سوال: گذارش یہ ہے کہ قرآن کریم بغیر وضو چھونے کی حدیث نقل فرمایئے۔ یہ حدیث کون کون سی کتاب میں ہے اور یہ بتائیے کہ چاروں اماموں میں سے کس امام نے اس کو جائز کہا ہے کہ قرآن بغیر وضو کے چھونے کی اجازت ہے۔ میں ایک کالج میںاُستاد ہوں، کبھی کوئی آیت لکھنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس ضمن میں یہ سوال پیدا ہوا ہے۔امید ہے کہ آپ تفصیلی و تحقیقی جواب سے فیضیاب فرمائیں گے ۔
فاروق احمد … جموں
قرآن کریم کو بلاوضو چھونے کی اجازت نہیں
جواب:بغیر وضو قرآن کریم ہاتھ میںلینا، چھونا،مَس کرنا یقینا ناجائز ہے۔ اس سلسلے میں حدیث ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قرآن کریم صرف باوضو انسان ہی چھوئے۔ یہ حدیث نسائی، دارمی، دارقطنی، موطا مالک صحیح ابن حبان،مستدرک حاکم اور مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شمبہ میں موجو د ہے نیز بیہقی اور معرفتہ السنن میں بھی ہے۔
شیخ الاسلام حضرت علامہ ابن تیمیہؒ کے فتاویٰ میں ہے کہ حضرت سے کسی نے سوال کیا کہ کیا بلاوضو قرآن کریم کو مس کرنا جائز ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا:
چاروں اماموں کا مسلک یہ ہے کہ صحیفۂ قرآنی کو صرف وہ شخص ہاتھ لگائے جو باوضو اور طاہر ہو جیسے کہ اس مکتوب گرامی میں حکم تھا جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزمؓ کو لکھا تھا کہ قرآن کریم کو بلاوضو ہرگز نہ چھونا۔علامہ ابن تیمیہ نے آگے فرمایا کہ حضرت امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت نبی علیہ السلام نے عمرو بن حزم کو یہ لکھا تھا۔ یہ حضرت سلمان فارسی اور عبد اللہ بن عمر نے بھی یہی فرمایا ہے اور صحابہ میں سے کسی نے بھی اس رائے سے اختلاف نہیں کیا۔
پھر علامہ ابن تیمیہ سے پوچھاگیا
اگر کوئی شخص بے وضو ہو اور وہ اپنی آستین سے قرآن کریم کو اُٹھائے تو کیا یہ جائزہے؟ اس پر علامہؒ نے جواباً فرمایا
اگر انسان نے صحیفۂ مبارک اپنی آستین سے پکڑا ہو تو کوئی حرج نہیں مگر ہاتھ ہرگز نہ لگائے۔فتاویٰ کبریٰ۔
بہرحال قرآن کریم ہرگز بلاوضو نہ چھوا جائے۔
خود قرآن کریم میں ارشاد ہے: ترجمہ
قرآن کو مَس نہیں کرتے مگر پاک مخلوق(فرشتے) اس آیت کے متعلق تمام مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ فرشتوں کے بارے میں ہے۔
جب فرشتے معصوم، تمام گناہوں کی گندگی سے بھی اور جسمانی نجاستوں سے بھی پاک مخلوق ہیں، ان کے متعلق کہاگیا کہ وہ پاک، مطہر اور منزہ مخلوق اس کو مس کرتی ہے تو اس سے خودبخود یہ معلوم ہوا کہ گناہوں کی پلیدی اور پیشاب پاخانہ کی نجاست میں ملوث ہونے والا انسان بھی قرآن کو پاک منزہ ہو کر ہی مس کرے لہٰذا باوضو با غسل ہو کر ہی قرآن کریم کو چھواجائے۔ ہاں اگر زبانی تلاوت کرنی ہو تو پھر وضو لازم نہیں ہے۔
علامہ ابن تیمیہ کے مذکورہ ارشادات فتاویٰ ابن تیمیہ جلد 21میں ہیں جو ان کی شہرہ آفاق کتاب اور علوم اسلامیہ کا خزانہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: ۱مکتب کے لئے عشر یا زکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیںمکتب ایک یا دو گھنٹے کے لئے کھلا رہتاہےاوراس میں زیادہ تر غریب بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کے پاس کوئی گزار ہ نہیں ہے اور جو بچے امیر ہیں وہ پیسے دیتے ہیں مگر اس رقم سے مدرس کی تنخواہ پوری نہیں ہوتی ہے ۔
سوال:۲-نیم آستین والے قمیص میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں اور آ ج کل کے نوجوانوں میں کڑھے پہننے کا فیشن ہے ، کیا اسے پہنے ہوئے نماز پڑھنادرست ہے ؟
