سوال:-انسان بکثرت دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں ۔اس پر تعجب بھی ہوتا، مایوسی بھی ہوتی ہے ، پریشانی بھی ہوتی اور بہت سارے لوگ تو اللہ سے نااُمید ہوکر دعا مانگنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات اور اسباب کیا ہوسکتے ہیں۔تفصیل سے بتائیں۔
دعاء عبادت ہے:عدم قبولیت کےاہم اسباب
اویس احمد… جموں
جواب:-ایمان والا جب بھی دعا کرتاہے تو اس کو دعا کے عبادت ہونے کی وجہ سے اُسے اجر وثواب ضرورملتاہے ۔ چاہے وہ مقصد حاصل ہویا نہ ہو اور اُس کی طلب کردہ چیز ملے یا نہ ملے ۔ثواب بہرحال ملتا ہے ۔حدیث میں ہے دعا عبادت ہے اور ایک حدیث میں ہے دعا عبادت کا مغز ہے ۔پھر دعا کے قبول ہونے کے معنیٰ یہ ہیں یا تو وہ چیز بندے کو مل جائے جو اُس نے طلب کی ہے یا اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ اس کی کسی پریشانی کوختم کردیتے ہیں یاکسی آنے والی مصیبت کوہٹا دیتے ہیں یا اُس دعا کا بہتر عوض آخرت میں عطا کریں گے ۔ دنیا میں قبول نہ ہونے والی دعائوں کا ذخیرہ جب آخرت میں بندہ دیکھے گا تو وہ تمنّا کرے گاکہ کاش میری دنیا کی ساری دعائیں آخرت کے لئے ذخیرہ رکھی گئی ہوتیں تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ وہ وہاں زیادہ محتاج ہوگا۔کھلونے خریدنے پر رقم خرچ کرنے والے کی کچھ رقم اگر اتفاقاً بچ گئی ہو او روہ اس کے علاج کے کام آئے تو وہ یہی تمنّا کرے گا کاش وہ رقم بھی محفوظ ہوتی تو آج کام آتی ۔دنیا میں فوراً دعا قبول نہ ہونے کے کچھ اسباب یہ ہیں ۔ بندہ کی کمائی حرام ہو ، کھانا پینا، بدن کا لباس اور گھر کی اشیاء حرام دولت سے حاصل کردہ ہوں تو پھر دعائیں قبول نہیں ہوںگی ۔انسان معصیت کی زندگی گزارتا ہو یعنی اللہ کا فرض پورا نہ کرے اور اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں سے نہ بچے ، پھر دعا کرے تو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ، وجہ بالکل ظاہرہے ۔کبھی اللہ اس لئے دعا قبول نہیں کرتے کہ بندہ کو اس کی مطلوب چیز مل جائے تو وہ اللہ کے سامنے گڑگڑانا بلکنا ،تڑپنا اور بے قرار ہوکر مانگناچھوڑ دے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ عرصہ طویل تک بندے کو بلکتے ، تڑپتے اورگڑگڑانے کے لئے قبولیت دعا کو روک کر رکھتے ہیں پھرقبول کرتے ہیں ۔کبھی اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میرا بندہ مجھ سے اُکتا کر مایوس ہوکر مانگنا چھوڑ دے گا یا مسلسل مانگتا رہے گا ۔جب بندہ نہ تو اُکتاتا ہے ، نہ ہمت ہارتاہے ، نہ مایوس ہوتاہے نہ دل ملول ہوتاہے ۔ وہ اُمید قائم رکھتاہے بلکہ دل میں یقین بٹھا کر رکھتاہے تو پھر عرصہ کے بعد اُس کی دعا قبول ہوجاتی ہے ۔
کبھی بندہ ایسی چیز طلب کرتاہے جو اُس کے خیال میں اس کے لئے اچھی اور بہتر ہوتی ہے مگر اللہ کی منشاء میں وہ اس کے لئے بہتر نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اس کی دعا قبول نہیں فرماتے ۔ مثلاً کوئی عہدہ ، کوئی رشتہ ، کوئی منصب، کوئی چیز جو بندے کے تصور میں اُس کے لئے بہتر مگر اللہ کے علم میں اس کے لئے نابہتر ہوگی، تو وہ قبول نہ ہوگی ۔ کبھی اللہ تعالیٰ بندہ کو کوئی اور چیز دینا طے کرچکے ہوتے ہیں مگر بندہ اُس کے علاوہ کوئی اور چیز مانگتا ہے تو اس بندہ کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔عمومی طور پر یہی اسباب ہیں ۔ اہل علم نے ان کے علاوہ بھی کچھ اسباب بیان فرمائے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :میرا وضو نہیںٹھہرتا ہے۔ کبھی کبھی ایک نمازکے لیے مجھے، 3، 4، 5 بار بھی وضو بنانا پڑتا ہے اور پھر بھی وضو نہیں ٹھہرتا ہے۔ پھر میں ہوا کو خارج ہونے سے روکتا ہوں اور نماز ادا کرتا ہوں۔ ہوا خارج ہونے سےروکنے پر کافی تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے۔ پتہ نہیں ایسا کرنے سے میری نماز ادا ہوتی ہے کہ نہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرپاتاہوں۔ کبھی کبھاروضو اگرٹھہرےتو اُس وقت نماز سکون سے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کافی علاج کیا ،کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اس لئے برائے کرم میری مدلل رہنمائی فرمائیں۔ آپکا مشکور رہونگا۔
عبدالحمید، بمنہ سرینگر
بار بار گیس وپیشاب کے قطرات کا اخراج اور وضوکا مسئلہ
جواب : وہ شخص جس کو اتنی دیر وضو نہ ٹھہرتا ہو کہ وہ وضو کرنے سے لے کر نماز ختم ہونے تک اپنا وضو برقرار رکھ سکے ،وہ شخص شریعت کی نظر میں معذور کہلاتا ہے۔مثلاًکسی شخص کو پیشاب کے قطرے تسلسل سے گرنے کا عارضہ ہو ،اب جب وہ وضو کرتا ہے پھر نماز شروع کرتا ہے مگر نماز مکمل کرنے سے پہلے ہی اسکے قطرے گرجاتے ہیں ،چاہے نماز شروع کرنے سے پہلے یا نماز کے دوران !یا مثلاً کسی شخص کو پیٹ سے ہوا اتنی کثرت سے خارج ہو کہ وہ وضو کرکے نماز ختم ہونے تک اپنے وضو کو قائم نہ رکھ سکے،یہ شخص بھی معذور کہلاتا ہے یا مثلاً کوئی خاتون ایسی ہو ،جس کو حیض کے خون کے علاوہ خون اتنی کثرت سے آئے کہ وہ وضو کرکے نماز ختم ہونے تک اپنا وضو برقرار نہ رکھ سکے ،اس خون کو جو حیض کے علاوہ یکسر مختلف خون ہوتا ہے اگر چہ خون کے آنے کا راستہ ایک ہی ہوتا ہے ،یہ خون استحاضہ کہلاتا ہے ۔اس استحاضہ کی کثرت کی وجہ سے یہ عورت معذور قرار پاتی ہے۔۔اسی طرح اور بھی مثالیں ہیں۔اب یہ اوپر کی مثالیں ایسے افراد کی ہیں جو اپنا وضو قائم نہیں رکھ پاتے ،یہ تمام معذور ہیں۔ایسا معذور شخص جس کو یہ عذر اتنی قوت و کثرت سے پیش آئے کہ وہ اتنی دیر وضو نہ بچا سکے کہ نماز کا سلام پاک حالت میں پھیرلے۔اس معذور شخص کو شریعت کی طرف سے یہ رخصت ہے کہ وہ اذان ہونے کے بعد وضو کرے اور پھر نماز شروع کرے۔وضو کے فوراً بعد یا نماز کے دوران یا نماز کے ختم ہونے کے بعد اگر کتنی ہی مرتبہ اُسے یہ عذر مثلاً پیشاب کا قطرہ یا ریح کا خارج ہونا ،زخم یا پھوڑےسے خون کا نکلتے رہنا ،مسلسل پایا جائے تو یہ معاف ہے۔نماز کا اسی حالت میں پڑھنا اُسکا درست عمل ہےاور اس کا یہ وضو عذر کی وجہ اگر نماز کے وقت تک قائم مانا جائے گا ۔مثلاًکسی ایسےشخص ،جس کو وضو برقرا نہ رہنے کا کوئی عذر لاحق ہو ، نے نماز عصر کے لئے وضو کیا ،اب اُس کا یہ وضو غربِ آفتاب تک شرعاًمعتبر ہوگا ،چاہے اُسے اس دوران بار بار وضو توڑنے والا وہ سبب پایا جاتا رہے،وہ معاف ہوگا ۔جب یہ شخص شریعت کی نظر میں معذور قرار پایا تو اب اُس کو ایک وقت سے لے کر دوسرے وقت تک اپنے وضو کو برقرار تصور کرنا ہوگا ۔اس دوران وہ جتنی چاہیں نماز یںپڑھے،تلاوت کرے ،قضا نماز یا نوافل و سنن پڑھے ،اُسے اس کی اجازت ہے۔