینے دینے کا سلسلہ ہمیشہ ہر جگہ رہا ۔یہ تحفے زیورات ،سونا چاندی ،جواہرات ،عطورات ،کپڑے ،جانور اور دوسری قسم قسم کی چیزیں دی جاتی ہیں اور بہت سارے خطوں میں مہر کے علاوہ قسم قسم کی چیزیں بطور عاریت صرف بغرض استعمال دی جاتی ہیں۔اب جو چیز بطور تحفہ میں دی جائے شرعاً وہ واپس لینا ہرگز درست نہیںاور جو چیز بطور عاریت صرف استعمال کرنے کی نیت سے دی جائے وہ واپس مانگنا درست ہے اور واپس دینا بھی لازم ہے،تھان کا لفظ نہ شرعاً معتبر ہے اور نہ اس کی کوئی قانونی حیثیت ہے ۔یہ تھان کہیں بھی شرعی کتابوں میں اس مفہوم کے لئے نہیں ہے ۔اس لئے اولاً تمام پبلشیرز کی ذمہ داری ہے کہ نکاح ناموں سے یہ تھان کا لفظ ختم کردیں۔دوسرے نکاح میں جو کچھ بھی دیا جائے وہ سب کا سب مہر کے نام پر دیا جائے ۔تیسرے اگر مہر کی رقم لڑکی والوں کے مطالبہ پر مقرر کردی گئی ہے اور اُس کے علاوہ وہ شوہر والے کچھ زیورات اپنی مرضی سے دینا چاہتے ہوں تو اُس کو ہدیہ(گِفٹ)کی نیت بھی کی جائے اور نکاح کی مجلس میں اس کا اعلان بھی ہو اور نکاح نامہ میں اندراج بھی ہو کہ یہ صرف ہدیہ ہے لڑکی کی ملکیت ہے۔اگر مہر کے علاوہ زیورات یا سونا چاندی بطور تحفہ دینے کی وسعت نہ ہو اور خوشی اور مسرت کے لئے دل چاہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ استعمال کے لئے سونا چاندی اور زیورات ضرور ہونا چاہئے تو شرعاً اس کی اجازت ہے کہ منکوحہ کو زیورات بطورِ عاریت صرف بغرض استعمال دئے جائیں۔مگر اس کے لئے نہایت ضروری ہے کہ نکاح سے پہلے بھی اور نکاح مجلس میں صاف صاف کھل کر واضح کیا جائے کہ یہ تمام زیورات صرف بطورِ عاریت کے ہیںاور عاریت کے معنیٰ یہ ہیں کہ شوہر کو حق ہے کہ وہ جب چاہے یہ زیورات واپس لے لے۔یہ تفصیل نکاح مجلس میں واضح کرنا ضروری ہے۔خطیب سے بھی اعلاناً یہ صراحت کرائی جائے ۔نکاح نامہ پر اندراج بھی کیا جائے اور لڑکی والوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرادیا جائے کہ یہ سب امانت و عاریت ہے۔اگر تھان نکاح کے نام پر زیورات سونا وغیرہ دیا گیا ہے اور نکاح مجلس میں نہ یہ واضح کیا گیا کہ تحفہ ہے یعنی گفٹ ہے ،نہ یہ واضح کیا گیا کہ یہ عاریت اور امانت ہے جو صرف استعمال کی نیت سے دی گئی تو آج ایسے تھان کا شرعی فیصلہ یہ ہے کہ یہ تحفہ ہے اور واپس مانگنے کا حق نہیں ہے نہ ہی واپس کرنا لازم ہے۔اور وجہ یہ ہے کہ تھان دیتے وقت جب عاریت کی وضاحت نہیں کی ہے تو اب یہ ہدیہ کے حکم میں ہوگا۔
�������������