نکاح سے قبل طے شدہ رشتہ ٹوٹنے پرتحائف کی واپسی کا مسئلہ
سوال:- کبھی اختلاف کی وجہ سے نکاح سے قبل طے شدہ رشتہ پہلے ہی مرحلے پر ٹوٹ جاتاہے اس کے بعد اختلاف اس پر ہوتے ہیں کہ جو تحفے تحائف لئے دیئے ہوئے ہیں اُن کا حکم کیا ہے ۔بعض دفعہ ایک فریق دوسرے سے جرمانے کا مطالبہ کرتاہے اور جو تحفے زیورات وغیرہ ہوتے ہیں ان کے بارے میں بھی شدید نزاعات ہوتے ہیں ۔اسی طرح کھلانے پلانے کا جو خرچہ ہوا ہوتاہے اس کے لئے بھی مطالبہ ہوتاہے کہ اس کی رقم بصورت معاوضہ ادا کیا جائے ۔
اس بارے میں شرعی اصول کیا ہے؟
محمد یونس خان
جواب :-نکاح سے پہلے جو تحائف دئے جاتے ہیں۔ اُن کی حیثیت شریعت میں ہبہ باشرط یا ہبہ بالعوض کی ہے ۔ یعنی یہ تحائف اس شرط کی بناء پر دئے جاتے ہیں کہ آئندہ رشتہ ہوگا ۔
اب اگر آگے نکاح ہونے سے پہلے ہی رشتہ کا انکار ہوگیا تو جس غرض کی بناء پر تحفے دیئے گئے تھے وہ چونکہ پوری نہیں ہوئی ۔ اس لئے یہ تحفہ کی اشیاء اُس شخص کی ملکیت نہیں بن سکیں جس کو وہ چیزیں دی گئی ہیں ۔ جب وہ اِن اشیاء کا مالک نہیں بنا توپھر اس سے وہ اشیاء واپس لینا درست ہے ۔
لیکن یہ حکم ایسے تحائف کے متعلق ہے جو موجود ہوں اور جو ختم ہوگئے ہوں مثلاًکھانے پینے کی اشیاء یا دعوتوں کے پُرتکلف کھانے تو وہ واپس لینا اور دینا درست نہیں ہے ۔
یہاں کشمیرکا عرف بھی یہی ہے کہ نکاح سے پہلے جو چیزیں لی اور دی جاتی ہیں اگر رشتہ ٹوٹ جائے تو وہ اشیاء واپس کی جاتی ہیں ۔ اس عرف کا مقتضیٰ بھی یہی ہے کہ نکاح سے پہلے دی گئی اشیاء واپس کر دی جائیں ۔
کھانے پینے کا معاوضہ بصورت رقم لینا ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ اس لئے کہ کھلاتے وقت یہ دعوت تھی اور کھانے کا عوض مانگنا اُسی وقت درست ہے جب پہلے سے طے کیا گیا ہو ۔جیسے ہوٹل میں ہوتاہے ۔ پھر دعوت کا کھانا خود اپنے گھروالے اور اپنے عزیز واقارب بھی کھاتے ہیں تو کیا اس پورے کھانے کا معاوضہ اُن سے لینا درست ہوسکتاہے ؟ ظاہرہے کہ نہیں ۔
نکاح سے پہلے دئے گئے تحائف کے واپس کرنے کا مسئلہ اور دعوتوں میں کھانے پینے اور ماکولات ومشروبات (مثلاً مٹھائیاں ، کیک ، بیکری ،پیسٹری ،پھلوں کے ٹوکرے ،جوس کے ڈبے ، چاکلیٹ ، ڈرائی فروٹ وغیرہ) کے واپس نہ کرنے کا مسئلہ فتاویٰ قاضی خان درمختار کی شرح شامی اور فتاویٰ محمودیہ وغیرہ میں تفصیل سے لکھاہواہے۔
سوال:۱- کیا فرض نماز کے بعد جب کہ ابھی سنتیں باقی ہوں تو لمبی دعایا تسبیح فاطمہ اور درودِ پاک وغیرہ پڑھنا جائزہے ؟
سوال :۲- کیا جمعہ کے پہلے خطبہ میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا اور دوسرے خطبہ میں ہاتھ آگے زانوں پر رکھنا درست ہے ۔ یا میں کوئی شرعی حکم ہے ؟
سوال :۳- آج کل کمپنیاں قسطوں پر گاڑیاں وغیرہ کو فروخت کرتی ہیں ۔بعد میں یہ قسط مہینہ وار اداکرناپڑتی ہے لیکن اس پر کمپنی سود لیتی ہے ۔کیا یہ زائد رقم جو قسط کے ساتھ ادا کرنی پڑتی ہے شرعی سود میں داخل ہے جس کی سخت ممانعت ہے جب کہ کمپنی کی گاڑی وغیرہ خریداراستعمال کررہاہے ۔
سوال :۴-کیا ایسے اما م کے پیچھے نماز ادا کرنا درست ہے جس کی داڑھی ایک مشت سے کم ہو ۔ فقہ حنفیہ میں کیا اس کی کوئی جوازیت ہے ؟