اگر کسی شخص کو ہوا خارج ہونے کا عارضہ پیش آرہا ہے تو اول اُسے ریح پیدا کرنے والی غذائیں استعمال کرنا ترک کردینی چاہئیں ،دوسرے وہ چیزیں کثرت سے استعمال کرنی چاہئیں جو گیس کو ختم کرنے والی ہوتی ہیں،اُن کو کاسرِ ریاح کہتے ہیں۔مثلاً سونف ،سیاح مرچ ،زیرہ وغیرہ ۔تیسرے شام کو کھانا ہلکا اور جلد کھانا چاہیے اور کھانے کے بعد کم از کم نصف گھنٹہ چہل قدمی کرنی چاہئے ۔کھانے میں سلاد زیادہ سے زیادہ لینی چاہئےاور کسی معتبر و مستند ماہر حکیم سے کاسرِ ریاح دوائوں کا نسخہ لکھواکر عمل کرنا چاہئے۔پھر اگر غیر اختیاری طور پر ہوا خارج ہوتی ہو تو اوپر لکھے گئے اصول کے مطابق اگر وہ معذور بننے کے دائرے میں آگیا تو پھر شریعت کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرے۔اگر ہوا خارج کرنا اپنے اختیار میں ہو تو پھر وضو کرکے نماز کے اختتام تک ہو ا روک لے اور نماز ادا کرے۔اگر ہوا روکنے سے سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے تو ہوا کو نہ روکے ،وضو کرکے نماز پڑھتا رہے اور نماز کے بعد تلاوت بھی کرتا رہے ۔ہوا کو روکنےکی دو حالتیںہوتی ہیں،کبھی روکنے میں نہ کوئی مشکل ہوتی ہے ،نہ برقراری ہوتی ہے اورنہ تکلیف ،تو ایسی صورت میں روک لینا چاہئے ۔کبھی تکلیف اور مزید امراض کا خطرہ ہوتا ہے پھر نہیں روکنا چاہئے ۔پیشاب ،پاخانہ کا بھی یہی مسئلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال(۱)نکاح ہوچکا ہے ،ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے تو بیوی کا نفقہ شوہر پر لازم ہوگا یا نہیں؟
سوال(۲) زوجہ شوہر کے ظلم و ستم کی بناء پر میکے میں مقیم ہو اور شوہر اُس کی کوئی خبر گیری نہ کرے تو زوجہ کا نفقہ شوہر پر لازم ہوگا یا نہیں؟
سوال (۳) اگر زوجہ کو طلاق ہوگئی ہو اور اُسے طلاق تسلیم ہو یا تسلیم نہ ہو ،دونوں صورتوں میں اس طلاق شدہ عورت کو نفقہ ملے گا یا نہیں؟اگر نفقہ ملے گا تو کتنے عرصہ تک ملے گا؟
عبدالمجید ،بمنہ سرینگر
نفقہ لینے کے مسائل،رخصتی سے قبل لازم نہیں
جواب(۱) زوجین کے درمیان حقوق لازم ہونے کے لئے صرف نکاح ہونا کافی نہیں ہے بلکہ رخصتی ہونا ضروری ہے۔اس رخصتی کو شریعت کی اصطلاح میں تسلیم نفس کہتے ہیں ۔لہٰذا اگر صرف نکاح ہوا ہے مگر تسلیم نفس یعنی رخصتی نہیں پائی گئی ہے تو زوجہ کا نفقہ شوہر پر لازم نہ ہوگا ۔
میکے میں مقیم خاتون کے لئے لینا جائز
جواب(۲) اگر کوئی زوجہ شوہر کے ظلم و زیادتی کی بنا پر میکے میں مقیم ہو اور شوہر اُس کی خبر گیری نہ کرتا ہو تو زوجہ کو حق ہے کہ وہ شوہر سے نفقہ کا مطالبہ کرےاور جب وہ مطالبہ کرے تو شوہر کو نفقہ دینا لازم ہوگا۔
ایام عدت کے بعد مطالبہ غیر شرعی
جواب(۳) اگر کسی خاتون کو طلاق ہوگئی ہو تو اس عورت کو صرف عدت کے ایام کا نفقہ لینے کا شرعاً حق ہے۔جونہی عدت گذر جائے گی ،یہ مرد اُس کے لئے مکمل طور پر اجنبی بن جائے گا اور اجنبی سے کوئی رقم بطور ِ نفقہ لینا شرعاً درست نہیں ہے۔عورت کو طلاق کا علم ہو یا نہ ہو ،اور اُسے طلاق تسلیم ہو یا نہ ہو ،نفقہ صرف عدت کے ایام تک لازم ہوتا ہے ،اُس کے بعد نفقہ کا مطالبہ اور حصولیابی غیر شرعی ہے۔
