سوال:-ایک شخص ، جس نے اپنی اولاد کو ہررنگ میں آباد کیا ، انہیں مکانات تعمیر کرکے دیئے ،بڑھاپے میں سبھی اولاد کے ہاتھوں دغا کا شکار ہو جاتا ہے۔بالآخر اپنے داماد کے گھر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتاہے۔ بیماری کی حالت میں کوئی بیٹا اس کا علاج معالجہ اور دیکھ ریکھ نہیں کرتا۔ رحلت کرنے پر اُسے کسی غیر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا جاتاہے ۔ کیا ایسی اولاد والد کی وراثت کی حقدار ہوتی ہے۔
عبدالرحمان … بتہ مالو ،سرینگر
والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ
مگر وراثت سے محرومی کسی سبب نہیں
جواب :-والدین کے حقوق قرآن وحدیث سے تفصیل وتاکید کے ساتھ ثابت ہیں اور نافرمانی کوحرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا ہے ۔ چنانچہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا گناہ کبیرہ میں سب سے بڑا شرک ہے اور والدین کی نافرمانی ہے ۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے او راللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے ۔ والدین کے حقوق میں خدمت ،اطاعت، ضروریات کو پورا کرنے میں کفالت اور ہر طرح کی راحت پہنچانا لازم ہے۔ اگرکوئی اولاد والدین کے ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہوئی ہو تو اُس پر توبہ واستغفار بھی لازم ہے اور کثرت سے والدین کے مقبروں پر جانا بھی اور اُن کے لئے تسلسل واہتمام سے وہ دعا پڑھنا جو قرآن کریم میں ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ جوسورۃ اسراء میں ہے ۔ اولاد اگر پوری طرح نافرمان بھی رہی ہو تو بھی وہ اپنے والدین کی وراثت سے محروم نہیں ہوں گے ۔ اس لئے وراثت کا تعلق قرابت سے ہے ۔ خدمت اور حسن سلوک سے نہیں ہے ۔ وراثت کا حق جیسے فرمان بردار اطاعت گزار اور وفاشعار اولاد کوہے، اسی طرح نافرمان اور حقوق ادا نہ کرنے والی اولاد کو بھی ہے مگر نافرمانی اور والدین کو ذہنی یا جسمانی ایذارسانی اور حقوق کی عدم ادائیگی کی سزا دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-نمازِ جنازہ چار مسلکوں میں سے کس مسلک میں سِرّاً اور کس مسلک میں جہراً پڑھناجائز ہے ؟ اگرعوام کی کم علمی کومدنظر رکھتے ہوئے نماز جنازہ کو جہراً ادا کرنا بہتر سمجھاجائے تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ کون سی تکبیر کے بعد کیا پڑھناہے ۔کیا ایسا دُرست ہے ؟
بشیر احمد میر…… ٹنگمرگ،کشمیر
نماز جنازہ سِرّاً پڑھنا مسنون
جواب:- نماز جنازہ سِرّاً ہی پڑھنا سنت سے ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سِرّاً ہی جنازہ پڑھاہے اور حضرات صحابہؓ نے بھی اور اُس کے بعد ساری اُمت اور چاروں مسلکوں کے تمام ائمہ اور عوام اسی پر عمل پیرا ہیں اور آج بھی پورے عالم میں حتیٰ کہ حرمین الشریفین میں بھی اسی پر عمل ہورہاہے کہ جنازہ سِرّاً پڑھاجاتاہے ۔جنازہ میں وہی کلمات اور دعائیں پڑھنی ہوتی ہیں جو عام نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں ۔ ہاں تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعائے مغفرت پڑھنی ہوتی ہے جو حدیث وفقہ کی کتابوں میں درج ہوتی ہے ۔ وہ دعا یاد کرنا ضروری ہے تاکہ میت کے جنازہ میں شریک ہوکر وہ دعاپڑھ سکیں ۔