سوال:۵- شادی کے موقع پر ڈھول ،دف وغیرہ اور عورتوں کے ناچ گانے کے متعلق کیا حکم ہے اور ایسے موقع پر علماء او ربالخصوص نکاح خوان کو کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ؟
سوال:۶- ماہ رمضان میں سحری اور افطار کے وقت ڈھول بجانا کیساہے ، جب کہ افطاری کے وقت اس کی کوئی خاص ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ؟ مزید یہ فرمائیں کہ دف(طبلہ) کی شرعی اہمیت وجوازیت کیا ہے ؟
نظام الدین ناظم
فرض نماز کے بعد تسبیح فاطمی پڑھنے کی فضیلت
جواب:۱-ہر فرض نما ز کے بعد تسبیح فاطمہ پڑھنے کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے ۔ یہ احادیث بخاری ومسلم وغیرہ میں موجود ہیں۔
جن نمازوں کے بعد سنتیں نہ ہوں اُن نمازوں میں سلام پھیرنے کے بعد یہ تسبیح پڑھی جائے اور جن نمازوں کے بعد سنت پڑھنی ہوتی ہیں مثلاًظہر ، مغرب اور عشاء کی نمازمیں فرض کے بعد سنتیں ہیں تو ان نمازوں میں فرض کے بعد مختصر دعا کرکے پہلے سنتیں پڑھی جائیں اور پھر تسبیح فاطمہ پڑھی جائے اس لئے کہ نماز کا درجہ مقدم ہے ۔
تسبیح فاطمہ یہ ہے ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر ۔ بعض احادیث میں ہے کہ ۳۳ مرتبہ اللہ اکبر پڑھ کر ایک مرتبہ چوتھا کلمہ یعنی کلمہ توحید پڑھا جائے ۔
خطبہ سننا مسنون
جواب:۲- خطبہ جمعہ کے وقت ہاتھ باندھنے یا زانوں پر رکھنا حکم نہیں ہے لیکن دوزانوں ہو کر توجہ سے خطبہ سننا مسنون ہے ۔یعنی اصل حکم تو خطبہ سننا ہے ۔
قسطوں پر خریداری اورا دائیگی
جواب:۳-اگرکمپنی سے خرید کر گاڑی پر اپنا نفع رکھ کر پھر کسی کو گاڑی فروخت کی جائے او رپھر قیمت قسطوں میں ادا ہوتو یہ صورت جائز ہے ۔مثلاً دو لاکھ کی گاڑی کمپنی سے خرید کر اڑھائی لاکھ کی فروخت کی گئی اور یہ قیمت قسطوں میں وصول کی جائے تو یہ جائز ہے اور اگر یہ گاڑی دو لاکھ کی خرید کر دو لاکھ کی ہی فروخت کی جائے ،مگر اس دو لاکھ پرفیصد کے اعتبار سے سودی رقم کا اضافہ کیا جائے تو یہ زائد رقم سود قرار پائے گی۔ اس میں سود دینے کاجرم ہے جیساکہ حدیث میں سود لینے او ردینے والے دونوں کے لئے لعنت آئی ہے ۔
امام کیلئے داڑھی کی شرعی مقدار
جواب:۴-ایک مٹھی سے کم داڑھی رکھنے والے کو امام بنانا ہی درست نہیں تاہم جو نمازیں اسکی اقتداء میں پڑھی گئیں وہ ادا ہوجاتی ہیں ۔اس لئے حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر نیک اور فاجر کی اقتداء میں نماز پڑھنی پڑے تو نماز پڑھ لینا ۔ اس کا گناہ اس امام پر ہوگا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے چوری کے کھجوروں سے روزہ افطار کیا جائے تو افطار ہوجائے گا مگر چوری کرنا گناہِ کبیرہ ہے او راس کا جرم برقرار رہے گا ۔ اسی طرح داڑھی منڈھے کے پیچھے نماز ادا ہوجائے گی مگر گناہ امام پر ہوگا ۔
شادیوں میں ڈھول بجانے کی ممانعت
جواب:۵-شادیوں میں ڈھول بجانا ، ناچ گانا اور رقص ونغمے گانا ہرگز جائز نہیں ۔ یہ مردوں کے لئے بھی حرام ہے اور عورتوں کے لئے بھی ۔ نکاح خوان کو اس پر تنبیہ کرنا بلکہ سختی سے روکنے کا اصرار کرنا لازم ہے ۔ ورنہ وہ نکاح خوانی سے معذرت کرسکتاہے ۔
جواب:۶-سحری وافطار کے لئے ڈھول بجانے کا مقصد دراصل موسیقی اور ساز سننا اور سنانا نہیں بلکہ وقت سحر وافطار کی اطلاع دینا ہے ۔ اس لئے اس کی گنجائش تو ہے مگر افضل یہ ہے کہ ڈھول بجانے کے بجائے کوئی دوسرا ذریعہ اختیار کیا جائے مثلاً سائرن بجانا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلاق کے مسائل
