سوال: عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر لوگوں کوبجلی، پانی یا اس طرح کی عوامی ضرورت کی مانگ کرنا ہوتی ہے تو لوگ سڑکوں پر آتے ہیں۔دھرنا دیتے ہیں اور پھر اس سختی کے ساتھ روڈ بند کرتے ہیں کہ دونوں طرف گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اس میں بعض اوقات طرح طرح کے غم ناک واقعات سامنے آتے ہیں، کوئی گاڑی گذرنے کی کوشش کرے تو گاڑی کا نقصان ہوتا ہے،کسی گاڑی میں مریض ہو تو وہ چاہے جان بلب ہو، درد سے تڑپ رہا ہو مگراکثر دیکھنے میں آیاہے کہ دھرنادینے والے نرمی نہیں برتتے، کوئی شخص اپنی کتنی ہی ضروری ڈیوٹی پر جانے والاہو، اس کی کوئی پرواہ نہیں حتیٰ کہ ڈاکٹر کو جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، دور سے سفر کر کے آنے والے سڑک کے دھرنا کی وجہ سے درماندہ ہوجاتے ہیں۔ اسپتالوں کا عملہ نہ پہنچے تو بیماروں کو جو مشکلات ہوتی ہیں، وہ محتاج بیان نہیں ۔
اب سوال یہ ہے :بجلی پانی یا اس طرح کی بنیادی عوامی ضرورت کی پریشانی وجہ سے سڑک بند ،پہیہ جام اور دھرنا دے کر عبور و مرور کو بند کرنا،جس سے عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ،کیسا عمل ہے مطالبہ گورنمنٹ سے مگر سزا عام رہ گذار کو دینا اسلام کی رو سے کیا ہے؟اس کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ اپنی مانگ کے لئے اگر یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے تو بسا اوقات مطالبات پر کوئی شنوائی بھی نہیں ہوتی تو متبادل کیا ہو۔تشفی بخش جواب چاہئے۔
غلام قادر خان … سرینگر
جواب:اسلام کسی بھی مخلوق چاہے وہ حیوان حتیٰ کہ کیڑے مکوڑے ہی کیوں نہ ہوںکوتکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مخلوق ساری اللہ کا عیال ہے اس لئے اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ جب عام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ تو انسان ،چاہے وہ کوئی بھی ہو ،کو تکلیف پہنچانے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے۔ راستہ پر چلنا ہر شخص کا حق ہے۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ راستوں میں مت بیٹھو، اگر تم پھر بھی بیٹھے تو گذرنے والوں کے لئے رکاوٹ مت بنو۔
ایک حدیث میں ہے۔ راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹانا ایسا ہی ہے جیسے تم نے صدقہ کیا۔ ان ارشادات کے بعد سڑکوں پر اسی طرح دھرنا دینا کہ گذرنے والوں کوبھی گذرنے کی اجازت نہ ہوہرگز دوست نہیں ہے یہ ایک قسم کا ظلم ہے۔ انسان کو اپنا حق طلب کرنا درست ہے مگر اپنا حق پانے کے لئے کسی اور کو یرغمال بنانا یا تکلیف پہنچانا ہرگز درست نہیں۔بجلی پانی یا اس طرح کی عوامی ضروریات اگر پوری نہ ہورہی ہوں اور اس لئے مطالبہ یا احتجاج کرنا ہی مفید مقصد ہو تو بھی عام غیرمتعلق عوام کو راستہ روک کر تکلیف پہنچانا کسی طرح بھی نہ شرعاً درست ہے اور نہ عام انسانی اخلاق و عقل و خرد کی رو سے صحیح ہے۔
اس کے لئے کوئی دوسرا متبادل ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس میں اپنا مقصد بھی حاصل ہو اور نہ ہی کسی قسم کی توڑپھوڑ ہو اور نہ کسی پر ظلم و زیادتی ہو۔
ظلم کے خلاف صدائے احتجاج اس طرح بلند کرنا کہ وہ دوسروں پر ظلم کا سبب بنے دراصل بجائے خود ایک ظلم ہے۔ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ظلم قیامت کے دن ظلمت ہوگی۔