اگر یہ خدشہ ہو کہ عوام کو جنازے میں پڑھے جانے والے کلمات ادا کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ جنازہ شروع کرنے سے پہلے تفصیل سے جنازہ کا طریقہ اور دعائیں سکھائی جائیں ،نہ کہ یہ کہ جنازہ خلافِ سنت جہراً پڑھا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-عرض یوں ہے کہ ہم دہی علاقوں میں ملازمت کرتے ہیں اور ہمارے اوقات کار میں کسی قسم کا وقفہ نہیں رکھاگیا ہے ۔ جس سے ہماری اکثر ظہر نمازیں متاثر ہوتی ہیں اور خاص کر جمعتہ المبارک کی نماز عام طور سے جامع مسجد کی دوری کی وجہ سے چھوٹ جاتی ہے۔اگر کوئی شخص نماز کے لئے بھی جاتاہے تو اس کو افسروں کے آنے کا ڈر رہتا ہے،جس کی وجہ سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھتا بھی ہے تو اس کی نماز کی روح قائم نہیں رہتی۔اب آپ سے گذارش ہے کہ ایسے شخص کے لئے کیا حکم (شرعی )ہے ؟ جوجمعہ جامع مسجد کی دوری کی وجہ سے ادا نہیں کرپاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی گذارش ہے کہ اس شرعی مسئلے کو متعلقین تک پہنچایا جائے تاکہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لئے کسی کو یہ فرضِ عین ادا کرنے سے روکا نہ جائے ۔
چند ملازمین…
ڈیوٹی کی وجہ سے نماز جمعہ چھوٹنے کا مسئلہ
جواب:- ملازم کوڈیوٹی کے اوقات میں جیسے کھانے پینے اور شرعی ضروریات پورا کرنے کا حق ہے اور یہ ایسا حق ہے جس سے انکار ممکن نہیں تو دورانِ ڈیوٹی ضرورت کی بات چیت ، مزاج پرسی، کھانا پینا اور حوائج بشریت پوراکرنا جیسے درست ہے، ایسے ہی نماز پڑھانا بھی درست ہے ۔ وہ طبعی ضرورت ہے اور یہ شرعی ضرورت ہے ۔جس جگہ ڈیوٹی ہواگر اسی گائوں میں نماز جمعہ ادا ہوتی ہوتو نماز جمعہ کی ادائیگی لازم ہے ۔ البتہ صرف اتنا وقت اس نماز میں خرچ کرنے کی اجازت ہے جس میں وہ سنتیں بھی پڑھ سکے ۔ خطبہ جمعہ سن سکے اور فرض وسنت اداکرکے واپس اپنی ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ جائے ۔اگراُس گائوں میں جمعہ ادا نہ ہوتا ہو تو ہفتہ کے دوسرے ایام کی طرح جمعہ کے دن نماز ظہر ادا کی جائے گی اور اس نماز کی ادائیگی ایک بجے سے دو بجے تک ہوسکتی ہے او ریہ وقت عموماً وفقہ کا ہوتاہے۔اسی صورت پر کوئی نقصا ن بھی نہ ہوگا اور کسی کو اعتراض کا حق بھی نہ ہوگا ۔ l
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-حلال جانور کے وہ اجزاء کیا ہیں جن کا کھانا جائز نہیں ؟قرآن وحدیث سے اس کا جواب تحریر فرمائیں ۔
بشیر احمد۔ ۔ ۔ عید گاہ سرینگر
حلال جانور کے ممنوع اجزاء
جواب:- حلال جانور کی سات چیزیں ممنوع ہیں۔ ان سات چیزوں میں سے ایک چیز حرام ہے اور بقیہ چھ چیز مکرو ہ تحریمی (حرام کے قریب) ہیں ۔ و ہ یہ ہیں ، خون (یہ حرام ہے )، نرجانور کا عضو تناسل ،مادہ جانور کا عضو تناسل، نر جانور کے فوطے ، پیشاب کی تھیلی ،پِتّہ ، غدّہ،غدّہ کے معنی گوشت کی وہ گٹھلی جو عموماً جانور کی کھال کے نیچے ہوتی ہے اور کتنا ہی پکایا جائے وہ جوں کی توں رہتی ہے ۔ ان سات چیزوں میں سے خون کی حرمت قرآن کریم سے ثابت ہے اور بقیہ چھ چیزوںکی ممانعت حدیث سے ثابت ہے ۔ یہ حدیث بیہقی ، طبرانی میں موجود ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-مہر سنت ، واجب یا فرض ہے ؟ سنت کے مطابق مہر کتنا ہونا چاہئے ؟ کیا مہر نکاح کے وقت ادا کرنا چاہئے ؟ بیوی اُس رقم کو خرچ کرسکتی ہے ؟ مہر کی ادائیگی کے بارےمیں وضاحت کیجئے ۔
افتخار حسین …کشتواڑ
مہر کی مقدار متعین نہیں