سوال:طلاق کے بعد مطلقہ خاتون کے کیا حقوق ہیں،کیا طلاق دینے والے لڑکے کو یہ حق ہے کہ وہ پینلٹی(Penelty) کا مطالبہ کرے اور ایک بڑی رقم کا تقاضا کرسکتا ہے۔ اگر طلاق کے بعد برادری والوں نے فیصلہ کیا ہو کہ لڑکے کو مہر اور نفقہ کے علاوہ ایک بڑی رقم بطور جرمانہ لازم کی ہو تو کیا یہ فیصلہ شرعی طور پر صحیح ہے۔
آزاد احمد ملک
جواب:طلاق کے بعد مہر(اگر باقی ہو)نفقہ عدت اور منکوحہ کو دیئے گئے تحائف، زیورات جو بھی شوہر یا اُس کے احباب و اعزہ نے دیئے ہوں، وہ سب اس مطلقہ کے شرعی حق ہیں نیز اُس عورت کو اس کے والدین نے جو تحائف دیئے ہوں، وہ بھی اسی کا حق ہے اس کے علاوہ جرمانہ کے طور پر کوئی بھی رقم نہ اسلام نے لازم کی ہے نہ رقم لازم کرنا کسی بھی فرد کے لئے جائز ہے۔
اور اگر برادری کے فیصلے میں کوئی رقم بطورPenelty لازم کی گئی ہے تو وہ فیصلہ غیرشرعی ہے اس لئے طلاق دینے والے کو یہ رقم دینا لازم نہیں اور مطلقہ کو یہ رقم لینا جائز نہیں ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں برادری کے حضرات نے ایک فیصلہ میں ایک شخص پر سو بکریاں بطور جرمانہ لازم کی تھیں۔ جب یہ معاملہ اللہ کے نبی علیہ السلام کی باگراہ میں پہنچا تو آپ نے وہ فیصلہ مسترد کر دیا اور فرمایا میں وہ فیصلہ کروں گا جس میں اللہ کی رضا ہوگی اور اپنے فیصلے میں کوئی مالی جرمانہ لازم نہ کیا۔یہ واقعہ حدیث کی کتابوں مثلاً بخاری کتاب الحدود میں موجود ہے۔
اس لئے مالی جرمانہ لازم کرنا بھی درست نہیں اور مالی جرمانہ دینا کوئی شرعی حکم بھی نہیں اور جرمانہ کے نام پر کوئی رقم لینا بھی درست نہیں۔ اگر رقم لی گئی تو وہ حلال بھی نہیں ہوگی اور واپس کرنا ضروری ہے۔
وراثت کی تقسیم سے پہلے قرض کی ادائیگی ضروری
سوال:۱۔ ایک شخص کی وفات ہوگئی، اس کے ذمہ لوگوں کا قرضہ بھی ہے اور وارث بھی ہیں۔ اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد صرف اتنی ہے یا تو قرضہ ادا ہوگا یا اس کے وارثوں کو وراثت کے طور پر دیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے وارثوں کو وراثت دی جائے یا قرض داروں کو قرض دیا جائے؟
سوال :۲۔اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا و اور وہ مر جائے تو اس کی بیوی کو وراثت ملے گی یا مہر ملے گا یا دونوں چیزیں؟
یاسمین جان
جواب:۱ -وفات پانے والے شخص کے ذمہ اگر قرض ہے تو پہلے قرض ادا کرنا لازم ہے اور اگر وارثوں کو وراثت میں لینے کے لئے کچھ نہ بچے اور سارا مال قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو جائے تو یہی کرنا ضروری ہے۔ وارثوں کو حق وراثت قرض کی ادائیگی سے پہلے ہے نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن نے وارثوں کے حصے جہاں بیان کئے ہیں وہاں جگہ جگہ یہی کہا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے بعد یہ حصہ وراثت وارث کو دیا جائے۔بہرحال قرض مقدم ہے اور وراثت میں حصہ لینا اس کے بعد ہے۔
جواب: ۲۔ جس عورت کا مہر باقی ہو اسے اپنے شوہر کی جائیداد سے مہر لینے کا بھی حق ہے اور وراثت لینے کا بھی حق ہے اور یہ دونوں چیز لینا اس کا شرعی حق ہے۔