ایک حدیث میں ارشا د ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ پر ظلم کو حرام کر رکھا ہے تو مخلوق پر کسی کا ظلم کرنا کیسے برداشت کروں گا۔ سوچئے اور ٹھنڈے دل سے سوچئے۔ جب کوئی دور سے سفر کر کے آرہا ہو اور وہ واپس بھی نہ جاسکتا ہو۔ جب کسی بیمار کو اسپتال پہنچانا ہو، جب کسی کوقرضہ وصول کرنے کے کہیں پہنچنا ہو، جب کوئی گھر کی ضروریات لانے کے لئے کہیں جارہا ہو، جب کسی کو ضروری ڈیوٹی پر پہنچنا ہو، جب کسی کو کسی بیماریامفلوک الحال کی ضرورت پورا کرنا ہو اور اسی لئے اُس نے سفرشروع کیاہو،جب کسی مجبور شخص نے سخت مجبوری کی بناء پر پوری گاڑی کرایہ پر لی ہو یا اس طرح کی کوئی بھی مشکل ہو اور پھر کسی جگہ اس کو غیرمتوقع طور پر دھرنا سامنے آئے اور وہ طرح طرح کی منت سماجت کرے مگر بجلی پانی کا وہ مطالبہ کرنے والے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر ڈٹے رہیں اور وہ مجبور ،بے بس، پریشان ہو کر آہ نکالے تو دیکھئے ارشاد رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا ہے:
حضرت رحمت دوعالمؐ نے ارشاد فرمایا: مظلوم کی آہ سے بچو اس لئے کہ اس کی آہ اور عرش کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یعنی وہ فوراً قبول ہوتی ہے ۔ایک حدیث میں ہے کہ وہ مظلوم چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو تو بھی اس کی آہ سے بچو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱- کسی شخص کے فوت ہونے پر بیوہ کا اس کے جائیداد میں کتنا حصہ شرعی دینا لازمی ہے ۔ عموماً مشاہدے میں آیا ہے کہ بیوہ کو جوحصہ اداکیاجاتاہے وہ اس شرط پر اداکیاجاتاہے کہ اگر اس نے دوسری شادی کی تو وہ اس حق سے محروم ہوجائے گی ۔ اس لئے عوام میں بھی اس کو تاحیات سمجھا جاتاہے ۔ محکمہ مال میں بھی بیوہ کے نام کے ساتھ لفظ ’’تاحیات تانکاح ثانی‘‘ اندراج کیاجاتاہے ، یہ کس حد تک درست ہے ؟
ایک سائل…از واتھورہ
بیوہ کے حق وراثت اور نکاح ثانی کا کوئی تعلق نہیں
جواب:ا-شریعت اسلامیہ نے تقسیمِ وراثت میں فوت ہوئے شخص کی زوجہ کو ہرحال میں مستحق وراثت قرار دیاہے اور یہ قرآن میں صاف صاف موجود ہے کہ فوت ہونے والے شوہر کے ترکۂ میراث میں سے زوجہ کو چوتھا (1/4)حصہ ملے گا ،اگر فوت ہونے والے شخص کی اولاد نہ ہو اور اگر اس کی اولادہوئی تو پھر زوجہ (بیوہ)کو کل ترکہ کا آٹھواں (1/8) حصہ دیا جائے ۔ اس سے واضح ہواکہ بیوہ کو یہ حصہ قرآن نے دیا ہے ۔یعنی اللہ نے یہ حصہ مقرر کیا ہے ۔ اس لئے اس حصہ کے متعلق یہ کہنا کہ ’’یہ تاحیات یا نکاح ثانی ‘‘ ہے غلط ہے ۔ نہ محکمہ مال کے اندراج کنندگان حضرات کے لئے ، نہ بیوہ کے لئے ،نہ بیوہ کے بھائیوں یا اولاد کے لئے یہ درست ہے کہ شریعت کے مقرر کردہ حصہ کو وقتی قرار دیں۔جیسے ہر وارث کو شریعت نے حصہ دیاہے اور اس کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ جیسے چاہے اس میں تصرف کرے ۔ چاہے فروخت کرے یا صدقہ کرے ۔ یا کسی کو ہبہ کرے یا اُس کے متعلق شرعی طور پروصیت کرے ۔ یا چاہیں جو کرے ہروارث کی طرح بیوہ کو بھی یہ حق ہے ۔ اسلئے تاحیات یا نکاح ثانی کہنا ، یاسمجھنا ،لکھ کر رکھنا ہرگز درست نہیں ہے ۔