جواب :-مہرشرعاً لازم ہے اور یہ فرض ہے، نیز لڑکے کی مالی وسعت کے مطابق مہر مقرر کرنا چاہئے ۔دراصل شریعت اسلامیہ نے مہر کی کوئی متعین مقدار مقرر نہیں کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے مسلمان کبھی بھی مالی طور پر یکساں حالت میں نہیں ہواکرتے ۔ کچھ مالدار ، کچھ بہت زیادہ مالدار ، کچھ غریب اور کچھ بہت ہی مفلس اور نادار ۔اس لئے دونوں خاندان(لڑکے اور لڑکی والے) اپنی مالی وسعت اور اپنے عرف اور رائج مہر کے مطابق مہر مقرر کرسکتے ہیں ۔ یہی طرز عمل ہمیشہ سے رائج ہے اور درست ہے ۔پھر جو مہر مقرر کیا جائے اُس کو اوّلین فرصت میں اداکرنے کا اہتما م کرنا ضروری ہے ۔سب سے بہتر یہ ہے کہ زفاف سے پہلے پہلے مقررہ مہر اداکریں۔ اگروسعت نہ ہوتو لڑکی والوں کی اجازت سے مہر کو مؤجل یعنی کچھ عرصہ کی مہلت کے بعد ادا کرنا بھی رکھاجاسکتاہے ۔پھر جتنے عرصہ کی مہلت لی گئی اُس عرصہ کے اندر مہر کی ادائیگی لازم ہے۔مہر عورت کا شرعی حق ہے ۔ اُس میں کوئی شخص کسی قسم کی مداخلت نہیں کرسکتا ۔ نہ باپ، نہ شوہر ،نہ بھائی،نہ بیٹا،نہ میکے والےاور نہ سُسرال والے۔وہ اُس مہر کی خود مالک ہے او رپوری طرح سے تصرف کرنے اور خرچ کرنے میں مختار ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :جس امام کی داڑھی چھوٹی ہو کیا اُس کے پیچھے نماز درست ہے۔ نیز داڑھی کتنی لمبی ہونی چاہئے ۔‘‘
منظورالحسن…سرینگر
داڑھی کی مطلوب مقدار حکمِ رسولؐ کے مطابق
جواب:-یہ بروقت اوردُرست تنبیہ یقیناً توجہ سے اور غور وفکر سے پڑھنے کی علامت ہے ۔ بہرحال اس پر یہی کہاجاسکتاہے کہ جزاک اللہ خیر الجزاء۔اب ان دونوں سوالوں کا جواب درج ہے ۔
امام کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ اس کے عقائد درست ہوں ، تلاوت صحیح طور پر کرنے پرقادر ہو ، ضروری مسائلِ نماز سے واقف ہو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تمام گناہِ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو اور وضع قطع مکمل طور پر شریعت کے مطابق ہو۔
داڑھی رکھنا اسلام کالازمی حکم ہے ۔ اس لئے کہ یہ واجب ہے اور واجب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ واجب ہر اُس عمل کو کہاجاتاہے جوحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو،کبھی اسے ترک نہ کیا ہو اور اُس پر عمل کرنے کا حکم بھی دیا ہو ۔اگرچہ اُس عمل کا حکم قرآن کریم میں نہ ہو تو بھی وہ لازم ہوجاتاہے جیسے وتر کی نمازیا عیدین کی نماز واجب ہیں حالانکہ ان دونوں نمازوں کا حکم قرآن کریم میں نہیں ہے مگر چونکہ حضرت رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیشہ یہ نمازیں ادافرمائی ہیں اس لئے اس کو لازم یعنی واجب کادرجہ دیا گیا ۔ بس اسی طرح داڑھی کا مسئلہ ہے کہ حضرت رحمۃ للعالمین علیہ السلام نے خود ہمیشہ داڑھی رکھنے کا اہتمام فرمایا۔ نیز داڑھی بڑھانے کا حکم دیا اور زندگی میں کبھی داڑھی کو نہ مونڈھانہ خشخشی بنائی ۔
اور تمام صحابہ ،تابعین ،تبع تابعین ، فقہاء محدیثن اور اولیاء کرام نے داڑھی رکھنے کا اہتمام کیا تو یہ اجماع امت بھی ہے ۔ اس لئے داڑھی رکھنا واجب ہے جو داڑھی نہ رکھے وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے ۔
اس لئے وہ شخص ہرگز امامت کا اہل نہیں ہے جو داڑھی نہ رکھے ۔ اس پر پوری امت کا اتفاق ہے اور فتویٰ کی تمام مستند کتابوں ،چاہے وہ کسی بھی فقہی مسلک کی ہوں یا کسی بھی مکتب فکر کی ہوں ،میں یہی لکھاہے ۔
داڑھی کی وہی مقدار شریعت کا مطلوب ہے جوداڑھی کا حکم دینے والی ذات اقدس یعنی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھی اور حضرات صحابہؓ سے لے کر آج تک مستند ومعتبر طبقات مسلمین نے رکھی ۔یعنی عمل رسول ؐ اور عمل صحابہؓ حکم رسولؐ کی تشریح ہے ۔ جس امام کی داڑھی نہ ہو اُس کے پیچھے پڑھی جانے والی نماز ادا ہوجاتی ہے ۔یعنی وہ نماز واجب الاعادہ نہیں ہے ۔ مگر ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے ۔ فتویٰ کی ہر مستند کتاب میں یہی لکھاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