سوال:۳-مقتدی نماز ظہریا نماز عصر کے لئے مسجد میں امام صاحب کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں تو امام صاحب خاموشی سے قرأت شروع کرتے ہیں۔اگر امام صاحب خودکوئی سورت پڑھیں اور مقتدی اپنے دل میں کوئی دوسری سورت پڑھے گا۔کیا اس کی نماز دُرست ہے ؟
ایک سائل ۔۔۔۔ کولگام
غرباء زکوٰۃ کی رقم سے فیس ادا کریں
تنخواہ اُستاد کے لئے حلال
جواب:۱-مکتب میں زکوٰۃ و صدقۂ فطر کس مد میں صرف کی جائیں گی ؟ اگر مکتب کے استاد کو تنخواہ دی جائے تو یہ دُرست نہیں ۔اگر مکتب کی تعمیر میں خرچ کی جائے تو یہ درست نہیں ہے اور اگر غریب بچوں کو نورانی قاعدہ، قرآن کریم کا صحیفۂ مبارک یا دوسری دینی کتابیں دی جائیں تو یہ دُرست ہے ۔ اگرغریب بچوں کو وظیفہ دیا جائے اور پھر جیسے امیر والدین کے بچے خودفیس اداکرتے ہیں ۔اسی طرح یہ غریب بچے صدقات ،زکوٰۃ وغیرہ کی رقوم سے وظیفہ لے لیں او رپھر فیس بھی ادا کریں تو اس طرح زکوٰۃ بھی ادا ہوگی او رفیس آنے کی وجہ سے استاد کی تنخواہ بھی پوری ہوجائے گی ۔ یہ درست ہے ۔
شرعی لباس میں نماز پڑھنا افضل
جواب ۲۔ افضل اور شرعی طور پرپسندیدہ یہ ہے کہ شرعی لباس میں نماز ادا کی جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے کہ ہر سجدہ کے وقت اچھی زیب وزینت کرو ۔ (سورہ الاعراف )۔ظاہرہے یہاں شرعی زیب وزینت ہی مراد ہے۔ شرعی لباس یہ ہے کہ پوری آستین والی قمیص جو رانوں تک ستر کرنے والی ہو اور ایسا پاجامہ یا پتلون جو ٹخنوں سے اوپر اور رانوں اور سر ینو کے مقام پر ڈھیلی ڈھالی ہو تاکہ ستر کے حصے کا حجم ظاہرنہ ہو اور سرپر عمامہ یا ٹوپی ہو ۔بس اس طرح کے لباس میں نماز پڑھناشریعت کا مطلوب ہے۔ مجبوری میں جب نصف آستین میں نماز پڑھی گئی تو وہ ادا ہوجاتی ہے اور جب کوئی ایسی حالت میں ہوکہ یا تو نماز چھوڑ دینی پڑے یا نصف آستین والی شرٹ میں نماز پڑھنی پڑے تو ایسی حالت میں اُسی شرٹ میں نماز پڑھیں مگر نماز ترک نہ کی جائے ۔
ہاتھوں پر کڑا یا دھاگا باندھنا اہل کفر کا شعار ہے ۔اس سے سختی سے پرہیز کرنا لازم ہے اس لئے کہ اس سے ایمان کو خطرہ ہوتا ہے۔اہل کفر کا کوئی شعار مثلاً قشقہ کھینچنا ،ماتھے پر ٹیکہ کرنا،صلیب لٹکانا ، زنار باندھنا ،ہاتھوں میں کڑے ڈالنایا کلائی میں لال یا سیاہ رنگ کے دھاگے باندھنا یا منکوں یعنی لکڑی کے دانوں کے ربن باندھنا یہ سب مختلف غیر مسلم اقوام کے مذہبی شعار ہیں ۔ مسلمانوں کو ان سے ایسے دور رہناضروری ہے جیسے کسی زہریلی چیز سے انسان دور رہتاہے ۔ زہرجان کے لئے خطرہ ہے او رکفر کا شعار اختیار کرنا ایمان کے لئے خطرہ ہے ۔
مقتدی کے لئے نماز میں سورت پڑھنا لازم نہیں
جواب :۳-مقتدی کونماز میں کوئی سورت پڑھنالازم ہی نہیں ہے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائو تو پہلے صفیں اچھی طرح خوب سیدھی کرو، پھر تم میں سے کوئی شخص امام بنے ، پھر وہ امام جب تکبیرپڑھے تو تم بھی تکبیرپڑھو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ یہ حدیث مسلم شریف میں ہے ۔ اس حدیث میں مقتدی کو خاموش رہنے کاحکم دیا گیا ۔ سنن ،نسائی ،ابودائود اور ابن ماجہ میں حدیث ہے ۔ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے امام اس لئے مقرر کیا جاتاہے کہ اُس کی اقتداء کی جائے …پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو او رجب وہ قرأت کرے تو تم خاموش ہو جائو ۔ ان کے علاوہ قرآن کریم میں بھی یہی حکم ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم سنو اور خاموش رہو۔ اس لئے مقتدی پر کوئی سورت پڑھنا لازم ہی نہیں ہے ۔ جب لازم نہیں تو امام سے مختلف سورت پڑھنے کا سوال ہی نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:قرآن اور احادیث مبارکہ کے پُرنور اصول اور ضابطہ کے مطابق جواب مطلوب ہے۔ سوال ہے وراثت کے متعلق :