بہرحال شریعت اسلامیہ کی رو سے بیوہ کو ملنے والی وارثت اُس کا ایسا ہی حق ہے جیسے دوسرے وارثوں مثلاً بیٹوں کوملنے والی وراثت ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱- حاملہ خاتون کی خبرگیری،اُس پر دورانِ حمل آنے والے اخراجات،وضع حمل یا سرجری (Surgery) کا خرچہ کس کے ذمہ ہے ۔ سسرال والوں کے ذمہ یا میکے والوں کے ؟
سوال:۲- خواتین کوماہانہ عذراور وضع حمل کے بعد جو عذر کے ایام ہوتے ہیں ، اُن ایام کے متعلق اسلامی حکم کیا ہے ؟نماز ، تلاوت قرآن ،تسبیحات اوراد ، وظائف ، دعا ،درودشریف ۔دینی کتابوں کا مطالعہ ان میں سے کیا کیا کام اسلامی شریعت میں جائز ہیں۔
سید محمد ہلال ۔۔ جموں
حاملہ اور زچہ پر آنے والے اخراجات
کس کی ذمہ داری؟
جواب:۱-شریعت اسلامیہ کے اصولی احکام میں سے ایک ضابطہ یہ ہے :الخراج بالضمان ۔اس کامفہوم یہ ہے کہ جو پھل کھائے وہی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ۔ اس اصول سے سینکڑوں مسائل حل ہوتے ہیں ۔ یہ دراصل ایک حدیث کاحصہ ہے او ربعد میں اسی کوفقہی ضابطہ کے طور پر بے شمار مسائل حل کرنے کی اساس بنایا گیا ۔ اس کی روشنی میں غورکیجئے۔ نکاح کے نتیجے میں شوہر اپنی زوجہ سے کیا کیا فائدہ اٹھاتاہے ۔ اس کی طرف سے خدمت ، گھرکی حفاظت ،فطری ضرورت کی جائز اور شرعی دائرے میں تکمیل اور تسکین اور عصمت کی حفاظت کے بعد اولاجیسی عظیم نعمت کا حصول ! یہ سب زوجہ کے ذریعہ سے ملنے والی نعمتیں ہیں ۔
اب جس ذات سے اتنے فائدے اٹھائے جارہے ہیں ۔ اُس کے تمام ضروری تقاضے او رضرورتیں پورا کرنا بھی لازم ہوںگے ۔شریعت میں اس کونفقہ کہتے ہیں ۔شریعت اسلامیہ نے جس طرح اولاد کا نفقہ وپرورش باپ پر لازم کیا ہے اسی طرح زوجہ کا نفقہ بھی شوہر پرلازم کیاہے ۔لہٰذا حمل کے دوران اور وضع حمل کا خرچہ بھی شوہر پر ہی لازم ہے ۔ زوجہ کے میکے والے اپنی خوشی سے اگر اپنی بیٹی پر کچھ خرچ کریں تو وہ اُن کی طرف سے صلہ رحمی اور احسان ہے لیکن اصل ذمہ داری بہرحال شوہر کی ہے ۔ اخلاقی طور پر یہ غیرت اورعزت نفس کے بھی خلاف ہے کہ کوئی انسان یہ خواہش رکھے کہ میری بیوی کے حمل اور بچے کی پیدائش کا خرچہ کوئی اور اٹھائے اور میں صرف نفع اٹھائوں ۔
جواب:۲-خواتین کو ماہانہ پیش آنے والے عذر کو حیض اور وضع حمل کے بعد پیش آنے والے عذر کو نفاس کہتے ہیں ۔ یہ دونوں حالتیں یکساں طورپر ناپاک ہونے کی حالتیں ہیں ۔ ان دونوں قسم کے اعذار
میں نماز تو معاف ہے اور اِن نمازوں کی قضا بھی لازم نہیں ۔ روزے تو اس عذر کی حالت میں رکھنادُرست نہیں البتہ ان روزوں کی بعد میں قضالازم ہے ۔ تلاوت بھی جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تسبیح ، درودشریف ، دعائیں ، وظائف ، دینی کتابوں کا مطالعہ حتیٰ کہ تفسیر اور حدیث کا مطالعہ کرنے کی اجازت ہے بلکہ شوق کے ساتھ اس پر عمل کرنا چاہئے ۔یعنی نمازوں کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے اور مزاج میں عبادت کا ذوق زندہ رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ نماز کے اوقات میں تازہ وضو کرکے جائے نماز پر بیٹھ کرتسبیح ،تہلیل ،استغفاراور درودشریف اور دعائیں کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
حیض ونفاس کی حالت میں شوہر سے ہمبسترہوکر جماع کرنا سخت حرام ہے ۔اس سے بھی اجتناب کرنے کا پورا اہتمام کرنا چاہئے ۔