(نوٹ : یہ مسائل مسلم پرسن لا کے ضوابط کے مطابق لکھے گئے ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :-آج کل کشمیر میں بیشتر مسلمان مستورات میں یہ عادت عام ہوگئی ہے کہ خوب بنائو سنگھار کرکے گھرسے باہر نکلتی ہیں۔ دعوتوں وشادیوں پر اس کا زیادہ ہی اہتمام ہوتاہے ۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور یہ بنائو سنگھار غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرکے دعوتِ نظارۂ حسن کا موقعہ فراہم کرتاہے ۔ جب کہ گھروں میں اپنے شوہر کے لئے اس چیز کا زیادہ خیال نہیں رکھاجاتا ۔ براہ کرم شریعت کی رو سے مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔
شبیر احمد …بتہ مالو ، سرینگر
خواتین کی زیب وزینت اہم وضاحتیں
جواب: ۔اللہ نے خواتین کا مزاج اور ذہنیت ایسی بنائی ہے کہ وہ ہرحال میںبنائو سنگھارکاشوق رکھتی ہیںاور یہ مزاج اور شوق دراصل ایک اہم مقصد کے لئے ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے شوہر کے لئے محبوب اور پسندیدہ بنی رہے ۔ اس کا فائیدہ زندگی کے ہر مرحلے میں دونوں کو ہوگا۔ میاں بیوی میں جتنی قربت ، ایک دوسرے کی چاہت اور محبت ہوگی اتنا ہی وہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ،ایک دوسرے کو راحت پہنچانے بلکہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کااہتمام کریں گے ۔ اس لئے عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ یہ شوق ضرور پوراکرے مگر ا س طرح کہ وہ اچھے سے اچھا بنائو سنگھار(مگر شریعت کے دائرے میں)کرکے شوہرکوخوش رکھے۔ اُس کی پسند کو ہروقت ملحوظ رکھے اور اگر وہ یہ کرے اور نیت یہ ہو کہ میرا شوہر مجھ سے خوش رہے ۔ اُس کا میلان میری طرف برقرار رہے ۔اس کو مجھ سے کوئی تکدر نہ ہو اور اس غرض کے لئے وہ صاف ستھری رہے ۔ اچھے کپڑے استعمال کرے ، میلی کچیلی ہونے کے بجائے اپنے شوہر کے لئے معطر و پُرکشش رہے تو اس نیک اور عمدہ مقصد کے لئے یہ سب باعث اجر وثواب ہوگا ۔لیکن اگر دوسروں کو دکھانے کے لئے بنائو سنگھار کرے اور اچھے کپڑے پہنے تو اگرغیر مردوں کو دکھانے کی نیت ہو تو یہ خطرناک گناہ ہے اور اگر غیر عو رتوں میں اپنی عزت وبرتری دکھانی ہو تو بھی یہ فخر وبرتری کی نمائش کی وجہ سے غیر شرعی ہے ۔عورت دوسری کسی بھی جگہ چاہے تعزیت کرنے جائے یا کسی تقریب میں جائے ،اقارب یا پڑوسیوں سے ملاقات کے لئے جائے یا شادی بیاہ کی تقریبات میں اگر وہ ایسا بنائو سنگھار کرتی ہے کہ جس میں دوسرے اُس کی طرف بُری نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہوجائیں تو اس کا گناہ جہاں دیکھنے والوں کو ہے وہیں اس خاتون کو بھی ہےکیونکہ یہی دعوت نظارہ کا سامان لئے سامنے آتی ہے ۔اس لئے قرآن کریم میں ارشاد ہے (عورتوں کا حکم دیتے ہوئے فرمایا اور تم جاہلانہ طرزِ پر بنائو سنگھار مت کرو)۔ اس میںایک تو غیر اقوام کی طرز اور وضع قطع اپنانے کوجاہلانہ کہاہے اور دوسرے اجنبی مردوں کے لئے اپنے آپ کو پُرکشش بنانے کوجاہلانہ روش قرار دیاہے ۔لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہروں کے لئے اچھا لباس ،اچھی وضع قطع ، عطر اور دوسرے لوازماتِ آرائش ضرور اختیار کریں ۔ ہاں بالوں کا کٹ کرنا ، بھنوئیں باریک کرنا ہرگز درست نہیں ہے اور ساتھ ہی تقریبات میں جہاں غیرمردوں کا سامنا ہو ایسا بنائو سنگھار نہ کریں کہ اُن پر غیر وں کو دعوت نظارہ دینے کا جرم لازم ہوجائے ۔