کشمیر کے مروجہ طریقہ اصول وراثت سے آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ یہاں لڑکیوں(بیٹیوں)کو اس طریقے سے وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے کہ شادی کے بعد وہ میکے تب ہی خوشی خوشی جاسکتی ہیں یا بھائی اُن کو(یا اُس کو) تب ہی دعوت پر اپنے گھر(یعنی اُن کے میکے) بلاتا ہے یا بلائے گا جب وہ (بہنیں یا لڑکیاں) باپ کے ترکہ میں سے یا باپ کی زندگی ہی میں ملنے والا پنا حق بھائیوں کو بخش دیں۔مختصراً عرض اس طرح سے ہے کہ کیا بہن اپنے باپ کے ترکہ میں سے ملنے والاحق اپنے بھائی کو بخش سکتی ہے یا نہیں؟ کیا ایسی کوئی حالت ہے کہ بہن اپنے بھائی کو اپنا حق بخش سکتی ہے؟ اگر بہن نے اپنا حق بخوشی یا ایسی ہی کوئی مجبوری کے تحت جو اوپر بیان کی گئی، بھائی کو بخش دیا ہو تو کیا وہ بھائی کے لئے حرام کی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے تحت جتنے بھی نکتے وضاحت طلب ہوں اُمید ہے کہ آپ اُن سمیت جواب تحریر فرمائیں گے۔
شوکت احمد ۔۔۔۔پلوامہ
میکے اوربیٹی کا رشتہ وراثت کا نہیں نسب کا
جواب:قرآن نے فوت ہونے والے شخص چاہے مرد ہو یا عورت کے فوت ہونے پر جیسے اُس کے بیٹے کو مستحق وراثت قرار دیا ہے اُسی طرح اُس کی بیٹی کو بھی وراثت کا حقدار قرار دیا ہے چنانچہ قرآن نے اس کو اللہ کا لازم کردہ فریضہ قرار دیا ہے۔اب کسی بھائی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی بہن کو وراثت سے محروم کر دے۔میکے کے ساتھ بیٹی کا تعلق وراثت کی بناپر نہیں بلکہ نسب کے محکم اصولوں پر قائم ہے۔بیٹی بہرحال میںبیٹی اور بہن ہر حال میں بہن ہے اور ان کیساتھ حسن سلوک وصلہ رحمی کرنا فرض ہے اور قطع رحمی حرام ہے اور بہرحال یہی شرعی ضابطہ ہے۔ بہن کے ساتھ حسن سلوک اگر وراثت نہ لینے سے مشروط کر دی جائے او ربھائی کا رویہ بہن کے ساتھ ایسا ہو کہ اگر اُس نے اپنا حق وراثت طلب کرلیا تو پھر اُسے میکے سے قطع تعلق کا خدشہ ہو اور وہ اگر اپنے حق وراثت کے متعلق مجبوراً چپ اختیار کرے تو پھر اُس کو بھائی کی طرف سے آئو بھگت ہو تو اس طرز کا یہ تعلق نہ شرعی طور پر قابل تحسین ہے نہ اخلاقی طور پر اور نہ ہی یہ کوئی اخلاص و حقیقی محبت کی بنیاد پر قائم ہے۔اس لئے شرعی حکم یہ ہے کہ بھائی اپنی بہن کو اُس کا پورا پورا حق وراثت فریضہ جان کر ادا کرے اور پھر اُس کے ساتھ ہر طرح سے حسن سلوک وصلہ رحمی کامعاملہ بھی اپنائے رکھے۔اگر بہن اپنے بھائی کو اپنا حق وراثت اس لئے بخش دے تاکہ وہ اپنے میکے آنے جانے کا دروازہ کھلا رکھ سکے ورنہ اُس کو بے رخی اورقطع تعلق کا خطرہ ہو تو بھائی کے لئے محض اس طرح بخشا ہوا حق وراثت ہرگز بھی حلال نہیں ہے۔ کیونکہ یہ استحصال ہے لیکن اگر بہن نے بغیر کسی شرط کے بلا کسی خارجی دبائو یا خطرہ کے اور اپنی دلی رضامندی سے حق وراثت اپنے قبضہ میں کر لینے کے بعد اورا پنے بھائی کا حسن تعلق ملاحظہ کرنے کے بعد محبت کی بناء پر اصرار سے اپنا حصہ اپنے بھائی کو بخش دیا تو پھر یہ جائز ہوگا اور اس صورت میں بھائی کے لئے یہ حصہ بھی غیر مشکوک ہوگا۔